اداکارہ تنہائی سے مری، خودکشی کی یا قتل ہوئی؟
میں دوستوں کو مغربی معاشروں میں مرتی ہوئی انسانی اقدار کی کہانیاں سنایا کرتا تھا۔ پہلے کراچی میں اداکارہ عائشہ خان کی موت ہوئی اور اس پر لکھا۔ اس واقعہ کا ایک ہفتہ بعد ہی پتہ چل گیا تھا۔ اب اداکارہ حمیرا علی کی موت بھی تنہائی میں ہوئی۔ اس کے بارے پہلے کہا گیا کہ اس کی موت ایک ماہ قبل ہوئی۔ پھر خوفناک حد تک ایس ایس پی جنوبی مہروز علی نے کہا کہ، "اب تک ہونے والی تحقیقات کی روشنی میں امکان ظاہر ہوا ہے کہ حمیرا اصغر کی لاش ممکنہ طور پر 6 ماہ سے زائد پرانی لگتی ہے۔” اس سے بھی بڑا خطرناک معمہ بعد میں یہ نکلا کہ لاش کا پوسٹ مارٹم ہوا تو پولیس کی ابتدائی رپورٹ سے پتہ چلا کہ یہ لاش تو 9 ماہ پرانی ہے۔
پوسٹ مارٹم سے بھی پہلے ایک خبر یہ بھی سامنے آئی تھی کہ لاش پر تشدد کے نشانات تھے اور فلیٹ کو اندر سے کنڈی بھی لگی ہوئی تھی اور پولیس دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئی تھی۔ اس سے بھی بڑی حیران کن یہ خبر بھی نکلی تھی کہ مالک مکان کرایہ لینے کے لیئے پولیس لے کر آیا تھا جس کے بعد کرایہ ملنے کی بجائے اس کی 9 ماہ پرانی لاش ملی تھی، جس سے یہ ظاہر ہوا تھا کہ جسم کے سب سے آخر میں ڈی کمپوز ہونے والے اعضاء یعنی سر کا پچھلا حصہ اور گھٹنے بھی گل چکے تھے۔ ایک ہاتھ بھی گل سڑ کر علیحدہ ہو گیا تھا۔
اداکارہ حمیرا اصغر کی موت کا معاملہ اتنا سیدھا اور سادہ نہیں جتنا رپورٹ ہوا ہے۔ اس المناک واقعہ کی سخت اور کڑی تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ اس جواں سالہ لڑکی کے ساتھ کوئی ظلم ہوا، اس نے خود کشی کی یا وہ "قتل” ہوئی، جیسا بھی ہوا اب اسے انصاف ملنا چایئے۔
ابتداء سے یہی کہا جاتا رہا کہ اداکارہ عائشہ خان اور حمیرا علی، کی اموات کی نوعیت ایک جیسی ہے کہ دونوں اداکارائیں اپنے فلیٹوں میں تنہا رہ رہی تھیں اور ان کا اپنے رشتہ داروں سے بہت کم رابطہ ہوتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ بھائی، بہن اور والد حمیرا کی لاش لینے سے کیوں انکاری ہوئے؟ کسی دشمن کی موت پر بھی ایسی سنگ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا، جبکہ وہ تو ایک بہن اور ایک بیٹی تھی، جس کو مرنے کے بعد تو معاف کیا جا سکتا تھا۔ اب طرح طرح سے غیرت کے نام پر ان ظالم والدین کا بھی دفاع کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے شو بزنس کی چکا چوند دنیا میں جانے سے روکا تھا اور جب وہ نہیں رکی تھی تو انہوں نے اس سے قطع تعلق کر لیا تھا۔
پہلے سانحہ سوات کا اثر کئی روز تک دل اور روح پر چھایا رہا کہ 15 چھوٹے بڑے انسانی نفوس کس بے بسی کے عالم میں موت کو سامنے دیکھ کر مدد کے لیئے چیختے چلاتے رہے مگر بلآخر بے یارومددگار موت کے منہ چلے گئے اور کوئی انسان انہیں بچانے کے لیئے آگے نہ بڑھا۔ اس واقعہ سے ایک روز قبل بدچلنی کے الزام پر ایک بیٹے نے اپنی ماں کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔ اسی روز سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں ایک خاوند "غیرت نامی بے غیرتی” میں اپنی بیوی پر بری طرح سے تشدد کرتا نظر آیا۔ اب جب سے یہ واقعہ پڑھا ہے تب سے 48 گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا ہے، حرام ہے کہ ایک پل بھی آنکھ لگی ہو۔
آخر ہماری غیرت عورت یا بیٹی کے نام پر ہی کیوں جاگتی ہے کہ جب یہی کام اگر بیٹا کرتا ہے تو اسے ہم آمدنی کا قابل فخر زریعہ کیوں محسوس کرتے ہیں؟ اب ہمارا معاشرہ اس قتل میں انصاف دلانے کی بجائے بے شرمی سے طرح طرح کی تعویلات پیش کر رہا ہے۔ ایک بیٹی کی تنہائی میں پراسرار موت کیا ہوئی، لوگ اس پر افسوس کرنے کی بجائے اس واقعے کو استعمال کر کے اپنے اپنے نظریات کی مارکیٹنگ میں مصروف ہو گئے ہیں کہ دیکھو یہ کیا ہو گیا، ایسی زندگی کا یہی نتیجہ نکلنا تھا، والدین کی نافرمانی عبرت کا سامان ہو گیا اور فلاں ہو گیا ڈھمکان ہو گیا وغیرہ وغیرہ۔ اس بیٹی کے پیشے اور ان کے اپنے خاندان سے تعلق کی نوعیت وغیرہ کو بنیاد بنا کر ہر ایک اپنا سودا بیچنے میں لگ گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ نظریاتی گِدھوں کو ایک لاش نوچنے کو مل گئی ہے۔ کچھ ان کی موت کی نوعیت کو بنیاد بنا کر بیانیئے گھڑ رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ تنہا رہنا بھی ہر کسی کا حق ہے جیسا کہ خاندان میں رہنا حق ہے۔
یہ ضرور ہے کہ ہر دو طرح کے طرز زیست کے اپنے اپنے مثبت اور منفی پہلو یا اثرات ہوتے ہیں۔ خدا کا کچھ خوف کرو لوگو، جب یہی کام بیٹے کرتے ہیں تو کیوں خاموش رہتے ہو، کیا تمھارا زور کمزور عورت اور صرف محصوم بیٹیوں پر چلتا ہے جن کو اسلام نے بلند ترین رتبہ دیا ہے؟
ہمارا معاشرہ آدھے تیتر اور آدھے بٹیر کا نمونہ بنا ہوا ہے، نہ ہی ہم مغرب کے فلسفے کو سمجھ پائے ہیں اور نہ ہی مذہب کو مکمل طور پر اپنانے میں کامیاب ہونے ہیں، کسی کو بے بسی کی اس موت پر خود اپنی بیٹیاں کیوں یاد نہیں آئی ہیں اور ان کی چیخیں کیوں نہیں نکل رہی ہیں؟ عنقریب بہت جلد ہمارے شہروں میں اور مدرسوں کے ساتھ "اولڈ ہومز” بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ بہتر تو یہی ہے کہ یونیورسٹیز میں اب ایسے کورسز متعارف کرا دیئے جائیں جہاں سے ہمیں پیشہ ور تربیت یافتہ اولڈ کیئررز میسر آ سکیں۔ ایمبولینس ڈرائیور زبیر بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ فلیٹ پر پہنچے تو اس وقت تک پولیس دروازہ توڑ کر اندر داخل ہو چکی تھی۔ زبیر بلوچ کہتے ہیں کہ انھوں نے دیکھا کہ "سٹور روم جیسے ایک کمرے میں فرش پر قالین کے اوپر ایک عورت کی لاش پڑی ہوئی تھی جس نے نیلے رنگ کی پتلون اور پنک رنگ کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ گھر میں بجلی نہیں تھی۔ دوسری طرف سے کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں۔ شاید اسی وجہ سے بدبو باہر نہیں گئی۔ میرے اندازے کے مطابق لاش کم از کم ایک ماہ پرانی ہو گی۔” یہ عین ممکن ہے کہ قاتل نے حمیرا کو قتل کیا ہو اور وہ فلیٹ کو اندر سے کنڈی لگا کر کھڑی کے ذریعے باہر چلا گیا ہو تاکہ اسے خودکشی ثابت کیا جا سکے۔
ہم سب مسلمان کسی لاوارث اور اجنبی کی میت کو کوئ تعلق اور رشتہ ناطہ نہ ہوتے ہوئے بھی صرف دین اور انسانیت کی خاطر کفن دفن اور نماز جنازہ کر دیتے ہیں۔ اب حمیرا جیسی بھی تھی لیکن اب تو وہ اللہ کے حضور پیش ہو چکی۔ اس کے والدین کم از کم اس کا جسد خاکی تو انسانیت کے ناطے وصول کر کے تدفین کر دیتے۔ اتنی بھی کیا سفاکی اور سنگدلی ہوئی کہ بیٹی کی بوسیدہ لاش سے بھی نفرت کا اظہار کر دیا۔ اسے انگلی پکڑ کر چلنا تو آپ نے ہی سکھایا ہو گا۔ تعلیم و تربیت بھی آپ نے ہی کی ہو گی۔ تو جب آپ کے خاندان میں یا آپ کے نزدیک شوبز ایک شجر ممنوعہ اور سخت قسم کا پاپ وغیرہ تھا تو وہ کیسے اس راہ میں اتنی آگے نکل گئی کہ آپ کو خبر ہی نہ ہوئی؟ سوچیئے آپ نے اس راہ پر اس کا پہلا قدم ہی کیوں نہ روکا؟ سوچیئے قصور وار کون ہے؟
ہم جن مغربی معاشروں کی انسانی اقدار اور اخلاقیات کا گلہ کرتے نہیں تھکتے اب ہمارے معاشرے میں بھی ایسے واقعات پیش آنا شروع ہو گئے ہیں کہ مرنے والوں کی لاشیں ان کے فلیٹوں سے بدبو آنے پر ملنے لگی ہیں۔ اب ہمیں یہ مغربی معاشروں میں مرتی ہوئی انسانی اقدار کی کہانیاں سنانا بند کرنا ہوں گی۔ اس کیس کی مکمل تحقیق کی جانی چایئے کہ اداکارہ نے خود کشی کی، وہ مایوسی کی وجہ سے تنہائی یا ہارٹ اٹیک وغیرہ سے مری یا اسے قتل کیا گیا؟ اس واقعہ میں والدین اور دیگر لواحقین کو بھی شامل تفتیش کیا جانا ضروری ہے۔ اللہ پاک اس بیٹی کا سفر آخرت آسان فرمائے۔ سنا ہے کہ اداکارہ کے باپ، بھائیوں یا بہنوں کی بجائے لاہور کی کسی اور درد دل خاتون نے اس کی لاش کو موصول کرنے کی تادم تحریر ذمہ داری اٹھا لی تھی۔ یا اللہ ہمارے بے حس اور اخلاق باختہ معاشرے پر رحم فرما۔ آمین!

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |