ویران ہوتے تعلیمی ادارے اور اس کی وجوہات
عبدالرؤف ملک کمالیہ
تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے لیکن جب نوجوان اپنی زندگی کے سب سے قیمتی بیس پچیس سال تعلیم حاصل کرنے پہ لگائیں اور پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہیں ان کی قابلیت، مہارت اور ضرورت کے مطابق روزگار میسر نہ ہو تو قوم کا تعلیم پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ بدقسمتی سے آج پاکستان میں یہی ہو رہا ہے۔ لاکھوں نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بےروزگار ہیں۔ اس صورتحال نے نئی نسل کو مایوسی، بددلی اور تعلیم سے دوری کی طرف دھکیل دیا ہے۔
والدین اپنی اولاد پر برسوں تک سرمایہ خرچ کرتے ہیں اور بچے بھی شب و روز محنت کے بعد ڈگریاں حاصل کرتے ہیں لیکن جب وہ اپنی عملی زندگی کا آغاز کرتے ہیں تو انہیں نئے سرے سے شروع ہونا پڑتا ہے کیونکہ مارکیٹ میں کاروباری معاملات اور زمینی حقائق ان کی تعلیم سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ مناسب روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے انہیں نہ صرف شدید ذہنی دباؤ اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ بہت سے مالی مسائل سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنی ڈگریوں سے ہٹ کر چھوٹے موٹے کام کرنے پڑتے ہیں جو ان کی تعلیم اور قابلیت کے مترادف نہیں ہوتے۔ اسی طبقہ میں سے کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو اعلیٰ تعلیم کے بعد چھوٹے کاموں کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور بےراہروی اختیار کرلیتے ہیں اور خود کو منفی سرگرمیوں میں مشغول کرلیتے ہیں اور معاشرے کو چوری، ڈکہ، راہ زنی اور دہشت گردی جیسے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہمارا معاشرہ جب اس طرح کے مسائل سے دوچار ہوتا ہے تو نوجوانوں کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ تعلیم ایک لاحاصل کوشش ہے۔ اس وقت پاکستان بالخصوص صوبہ پنجاب کو اسی قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ سرکاری محکموں میں نئی بھرتیاں نہ ہونے اور مستقل ملازمتیں ختم ہونے کی وجہ سے والدین اور طلبہ دونوں نے اعلیٰ تعلیم سے منہ موڑ لیا ہے۔ بیشتر لوگ تعلیم حاصل کرنے کو پیسے اور وقت دونوں کا ضیاع سمجھنے لگے ہیں۔ تعلیمی ادارے ویران ہونے لگے ہیں۔ یونی ورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں نئے داخلہ جات کا حال اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ ادارے جن میں چند سال پہلے داخلہ لینے کےلیے جگہ نہیں ملتی تھی اور طلبا کو سخت میرٹ کا سامنا کرنا پڑتا تھا اس وقت ان اداروں کی آدھی سے زیادہ نشستیں خالی رہ جاتی ہیں۔
صوبہ پنجاب میں محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت دو ایسے ادارے ہیں جنہیں سرکاری نوکریوں کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا جاتا تھا لیکن موجودہ صورتِ حال میں بہت سے سرکاری ہسپتال اور سرکاری سکولوں کو آؤٹ سورس کے نام پہ پرائیویٹ مافیا کے حوالے کرکے نوجوانوں کی ڈگریوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا ہے۔ جو مافیاز مختلف این۔جی۔اوز کے نام پر ان سکولوں اور ہسپتالوں کو اپنی تحویل میں لے رہے ہیں وہ اس تعلیمی کاروبار میں امیر سے امیر تر ہورہے ہیں اور ہماری قوم کا مستقبل ہمارا اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مہنگائی کی چکی میں پِس کر کندھوں پہ ذمہ داریوں کا بوجھ لادے دس سے پندرہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پہ کام کرنے پر مجبور ہے۔ ان تمام حالات کی ذمہ دار صرف اور صرف موجودہ حکومت کی ناقص پالیسیاں ہیں جو سرکاری اداروں میں مناسب سہولیات اور سٹاف کی کمی پوری کرنے کے بجائے راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے سرکاری اداروں کو پرائیویٹ کر رہی ہے اور سرکاری ملازمتیں ختم کر رہی ہے۔ عوام چیخ رہی ہے لوگ بلبلا رہے ہیں کہ جب انگلیوں پہ ناخن بڑھ جائیں تو صرف ناخن کاٹے جاتے ہیں پورا ہاتھ ہی کاٹ کر نہیں پھینکا جاتا لیکن ان صاحبِ اختیار طبقے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ان کی توجہ بس ایک ہی مقصد پر مرکوز ہے کہ سرکاری اداروں کو پرائیویٹ کرکے ریاست کا بوجھ کم کرنا ہے۔ کاش ان کو یہ بھی سمجھ آجائے کہ سرکارے ادارے ہی ریاست کی قوت اور شان ہوتے ہیں۔ جہاں تعلیم اور صحت کو ریاست پر بوجھ سمجھا جائے اور ان خدمات کو نفع اور نقصان کی کسوٹی پر پرکھا جانے لگے تو وہاں پھر تعلیمی ادارے ویران ہی ہوتے ہیں۔ ان میں پھر سائنسدان، ماہرِ تعلیم اور مثبت سوچ کے حامل اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی بجائے ٹک ٹاک، یوٹیوبرز اور خرافات میں پڑے افراد ہی جنم لیتے ہیں۔ ایسی قوم اور اس کے حکمرانوں کی سوچ پر پھر فاتحہ ہی پڑھ لی جائے تو بہتر ہے۔
ہمارے اربابِ اختیار اور صاحبِ اختیار لوگوں کو سوچنا ہوگا کہ ہم اپنی نوجوان نسل کے خوابوں کو کیسے خاک کر رہے ہیں ان کے حق پر کیوں ڈاکہ ڈال رہے ہیں انہیں کیوں مایوسیوں کے اندھیروں میں دھکیل کر ان کا مسقبل تاریک کررہے ہیں یہ سب کچھ ابھی سوچنا ہوگا ورنہ ہماری قوم تعلیم یافتہ اور سمجھدار افرادی قوت سے محروم ہوجائے گی۔ والدین کی ترجیحات اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے بجائے بچپن ہی سے محنت مزدوری پہ لگانا ہوں گی۔ تعلیمی ادارے خدانخواستہ ویران کھنڈرات اور چائلڈ لیبر کی جگہیں آباد نظر آنے لگیں گی۔ اگر ہماری قوم نے مایوسی اور بددلی کا شکار ہوکر واقعی تعلیم سے منہ موڑ لیا تو یہ ملک و قوم کا اتنا بڑا نقصان ہوگا جس کا ازالہ صدیوں میں بھی ممکن نہ ہوگا۔

نام: عبدالرؤف ملک (کمالیہ)
تعلیم: ایم۔ اے اردو، ایم اے اسلامیات، ایم۔ ایڈ
پیشہ: پیشے کے لحاظ سے میں بطورِ ٹیچر سرکاری سکول میں خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔
ادبی خدمات: تقریباً دس قومی اخبارات میں کالم لکھتا ہوں جن میں پہچانِ پاکستان، روزنامہ طالبِ نظر، کرائم میل نیوز اور روزنامہ راہنما قابل ذکر ہیں۔
اعزازات: برونز میڈل (ایجوکیشن بورڈ فیصل آباد BISE)
طالبِ نظر ادیب اثاثہ پاکستان ایوارڈ 2024
پہچان پاکستان ادبی ایوارڈ 2024
میرا ادب میری پہچان ایوارڈ 2025
روزنامہ طالبِ نظر کی طرف سے اعزازی میڈل
رائٹر ممبر EEFP (ایکسپرٹ ایمرجنگ فورس پاکستان)
اور بہت سے دیگر اداروں اور تنظیموں کی طرف سے بہت سے اعزازی سرٹیفکیٹ اور تعریفی اسناد
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |