دھیان کی منزل کا تقاضا ہے کہ نہ صرف ہماری آنکھیں کھلی رہیں تاکہ مشاھدے کی مدد اور رسد سے ہمارا شعور توانا ہو بلکہ ذھن پر کوئی پٹی بھی نہ بندھی ہو ، کوئی ایسا خول نہ چڑھا ہو کہ جو تاذہ ہوا کے جھونکوں کو اندر آنے سے روکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ، کچھ پانے ، حاصل کرنے ، سوچنے اور سمجھنے کی جستجوء بھی موجود ہونی چاھئیے ۔

زندگی لفظوں کی شطرنج ہے ‘ ابنِ صفی نے زندگی کی عملی تفسیر پانچ لفظوں میں بیان کردی تھی سارا کھیل ہی لفظوں کا ہے پہلی بازی سے آخری چال تک نیکی بدی ، دِن رات ، روشنی تاریکی کی طرح لفظوں کے سفید و سیاہ مُہرے اپنی مثبت اور منفی چالوں کے ساتھ ہمارے اندر اور ہمارے باہر ہمیں مضبوط یا کم زور بنارہے ہیں ۔

صدیوں کی پیاسی، سسکتی اور خزان رسیدہ زمین جسے ساون رت کا انتظار رہتا ہے اس زمین کی تشنگی کا عذاب کیسا ہو گاواقف حال خوب جانتے ہوں گے، جس دھرتی کے بھاگ میں پسماندگی کے دکھ بھرے ہوئے تھے اسی دھرتی کا ایک ٹکڑا پنجاب کا آخری ضلع بھی […]

نہ جگہ جگہ تبلیغی اجتماع ، نہ عمرہ حج کرنے جانے والوں کا رش ، نہ گلی گلی مساجد، نہ محلے محلے مدارس ، نہ لاکھوں علما، نہ کوئی پیر نہ کوئی مزار، نہ کوئی قطب نہ کوئی ابدال، اور نہ کوئی حوروں کی ترغیب دے کر لبھانے والا۔