خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
بشیر بدر کہتے ہیں کہ
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
ان خوبصورت اشعار کے خالق بشیر بدر اردو زبان و ادب کی تاریخ میں ایک ممتاز شاعر کے طور پر مشہور ہوئے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں بشیر بدر کا نام ایک ایسے شاعر کے طور پر لیا جاتا ہے جس نے روایت اور جدیدیت کے بیچ ایک حسین توازن قائم کیا۔ ان کی زندگی، تخلیقی سفر اور ادبی خدمات نہ صرف اردو ادب کے لیے سرمایہ افتخار ہیں بلکہ برصغیر پاک و ہند کی تہذیبی اور سماجی تاریخ کا بھی ایک اہم حوالہ ہیں۔
بشیر بدر کا اصل نام سید محمد بشیر تھا وہ 15 فروری 1935ء کو فیض آباد (موجودہ ایودھیا، اتر پردیش، بھارت) میں پیدا ہوئے۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے عظیم علمی ادارے سے وابستہ رہے جہاں سے انہوں نے بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں اور بعد ازاں تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔ علی گڑھ کی علمی فضا نے ان کی فکر اور جمالیاتی ذوق کو جِلا بخشی۔
ان کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ پہلو 1987ء کے میرٹھ فسادات ہیں، جب ان کا گھر اور کتب خانہ جلا دیا گیا۔ ہزاروں اشعار اور مسودات خاکستر ہوگئے۔ اس حادثے نے نہ صرف ان کی نجی زندگی کو بدل کر رکھ دیا بلکہ ان کے فکری اور تخلیقی رجحانات پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ بعد ازاں وہ بھوپال منتقل ہوگئے جہاں ان کی زندگی کا نیا باب شروع ہوا۔
انہوں نے شاعری کا آغاز سات برس کی عمر میں کیا اور رفتہ رفتہ وہ اردو غزل کے جدید لہجے کے بڑے نمائندہ شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ ان کی شاعری میں جابجا محبت، فلسفہ، سماجی شعور اور عصری مسائل کا حسین امتزاج ملتا ہے۔
ان کے مجموعات ’’آمد‘‘، ’’آہٹ‘‘، ’’ایمیج‘‘، ’’اجالے اپنی یادوں کے‘‘، ’’اکائی‘‘ اور ’’کلیاتِ بشیر بدر‘‘ ان کی تخلیقی عظمت کے شاہکار ہیں۔
تنقید کے میدان میں ان کی دو کتابیں — ’’آزادی کے بعد اردو غزل کا تنقیدی مطالعہ‘‘ اور ’’بیسویں صدی میں اردو غزل‘‘ اردو ادب میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں انہوں نے آزادی کے بعد غزل کی داخلی اور خارجی تبدیلیوں کا جائزہ نہایت باریک بینی سے لیا۔
بشیر بدر کی شاعری میں عشق و محبت کے نازک جذبات، زندگی کی تلخ حقیقتیں اور سماجی اقدار کی کشمکش ایک ساتھ جلوہ گر ہیں۔ وہ روایت سے جڑے ہوئے ہیں لیکن ان کی زبان اور طرزِ اظہار جدید قاری کے دل کو چھو لیتا ہے۔
ان کے ہاں رومانی تجربات کے ساتھ ساتھ ایک وسیع تر انسانی دکھ اور اجتماعی شعور بھی ملتا ہے:
وہ غلامی کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔
خدا، عشق اور انسانیت کو ایک نئے زاویے سے دیکھتے ہیں۔
ان کی شاعری میں داخلی سوز اور بیرونی حقیقتوں کا امتزاج نظر آتا ہے۔
ان کے اشعار میں موسیقیت اور روانی ایسی ہے کہ عام قاری بھی فوراً متاثر ہوجاتا ہے اور دانشور بھی ان کی گہرائی کو محسوس کرتا ہے۔
بشیر بدر صرف شعری دنیا تک محدود نہیں رہے بلکہ ان کے اشعار سیاست اور عوامی زندگی میں بھی مشہور ہوئے ہیں۔ ان کا مشہور شعر
’’دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہوجائیں تو شرمندہ نہ ہوں‘‘ 1972ء کے شملہ معاہدے کے موقع پر ذوالفقار علی بھٹو نے بھی بشیر بدر کا یہ پڑھا تھا۔ بھارتی پارلیمان میں بھی ان کے اشعار نریندر مودی اور راہل گاندھی جیسے رہنماؤں کی زبان پر آئے۔
ان کے کلام کو فلمی دنیا اور پاپ کلچر ثنے بھی اپنا حصہ بنایا۔ 2015ء کی فلم ’’مسان‘‘ میں ان کی شاعری کو بطور خراجِ عقیدت شامل کیا گیا۔
بشیر بدر کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں پدم شری ایوارڈ (1999ء) اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کا شمار ان چند شعرا میں ہوتا ہے جنہیں عوامی سطح پر بھی مقبولیت ملی اور ادبی دنیا میں بھی۔
ان کی شاعری کا سب سے نمایاں پہلو اس کی سادگی اور اثر آفرینی ہے۔ ناقدین کے نزدیک وہ غزل کو عوامی سطح پر لے آئے جس سے ’’ادب برائے ادب‘‘ کا معیار قدرے نرم پڑ گیا۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے اردو غزل کو نئی نسل میں زندہ رکھنے اور اسے عام قاری کے ذوق سے جوڑنے میں بے مثال کردار ادا کیا۔
ان کی شاعری میں روایت اور جدیدیت کی کشمکش ایک نئی جمالیات کو جنم دیتی ہے۔ وہ نہ تو محض روایتی شاعر ہیں اور نہ ہی فقط جدیدیت کے نمائندہ؛ بلکہ انہوں نے دونوں کے درمیان ایک پل باندھنے کی کوشش کی ہے۔
بشیر بدر کی زندگی دکھوں، جدوجہد اور تخلیقی کامیابیوں کی داستان ہے۔ ان کی شاعری اردو غزل کی تاریخ میں ایک روشن باب ہے جس میں عشق، کرب، فلسفہ اور سماجی شعور سب کچھ موجود ہے۔ ان کے اشعار آج بھی قاری کے دل کو چھونے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ ان کے اشعار میں انسان کی بنیادی کیفیات اور جذبات کی سچائی جھلکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے ان مشہور زمانہ غزل پیش خدمت ہے۔
*
غزل
*
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
خطاوار سمجھے گی دنیا تجھے
اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے
ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے
غلامی کو برکت سمجھنے لگیں
اسیروں کو ایسی رہائی نہ دے
خدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے
مجھے ایسی جنت نہیں چاہیے
جہاں سے مدینہ دکھائی نہ دے
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |