چوری کی سزا
کہانی کار: سید حبدار قائم
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جنگل میں گیدڑ رہتا تھا جس کی تمام جانوروں سے دوستی تھی لیکن چوری اس کی پرانی عادت تھی جسے وہ چھوڑنے کو تیار نہیں تھا اور وہ اکثر لومڑی کے گھر میں جا کر اس کا کھانا چپکے چپکے کھا جاتا تھا اس کو دوستوں نے بار بار منع کیا لیکن وہ اپنی عادت سے باز نہیں آتا تھا
جنگل میں کچھوے کا مقام اس لیے اونچا تھا کہ وہ جنگل میں قاضی تھا جو جانوروں میں عدالت لگا کر چوری کرنے والوں کے ہاتھ کٹواتا تھا
گیدڑ بھی چوری کے فن میں سب سے زیادہ ماہر تھا جس کے باعث ہر چوری پر وہ اکثر بچ جایا کرتا تھا
ایک دن اس نے دل میں سوچا کہ شیر کے گھر میں ڈاکا ڈالوں جب شیرگھر سے نکلے گا اس کا سب کھانا کھالوں گا
یہ سوچ کر گیدڑ گھر سے نکلا کہ آج شیر کے گھر میں ہرنی کا دل پہلے کھاوں گا بعد میں اس کا جگر چیروں گا اور اس کے ساتھ ہرنی کی ٹانگیں اور کلیجہ بھی نہ چھوڑوں گا یہ سوچتے سوچتے آخر شیر کے گھر جا پہنچا
اتفاق سے اس دن شیر گھر سے باہر تھا
گیدڑ نے جب غار میں دیکھا تو وہاں پر
ہرنی کا جسم خون میں لت پت پڑا تھا گیدڑ کا دل لالچ سے بھر آیا اور اس نے ہرنی کو کھانا شروع کر دیا
اسی اثنا میں لومڑی اس کا پیچھا کرتے کرتے شیر کے گھر تک بھاگتی ہوئی آ گئی اس نے غار میں گیدڑ کو جب ہرنی کا گوشت کھاتے دیکھا تو بھاگ کر شیر کے پاس گئی اور
گیدڑ کی چوری کے بارے میں
شیر کو سب کچھ بتا دیا یہ سن کر
شیر بھی گھر کی طرف دوڑ کر آیا تو اس نے
اپنے گھر میں گیدڑ کو چوری چوری اس کی شکار کی ہوئی ہرنی کھاتے پایا
ہرنی کا دل اس وقت گیدڑ کے منہ میں
دیکھ کر شیر غصے سے غرایا اور گیدڑ کو پکڑ لیا شیر نے گیدڑ کو رسی سے باندھا اور
پھر کچھوے کے سامنے پیش کیا جو جنگل کا قاضی تھا سارا معاملہ سن کر
جنگل میں کچھوے نے ایک اعلان کرایا کہ گیدڑ چوری کرتے ہوۓ پکڑا گیا ہے آج عدالت میں اس کے ہاتھ کاٹے جائیں گے یہ اعلان سن کر گیدڑ بہت گھبرایا
جنگل کے سب جانور اکھٹے ہو گئے
عدالت لگاۓ کچھوا کرسی پر بیٹھا تھا
ملزم اس کے سامنے لایا گیا تو کچھوے نے چوری کے گواہ مانگے جس پر لومڑی سامنے آئی جو گیدڑ کی دشمن تھی اس نے گواہی دی تو
ملزم پر جرم ثابت ہو گیا اور وہ مجرم قرار پایا اپنے کیے پر بہت پچھتایا اور زور زور سے رو کر کہنے لگا
میرے ہاتھوں کو نہ کاٹو میں آئندہ چوری نہیں کروں گا یہ کہتے کہتے
وہ شرم سے نگاہیں جھکاۓ کھڑا تھا لیکن کچھوا باز نہ آیا اور اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا
جب شیر نے روتا ہوا گیدڑ دیکھا تو
اس کو بے حد رحم آیا تو قاضی کچھوے سے کہنے لگا
جناب میں نے چور کو معاف کر دیا ہے اس لیے اس کو اس بار چھوڑ دیں کیوں کہ آپ کا
منصب اونچا ہے
رب کو بھی معاف کرنے والوں سے پیار ہے یہ سن کر کچھوا گیدڑ سے کہنے لگا کہ اب
چوری سے توبہ کر لو تو تمہاری جان بخشی جا سکتی ہے یہ سن کر
گیدڑ نے دوباری چوری نہ کرنے کا وعدہ کیا اور جلدی جلدی توبہ کر لی شیر سے معافی مل جانے پر اس نے شیر کے پنجوں کو چھو کر چوری سے توبہ کر لی
کچھوے نے جب اس کو چھوڑا تو اپنے
ہاتھوں کے نہ کٹنے پر خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف چلا گیا
پیارے بچو!
ہمارے مذہب میں بھی چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے اس لیے آپ بھی اپنا جسم اجلا رکھ کر چوری سے میلا نہ کرنا کیوں کہ چوروں کا دن رات نہیں ہے کبھی نہ کبھی پکڑے جاتے ہیں اور چوری کرنا اچھی بات نہیں ہے
اس سے سب کو چوری سے بچنا ہو گا اور جو کوئی غلطی کی معافی مانگے
تو اپنے دل سے معاف کر دینا کیوں کہ ایسا کرنے سے رب راضی ہوتا ہے اور آپ بھی اپنے رب کو راضی کرنے سے پیچھے نہ ہٹنا
کیونکہ یہ ہی بڑی کامیابی ہے
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |