سوات کے مدرسے میں طالبعلم کا بہیمانہ قتل
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
برصغیر پاک و ہند میں دینی مدارس کا نظام اسلامی تعلیمات کے فروغ، قرآن و سنت کی اشاعت اور مذہبی تشخص کی بقا کے لیے ہمیشہ سے ایک اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء، جامعہ اشرفیہ، جامعہ بنوریہ، جامعہ حقانیہ جیسے ادارے اس نظام کی علمی روایت کے نمائندہ ستون ہیں جنہوں نے ہزاروں علما، مفسرین، محدثین اور مبلغین پیدا کیے۔
قیام پاکستان کے بعد مدارس کا دائرہ وسیع تر ہوا اور دینی علوم کے فروغ کے ساتھ ساتھ کچھ مدارس نے فلاحی، سماجی، اور رفاہی شعبوں میں بھی کام کیا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ مدرسہ نظام میں نگران، تربیتی اور احتسابی پہلو کمزور ہوتے چلے گئے، جس کے نتیجے میں کچھ غیر رجسٹرڈ یا غیر منظم مدارس میں نہ صرف تعلیمی معیار متاثر ہوا بلکہ اخلاقی و قانونی انحرافات بھی جنم لینے لگے۔
سوات کے علاقے خوازہ خیل میں 14 سالہ حافظ قرآن طالبعلم کی استاد کے ہاتھوں لرزہ خیز ہلاکت نے معاشرے کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ یہ واقعہ محض ایک جرم ہی نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی خاموشی، قانونی بے عملی اور دینی اداروں میں تربیتی انحطاط کی المناک علامت بھی ہے۔
مدارس میں جسمانی تشدد کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ پاکستان پینل کوڈ، چائلڈ پروٹیکشن قوانین اور اقوام متحدہ کے چائلڈ رائٹس کنونشن کے تحت بچوں پر تشدد جرم ہے۔ تاہم ان قوانین کا اطلاق صرف اس وقت ہوتا ہے جب کوئی جان چلی جائے یا میڈیا پر شور مچایا جائے۔ اکثر والدین خوف یا عزت کے نام پر خاموش رہتے ہیں، جس سے اساتذہ کی درندگی کو شہہ ملتی ہے۔
مدرسے کے مہتمم کی یقین دہانی کے باوجود استاد کی درندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ بعض مدارس میں اساتذہ کی بھرتی کا معیار محض "علم قرآن” تک محدود ہے، جبکہ اخلاق، تربیت، نفسیات اور جدید تدریسی اصولوں سے لاعلمی ایک المیہ ہے۔
پاکستان میں لاکھوں والدین دینی وابستگی، غربت یا ثقافتی دباؤ کے باعث اپنے بچوں کو مدارس میں داخل کرتے ہیں۔ یہ اعتماد جب تشدد، جنسی استحصال یا ذہنی اذیت میں بدل جائے تو نہ صرف والدین، بلکہ پوری قوم کا ایمان متزلزل ہوتا ہے۔
یہ سانحہ کسی فرد یا مدرسے کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کی عکاسی کرتا ہے جس میں احتساب، تربیت، معیار اور نگرانی کا فقدان ہے۔ مدارس کو اسلامی تعلیمات کا منبع سمجھا جاتا ہے، مگر جب ان ہی اداروں سے ظلم، تشدد اور استحصال کی خبریں آئیں تو نہ صرف دین کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ دینی طبقات کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
تمام مدارس کی رجسٹریشن لازمی قرار دی جائے، وزارت تعلیم یا وفاق المدارس کے تحت تمام دینی مدارس کی رجسٹریشن کے بغیر کوئی ادارہ قائم نہ ہو۔ غیر رجسٹرڈ مدارس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
اساتذہ کی اہلیت کے لئے معیار مقرر ہو، صرف قرآنی علوم کی سند کافی نہیں۔ اساتذہ کے لیے چائلڈ سائیکالوجی، اخلاقیات، تدریسی تربیت اور جسمانی سزا کے مضمرات پر باقاعدہ کورس لازمی قرار دیا جائے۔
وفاقی اور صوبائی سطح پر "مدرسہ ریفارم ایکٹ” کی منظوری دی جائے جس میں بچوں پر تشدد کی واضح سزا، فوری گرفتاری، اور مدارس کی نگرانی کے لئے آزاد کمیشن کا قیام شامل ہو۔
اسلامی نظریاتی کونسل یا ادارہ تعلیمات اسلامی کے زیر انتظام مدرسوں کے مہتممیں اور ناظمین کے لیے اخلاقی تربیت، ادارہ جاتی نظم اور بچوں کے حقوق پر لازمی کورسز کرائے جائیں۔
مدارس کے مالی، تعلیمی اور تربیتی معاملات کا سالانہ آڈٹ ہو۔ ناظمین کی تبدیلی کے عمل کو بھی باقاعدہ بنایا جائے۔
ہر مدرسے میں شکایات باکس اور آن لائن پلیٹ فارم قائم کیا جائے تاکہ بچے یا والدین بآسانی بدسلوکی کی اطلاع دے سکیں۔ ان شکایات پر فوری کارروائی ہو۔
میڈیا کو چاہیے کہ وہ صرف سانحے کے وقت نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر مدرسوں میں ہونے والی مثبت و منفی سرگرمیوں کی رپورٹنگ کرے۔ سول سوسائٹی کو مدرسہ اصلاحات پر عوامی رائے ہموار کرنی چاہیے۔
یہ واقعہ پاکستان کے تعلیمی، قانونی، مذہبی اور اخلاقی نظام کے لیے ایک کڑا امتحان ہے۔ اسلام وہ دین ہے جو رحمۃ للعالمین کے پیروکاروں کو بچوں کے ساتھ محبت، شفقت اور تعلیم کا درس دیتا ہے، نہ کہ ظلم، تشدد اور سفاکی کا۔ دینی مدارس کا وقار اور افادیت اس وقت قائم رہ سکتی ہے جب وہ قرآن کی تعلیم کے ساتھ رحمت، رواداری اور انصاف کے اصولوں کو بھی اپنائیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم شعوری طور پر مدرسہ نظام میں اصلاحات لائیں تاکہ نہ کوئی بچہ درندگی کا نشانہ بنے، نہ کوئی والد پچھتاوے میں تڑپے اور نہ ہی دین اور دینی ادارے بدنام ہوں۔
"جو علّم نہ دے، وہ علم زہر ہے،
جو شفقت نہ دے، وہ درس گاہ قید خانہ ہے۔”
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |