پاکستان کی چراگاہیں: ایک انمول خزانہ جو ہماری توجہ کا منتظر ہے
تحریر: اسد عباس خان شیروانی
(ریسرچ آفیسر، بارانی ایل پی آر آئی، کھیری مورت، اٹک)
پاکستان کی زمین قدرتی حسن اور وسائل سے مالا مال ہے، لیکن بدقسمتی سے ہم نے اپنے بیش قیمت خزانے یعنی چراگاہوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔ چراگاہیں وہ وسیع علاقے ہیں جہاں قدرتی نباتات اگتی ہیں اور جہاں مویشی آزادانہ چر سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں ان زمینوں کو سائنسی طریقوں سے بہتر بنا کر معاشی ترقی کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے، مگر پاکستان میں یہ قیمتی زمینیں بدحالی اور بے توجہی کا شکار ہیں۔
ہمارے ملک کی چراگاہیں نہ صرف رقبے کے لحاظ سے بڑی ہیں بلکہ زمین، آب و ہوا، نباتات اور پیداوار کے لحاظ سے بھی بہت متنوع ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ زیادہ تر چراگاہیں کمزور مٹی، ہلکے زمین کے ڈھانچے اور نیم خشک آب و ہوا کی وجہ سے کمزور ہو چکی ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان میں کچھ علاقے اب بھی ایسی چراگاہوں سے مالا مال ہیں جو اگر محفوظ کی جائیں تو ملک کی مویشی پال معیشت میں انقلاب لا سکتی ہیں۔ اسلام آباد، راولپنڈی، جہلم، چکوال، اٹک اور خوشاب جیسے علاقوں کی زمینیں مویشیوں کے لیے انتہائی موزوں ہیں جہاں بہترین معیار کا چارہ اور گھاس موجود ہے۔
مویشی پالنا دنیا کا سب سے پرانا اور معزز پیشہ ہے، اور اسلامی تاریخ میں بھی انبیائے کرام (علیہم السلام) نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں مویشی چرائے ہیں۔ پاکستان کی ثقافت میں چرواہوں کی زندگی آج بھی زندہ ہے، جس کی جھلک ہمیں لوک کہانیوں جیسے ہیر رانجھا اور سوھنی ماہیوال میں ملتی ہے۔ ملک میں خانہ بدوش چرائی اور محدود علاقوں میں چھوٹے ریوڑوں کی منظم چرائی عام ہے، مگر جدید رینج مینجمنٹ کا سائنسی تصور بدقسمتی سے اب تک عوامی شعور میں نہیں آ سکا۔
پاکستان کے چرواہے عموماً جدید طریقوں سے بے خبر ہیں اور مروجہ روایات سے چمٹے ہوئے ہیں۔ زمین کی ذاتی ملکیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ نہ تو احتیاطی تدابیر اپناتے ہیں اور نہ ہی بہتری کے لیے کوئی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ وہ بڑی تعداد میں مویشی رکھتے ہیں، چاہے زمین اس بوجھ کو برداشت کرنے کے قابل نہ ہو۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چراگاہیں مزید خراب ہوتی جاتی ہیں اور ان کی زرخیزی کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
پاکستان کی زیادہ تر چراگاہیں اب صحرا اور نیم صحرائی علاقوں میں رہ گئی ہیں۔ تھل، چولستان، نارا، تھرپارکر، کوہستان، اور چاغی جیسے علاقوں میں چرائی کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ صحرا دراصل قدرتی نہیں، بلکہ صدیوں کی بے دریغ چرائی، درختوں کی کٹائی، زمین کو روندنے اور ایندھن کے لیے لکڑی جلانے کا نتیجہ ہیں۔ آج یہ قیمتی زمینیں اپنی ممکنہ پیداوار کا صرف 10 سے 50 فیصد فراہم کر رہی ہیں۔ بدقسمتی سے ان علاقوں میں مٹی کا کٹاؤ، سبزے کی کمی اور پیداوار کی مزید گراوٹ کا عمل مسلسل جاری ہے۔
یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم پاکستان کی چراگاہوں کو بچانے اور دوبارہ زندہ کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ چرواہوں میں آگاہی مہمات چلانا، زمین کی حفاظت کے لیے حکومتی مراعات دینا اور پائیدار چرائی کے اصول رائج کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ اگر ہم نے اپنی چراگاہوں کی حفاظت نہ کی تو یہ قیمتی زمینیں مکمل بربادی کی طرف جا سکتی ہیں۔
پاکستان کی چراگاہیں ہمارا قدرتی خزانہ ہیں۔ اگر ہم نے بروقت صحیح فیصلے کیے تو یہ زمینیں نہ صرف ہمارے مویشیوں کے لیے بہتر خوراک فراہم کریں گی بلکہ ملکی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کریں گی۔ یہ وہ موقع ہے جسے ہمیں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
Title Image by Ronald Plett from Pixabay

ریسرچ آفیسر، بارانی ایل پی آر آئی، کھیری مورت، اٹک
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |