نشاطِ سرمدی
تبصرہ نگار: سید حبدار قائم
الفاظ کا صوتی ترنگ اور باطنی پرتو کسی شخص یا زمین کے ظاہری منظر کو دیکھ کر جو کاغذ پر نقش بناتا ہے اسے خاکہ کہتے ہیں اصنافِ ادب میں خاکے کی حیثیت منفرد ہے اگرچہ اس کو کم لکھا گیا ہے
ادب میں خاکہ نگاری کسی شخصیت کی تصویر کشی کا نام ہے، خاکہ انسان کی مکمل شخصیت عادات و اطوار، خدو خال، زبان کی شائستگی اور ترش پن کی جیتی جاگتی اور چلتی پھرتی تصویر کاری ہوتی ہے جس میں کردار کو الفاظ کی سکرین پر دکھایا جاتا ہے
خاکے کی بنیادی خصوصیات میں اختصار، شخصیت کی ظاہری و باطنی عکاسی، اور دلچسپ انداز بیان شامل ہوتا ہے۔ خاکہ نگار کو شخصیت کے اہم پہلوؤں، جیسے دیکھنے کا انداز، ہونٹوں کا گفتگو میں حرکت کرنا بھنووں کا سکیڑنا تیوری چڑھانا اور لباس کی وضع قطع کو اجاگر کرنا ضروری ہوتا ہے یعنی بندہ پاس نہ ہو اور خاکہ قاری کو الفاظ میں بندہ دکھا دے کہ بندہ کیسا ہے خاکہ نگار کو شخصیت شںناسی کا علم ہونا چاہیے
میں نے سجاد حسین سرمد کو ان کی کتاب نشاطِ سرمدی میں خاکہ لکھتے ہوئے ان اوصاف میں نمایاں پایا ہے ان کی یہ کتاب اپنے حلقہء احباب کے گرد گھومتی ہے جس میں ان کے دوست، اساتذہ اور رشتہ دار شامل ہیں اٹک کی زمین اس لحاظ سے بہت خوش نصیب ہے کہ اس میں ادب میں ایسی ایسی شخصیات ابھریں جنہوں نے عالمی لیول پر نام کمایا جہاں تک اصناف ادب کا تعلق ہے ان میں خاکہ نویسی کی زمین تشنہ ہی رہی اس کی تشنگی دور کرنے کے لیے سجاد حسین سرمد آگے بڑھے اور اس صنفِ سخن کو سینے سے لگایا اور اسے آبیار کیا۔
سجاد حسین سرمد کی شخصیت کے بہت سارے پہلو ہیں لیکن اس تبصرہ میں ان کے خاکوں پر بحث کی جاۓ گی تو آئیے کتاب کا سرسری جائزہ لیتے ہیں
نشاطِ سرمدی کا بیک ٹائٹل فلیپ برصغیر پاک و ہند کے معروف افسانہ نگار ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے لکھا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ” یہ خطہ زمانہ قدیم میں مشہور ماہرِ اراضیات پانینی کا عارضی مسکن رہا یہیں بیٹھ کر پانینی نے زمین کا قطر دریافت کیا تھا بعد از آں اسی خطے میں خواجگان سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کے حضرت محمد یحیٰی اٹکیؒ جیسے فرد نے جنم لیا اور یہ خطہ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے مذہب سے متعلق باغیانہ لحن، ڈاکٹر محمد اجمل کے نفسیات سے شغف، پروفیسر محمد عثمان کی تاریخ اور اقبالیات سے رغبت دیوندر اسر کی افسانہ نگاری و تنقید اور نذر صابریؒ کی تحقیق اور مجلس آرائی کے سبب پہچانا گیا باقی مجھ جیسے ادھر کئی آئے اور گئے لیکن جسے دائمی نقش کہتے ہیں یہی اکابرین چھوڑ گئے سجاد حسین سرمد اس خطے سے متعلق ادب دوستوں کی یاد نگاری کی معرفت لمحہء موجود کی آنکھن دیکھی ادبی فضا رقم کر رہے ہیں اور ان کے ہاں بانسری نواز دلاور استاد، بھاگ بھری اور بابا منیر جیسے من موہنے کردار بھی مل جاتے ہیں اس ”کیمبل پوری ساگا“ کی فضا حد درجہ دل خوش کن ہے“
کتاب کے اندرونی ٹائٹل پروفیسر محمد انور جلال اور احمد علی ثاقب نے لکھے ہیں کتاب کا انتساب مشتاق عاجز، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد اور طاہر اسیر کے نام ہے
کتاب میں نو افراد کے خاکے لکھے گئے ہیں جن سب سے پہلے صابری صاحب اور پھر وقار صاحب، دلاور استاد، شیخ صاحب، بھاگ بھری، ماما داد، بابا منیر، حاجی عبدالطیف اور پولی ٹیکنیک کے اساتذہ شامل ہیں
اٹک میں نعت کے حوالے سے جس شخصیت نے سب سے زیادہ کام کیا ہے وہ نذر صابریؒ صاحب تھے نذر صابریؒ ایک ایسی شخصیت تھے جن کی وجہ سے اٹک کی شاعری کافی حد تک مضبوط ہے اور اس وقت جو نعت پر کام ہو رہا ہے وہ نذر صابریؒ کی مرہون منت ہے نشاطِ سرمدی میں سجاد حسین سرمد نذر صابریؒ کے سراپا کے متعلق لکھتے ہیں
” نذر صابریؒ جاذبِ نظر شخصیت تھے پرکشش چہرہ لمبے اور ضعیف جسم پر موزوں لگتا لمبی زلفوں نے جاذبیت کو چہار چند کر دیا تھا بال شانوں پر بکھرے رہتے، گرمیوں میں بال اکثر چھوٹے کروا دیا کرتے اور سر پر سفید رومال بے ترتیبی سے باندھا کرتے سردیوں میں چادر اوڑھے رکھتے، میں نے جس عمر میں انہیں دیکھا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جوانی میں بہت من موہنے ہوں گے زمردیں آنکھیں سونے پر سہاگا تھیں کوئی بھی ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی سکت نہیں رکھتا تھا کبھی کبھار آپ کی شبیہ کا بغور مشاہدہ کرتا لیکن نگاہیں چار ہوتے ہی آنکھیں جھکا لیتا مسکراہٹ اور متانت میں مناسب امتزاج ان کے وقار اور شکوہ کی چغلی کھاتا تھا اور آنکھوں سے اخلاقی تہذیب کی روشنی چھن چھن کر سامع کی تربیت کا سامان بہم پہنچاتی تھی“ نذر صابریؒ کے باطن میں رچ بس کر ان کے خاکے کو سجاد حسین سرمد نے چوبیس حصوں میں لکھا جو صفحہ نمبر 21 سے لے کر 44 تک مشتمل ہے اور اس کے متن کی سرخیاں یہ ہیں:۔
پہلی ملاقات، سراپا، انداز گفتگو، ہم دمِ دیرینہ، چائے نوشی، التفاتِ خاص، عتاب یار، کتاب سے محبت، مطالعہ کی وسعت، سخاوت، انسان دوستی، عبادات، شکوہء بے جا، جمال پسندی، دل ہی دکھانے کے لیے آ، بے نیازی تیری عادت ہی سہی، جلال، صحبتِ ناجنس، میں اور محفلِ شعر و ادب، کچھ دوریاں، راضی بہ رضا، مذہبی عقائد، اب وہ رعنائی خیال کہاں اور اللہ کا ولی شامل ہیں یہ خاکہ سرمد صاحب کی باطنی کیفیات کی غمازی کرتا ہے جو ان کے شب و روز نذر صابریؒ کی مجلس میں گزرے انہوں نے صابریؒ صاحب کے قول و فعل سے سیکھا اور ان کی شخصیت کے پرتو کاغذ پر خاکے کی صورت میں اتارے۔
اس کے بعد صفحہ نمبر 45 سے 59 تک دوسرا خاکہ وقار احمد آس پر مبنی ہے جس کی سرخیاں درج ذیل ہیں
حصارِ دوستاں، مستند ہے میرا فرمایا ہوا،خالد بیزار،بذلہ سنجی، جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد، ایسے عالم میں کیا گلہ کیجے،منصف مزاجی جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں،
خاکہ پڑھ کر وقار احمد آس کی شخصیت کے مختلف پہلووں کا پتہ چلتا ہے اس کے ساتھ ہی ان کی مفلسی رلاتی ہے لیکن اکثر شعرا غریب ہی ہوا کرتے ہیں اگرچہ خاکہ نگار نے وقار احمد کے کچھ منفی پہلو جن میں سخت تنقید کرنا ہے بھی بیاں کیا ہے لیکن تنقید نگاری یا تنقیص نگاری دونوں میں سے سیکھنے کے پہلو نکلتے ہیں جن سے ہمیں نفرت نہیں کرنی چاہیے بل کہ ان کو سیکھنے کا عمل گردانا جاۓ تو بہتر ہے
صفحہ نمبر 60 سے لے کر 63 تک دلاور استاد کا خاکہ ہے جو سروں سے محبت کرتے تھے اور اٹک کے خوبصورت بانسری نواز تھے وہ جب بانسری بجاتے تو اک سماں بندھ جاتا دلاور استاد ہمیشہ مثبت رویوں کے ساتھ زندہ رہے جو ان کا خاصہ تھا مفلسی اگرچہ ان کے در و بام سے جھلکتی تھی سجاد حسین سرمد ان کے وصف بیان کرتے ہوۓ کہتے ہیں
”عالمانہ اندازِ گفتگو، ادیبانہ شانِ بے نیازی، فقیرانہ جاہ و جلال، شاعرانہ نزاکتوں سے مزین میانہ قد کے حامل سانولے رنگ کا یہ شخص سرتاپا محبتوں کا مجموعہ تھا“
اسکے بعد صفحہ نمبر 64 سے لے کر صفحہ نمبر 73 تک شیخ صاحب کا خاکہ ہے جن کا نام اظہر علی اظہر ہے جنہیں ادب سے دلچسپی تھی اور خود بھی مصنف تھے
اگلا خاکہ بھاگ بھری ہے جو صفحہ نمبر 74 سے لے کر صفحہ نمبر 90 تک ہے اس خاکے میں سرمد صاحب نے گھروں کی بپتا بیان کی ہے جو کہ خالص دیسی گھی کی خوشبو کی طرح ہے اس کے جملوں کا حقیقی پن اور چستی دلوں کو چھوتی ہے اس معاشرے میں جس طرح بزرگوں کو بوجھ سمجھا جاتا ہے اور ان سے لاپرواہی برتی جاتی ہے ایک ایک لفظ مصنف کا دل کو بھاتا ہے طنزو مزاح کا شاہکار یہ خاکہ مجھے بہت پسند آیا ہے اس کا لفظ لفظ خاکے میں جان پیدا کر رہا ہے خاکہ جس دھوم سے شروع ہوا ہے اسی دھوم سے ختم ہوا ہے اور جذبات کی عکاسی کرتے ہوۓ قاری کے دل میں اتر جاتا ہے پورا خاکہ قاری میں بوریت پیدا نہیں کرتا بل کہ آگے پڑھنے کے لیے اس کے الفاظ مہمیز کا کام دیتے ہیں خاکے کے آخر پر کم سننے والی دادی کے بارے لکھتے ہیں
”میری چشمِ تصور نے وہ منظر بھی دیکھا ہے کہ جب عالمِ برزخ میں منکر نکیر نے دادی سے پوچھا” من ربک“ تو دادی نے بڑی بے نیازی سے کہہ دیا” نئیں پُتر ول آں“ اور منکر نکیر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو کر عالم بالا کو پلٹ گئے“
اس کے بعد اگلا خاکہ ماما داد ہے صفحہ نمبر 91 سے لے کر 96 تک ہے اس خاکے میں مصنف نے ماما داد کی روحانی کیفیت کو شگفتہ انداز میں بیان کیا ہے جن کی عقیدت کا مرکز بسال شریف تھا ماما داد ایسے لوگ مسکراہٹوں میں دنیا کی حقیقت بیان کر جاتے ہیں اور اندر ہی اندر ان کا دل روتا ہے خاکوں میں یہ خاکہ بھی پر اثر ہے پڑھتے پڑھتے ماما دا کے امرسوں کی خوشبو قاری کو اپنی مٹھاس اور رس بھرے ذائقے سے روشناس کراتی ہے جو کہ روحانیت کی قلبی واردات ہوتی ہے
اس کے بعد حاجی عبدالطیف اور پولی ٹیکنیک کے اساتذہ کے خاکے ہیں
اس کتاب میں جملوں کے دروبست میں کچھ چیزیں نئے قارئین کو سیکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں جیسے
مزید براں کی اصل املاء مزید بر آں،
گاہے بگاہے کی درست حالت گاہے بہ گاہے،
علیحدہ کی اصل صورت علاحدہ،
کیونکہ کی اصل املاء کیوں کہ،
بہرحال کی اصل صورت بہ ہر حال،
اور بقول کی اصل صورت بہ قول کتاب میں لکھ کر قاری کو سکھانے کی کوشش کی گئی ہے
چوں کہ ہماری روایت بن گئی ہے کہ جو لفظ پہلے کسی نے غلط لکھ دیے ہیں وہ ہر ایک نے لکھنے شروع کر دیے ہیں اس لیے سجاد حسین سرمد نے یہ روایت توڑ کر الفاظ کو اصل صورت کے ساتھ لکھا جو قاری کے علم میں اضافے کا موجب ہے
سجاد حسین سرمد کے خاکے قاری میں بوریت نہیں پیدا ہونے دیتے پڑھنے والا اپنی خود احتسابی کرتا ہے تو بہت سارے نقائص اسے اپنے اندر نظر آتے ہیں یہی وصف سرمد صاحب کو دوسرے خاکہ نگاروں سے ممتاز کرتا ہے
سجاد حسین سرمد کا اسلوب سادہ اور رواں دواں ہے جس میں مشاہدے کی گہرائی اور گیرائی دونوں پائی جاتی ہیں مزاحیہ جملے ایسے بے ساختہ ہیں کہ قاری مسکراہٹیں بکھیرتا جاتا ہے اور اسے الفاظ مہمیز کرتے جاتے ہیں سجاد حسین سرمد کے خاکوں میں افراد کے ظاہر و باطن ایسے پیراۓ میں بیان کیے گئے ہیں جن سے افراد کی حقیقی زندگی کھلی کتاب کی طرح سامنے آ جاتی ہےان میں جدیدیت کا عنصر نۓ خیالات کے تقاضوں کے مطابق اور
نظریات کو مدنظر رکھ کر لکھا گیا ہے یہ کتاب اٹک کے ادب میں بہترین شاہکار ہے
آخر میں دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت، سجاد حسین سرمد کی عزتوں میں اضافہ فرماۓ۔آمین
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |