فلسطین کے حق میں احتجاج
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
آج غزہ و فلسطین ایک بار پھر صیہونی بربریت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ لیکن ہم مسلمان ہونے کے باوجود خاموش ہیں۔ معصوم بچوں، خواتین اور عام شہریوں پر اندھا دھند بمباری اور فائرنگ کے واقعات نے پوری مسلم دنیا کو غم و غصے میں مبتلا کر رکھا ہے۔ لیکن ہم مسلمان ہونے کے باوجود خاموش ہیں۔ فلسطینی عوام پر ہونے والا ظلم کسی ایک قوم، مذہب یا علاقے کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ انسانیت کے وقار اور ضمیر کا امتحان بن چکا ہے۔ لیکن ہم مسلمان ہونے کے باوجود خاموش ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں جب بھی مظلومیت کا ذکر آئے گا فلسطین کی بے بسی اور امت مسلمہ کی خاموشی ایک کربناک باب کے طور پر لکھی جائے گی۔ لیکن ہم مسلمان ہونے کے باوجود خاموش ہیں۔
فلسطین پر یہودی ریاست کے قیام کی سازش 1917ء میں بالفور ڈیکلیئریشن سے شروع ہوئی جب برطانوی سامراج نے فلسطین کو یہودی وطن بنانے کا وعدہ کیا۔ 1948ء میں اسرائیل کے ناجائز قیام کے بعد سے آج تک فلسطینی قوم مسلسل تشدد، جبری ہجرت، نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم تھم نہیں رہے۔ حالیہ مہینوں میں غزہ پر بمباری، اسپتالوں، اسکولوں، عبادت گاہوں اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانے سے عالمی ضمیر بھی جھنجھوڑا جا رہا ہے۔ لیکن ہم مسلمان ہونے کے باوجود خاموش ہیں۔
مسلمانوں کے دل میں فلسطین کی حالت زار پر جو غم و غصہ ہے وہ فطری ہے۔ لیکن اس غصے کا اظہار حدود کے اندر رہتے ہوئے ہونا چاہیے۔ گزشتہ دنوں پاکستان کے مختلف شہروں میں غیر ملکی فوڈ چینز کے ریسٹورنٹس پر پرتشدد حملے، توڑ پھوڑ اور جان لیوا واقعات نے اس احتجاجی تحریک کو نقصان پہنچایا ہے۔ شیخوپورہ اور راولپنڈی کے واقعات میں نہ صرف قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا بلکہ اس سے فلسطینی کاز کو نقصان پہنچا کیونکہ احتجاج کا رخ ظلم کے خلاف ہونا چاہیے، نہ کہ اپنے ہی معاشرے اور لوگوں کے خلاف ہونا چاہئیے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر راغب حسین نعیمی اور ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی نے بجا طور پر اس امر کی وضاحت کی ہے کہ اسرائیل اور اس کی حمایت کرنے والی کمپنیوں کا بائیکاٹ ایک مؤثر اور شرعی طور پر جائز قدم ہے، لیکن اس کی آڑ میں کسی شخص یا ادارے کی املاک یا جان کو نقصان پہنچانا شریعت کی رو سے سختی سے منع ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ "لا ضرر ولا ضرار” (نہ خود نقصان پہنچاؤ اور نہ کسی کو نقصان دو) جیسے اصول پر عمل لازم ہے۔ جذبات میں آ کر توڑ پھوڑ اور فسادات اسلامی تشخص کے منافی ہیں۔
بائیکاٹ ایک خاموش لیکن مضبوط ہتھیار ہے۔ جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے خلاف معاشی بائیکاٹ کی کامیاب مثال ہمارے سامنے ہے۔ فلسطین کے حق میں اگر پوری دنیا کے مسلمان دانشمندانہ اور پُرامن طریقے سے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں تو یہ ان کے لیے زہرِ قاتل بن سکتا ہے۔ سوشل میڈیا، تعلیمی ادارے، مساجد اور علمی و ادبی حلقے اس شعور کی بیداری کے لیے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
فلسطینیوں سے یکجہتی صرف جذباتی نعرے بازی سے ممکن نہیں بلکہ شعور، علم، حکمت اور اسلامی تعلیمات کے عملی نفاذ سے ہی ممکن ہے۔ ہمیں ایسے ہر اقدام سے گریز کرنا چاہیے جس سے ہمارا احتجاج بدنام ہو یا دشمن کو اس کا فائدہ ملے۔ ایک طرف مظلوم فلسطینی بچہ خون میں لت پت ہے اور دوسری طرف ہم اپنی گلیوں میں اپنے ہی بھائیوں کے کاروبار کو نقصان پہنچا کر اُن مظلوموں کا مقدمہ کمزور کر رہے ہیں۔
اسلام ہمیں ظلم کے خلاف اٹھنے اور مظلوم کی حمایت کا حکم دیتا ہے، لیکن طریقہ کار وہی ہونا چاہیے جو نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سیرت سے ہمیں ملتا ہے۔ صبر، حکمت، استقامت اور قانون کی پاسداری بہت ضروری ہے۔ فلسطین کے لیے ہماری دعا، ہماری آواز، ہمارا شعور، ہمارا قلم اور ہمارا بائیکاٹ ، سب کچھ لازم ہے مگر صرف اس حد تک جو اسلام اور انسانیت کے دائرہ اخلاق میں آتا ہو۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |