پت جھڑ میں کشمیر کی سیر: تجزیاتی مطالعہ
ڈاکٹر فرہاد احمد فگار ، مظفرآباد
سرفراز بزمی اردو شاعری کے اُن دردمند اور باوقار شعرا میں سے ہیں جنھوں نے مشرقی احساس، روحانی گہرائی اور عصری شعور کو یک جا کر کے اپنے اظہار کو ایک منفرد رنگ دیا ہے۔ ان کے ہاں لفظ صرف اظہار کا وسیلہ نہیں بلکہ تہذیبی شعور اور انسانی ضمیر کا آئینہ ہے۔سرفراز بزمی کی شاعری میں حضرت اقبال کا واضح پرتو ملتا ہے۔ میرا بزمی صاحب سے تعارف ان کے ایک مشہور قطعے کے ذریعے سے ہوا۔ وہی قطعہ جو اکثر غلطی سے علامہ اقبالؒ سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی، اولاد بھی، جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
یہ قطعہ ان کے فکری مزاج کی جھلک پیش کرتا ہے ۔ ۔ بزمی صاحب کےاس ضرب المثل قطعے کے حوالے سے میں ایک مضمون کچھ سال قبل ضبط تحریر میں لا بھی چکا ہوں۔ جو ایکسپریس سمیت کئی اہم اخبارات اور ویب سائٹس پر شائع بھی ہو چکا ہے۔ سرفراز بزمی صاحب نے اپنی ایک تحریر میں اس بات کا برملا اظہار بھی کچھ یوں کیا:
"آج مجھے اپنی شاعری کے ابتدائی ایام کا اپنا ایک قطعہ جسے نادان احباب نے فکری اور لسانی ہم آہنگی کی بناپر علامہ اقبال سے منسوب کرنے کی غلطی کردی یہاں تک کہ پڑوسی ملک کی نیشنل اسمبلی میں بھی ایک باوقار رکن نے اسے علامہ سے منسوب کرتے ہوئے سنایا جس کے بعد یہ موضوع بحث بنا اور جستجو ہوئی کہ آخر یہ کس کی تخلیق ہے۔اور بالآخر مظفرآباد یونیورسٹی کے محقق ڈاکٹر فرہاد فگار نے اس بابت مجھ سے رابطہ کیا
پھر ایک تحقیقی مضمون قلم بند کیا جس کے بعد اور بھی کئی احباب نے اس پر مضامین لکھے
خیر میں عرض یہ کرنا چاہ رہا تھا کہ میرے اس قطعے کے بابت مظفر نگر یوپی کے مشہور شاعر جناب ریاض ساغر صاحب نے آج مجھ سے رابطہ کیا اور ایک فیس بک پوسٹ پر چل رہی ایک بحث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ علامہ کا قطعہ ہے جسے بعض لوگ آپ سے منسوب کر رہے ہیں مجھے بڑی تکلیف ہوئی کہ ایسے بڑے اصحاب ادب بھی اسے آج تک علامہ کا سمجھ رہے ہیں ۔
(سرفراز بزمی سوائی مادھوپور راجستھان انڈیا)”
وہ شاعر جو علم و دولت کی اصل قدر کو روحانی ربط سے ناپتا ہے۔ سرفراز بزمی کی شاعری کی انھی معنوی بلندیوں کا تسلسل ہمیں ان کی نظم "پت جھڑ میں کشمیر کی سیر” میں ملتا ہے۔ یہ نظم انھوں نے 28اکتوبر 2024ء کو تخلیق کی اور وٹس ایپ کے ذریعے سے 27 اکتوبر 2025ء کو مجھے ارسال کی جب بزمی صاحب نے یہ نظم ارسال کی تو مجھے اتنی پسند آئی کہ میں نے فوراً اپنے محسن ومربی شوکت اقبال صاحب کی خدمت میں ارسال کی۔ انھوں نے نظم مکمل انہماک سے پڑھی اور یہ جواب دیا:”بھر پور تاثراتی نظم ہے اس پر مکمل تنقیدی کالم بنتا ہے۔”
شوکت صاحب کے حکم کی تعمیل میں یہ جسارت کرنے چلا ہوں۔سرفراز بزمی صاحب کی یہ نظم”پت جھڑ میں کشمیر کی سیر” بہ ظاہر کشمیر کے مناظرِ فطرت کی سیر ہے مگر درحقیقت کشمیر کے دکھ، انسانی بے بسی اور امیدِ نو کی ایک علامتی داستان ہے۔
نظم کا آغاز ایک دل گرفتہ منظر سے ہوتا ہے ڈل جھیل کے کنارے ایک محافظ کھڑا ہے فولادی لباس میں ملبوس مگر آنکھوں میں خوف کی چمک لیے ہوئے۔ یہ منظر محض ایک سپاہی کی موجودگی نہیں بلکہ اس خوف، جبر اور غیر یقینی فَضا کی علامت ہے جو پورے کشمیر پر طاری ہے۔ شاعر کی نگاہ سطحی نہیں بلکہ باطنی ہے اور یہی بزمی صاحب کی شاعری کی شناخت بھی ہے۔ وہ فولاد میں لپٹے بدن کے پیچھے ایک لرزتے ہوئے انسان کو دیکھ لیتا ہے۔
ڈل جھیل کا میلا پانی، شکستہ شکارے اور بجھا بجھا سا بزرگ مانجھی یہ سب تصویریں کشمیر کی اداسی اور ماند پڑتی ہوئی زندگی کی عکاس ہیں۔ شاعر کے بیان میں ایک ٹھہرا ہوا درد ہے جو نہ چیخ بن کر ابھرتا ہے نہ خاموشی میں گم ہوتا ہے۔ یہ درد دراصل ایک اجتماعی المیے کا استعارہ ہے۔ شاعر کی نگاہ جہاں بھی جاتی ہے وہاں بارود کی مہک، لہو کی تازگی اور تباہی کی چاپ سنائی دیتی ہے مگر اس تباہی میں بھی وہ جمال کی جھلک دیکھنے سے باز نہیں رہتا۔
نظم کے ایک حصے میں شاعر سوال اٹھاتا ہے:
“جو دیوداروں سے پوچھتا ہے چنار میں آگ کیوں لگی ہے؟”
یہ سوال علامتی ہے۔ درخت فطرت کی صدیوں پرانی خاموش گواہیاں ہیں اور ان سے پوچھنا گویا وقت سے بازپرس کرنا ہے۔ چنار کی آگ صرف درخت کی نہیں بلکہ کشمیر کی روح کی آگ ہے ۔ چنار کشمیر میں ایک خاص استعارہ ہے جس سے آگ اگلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ وہ آگ جو ظلم، جدائی اور بے بسی نے بھڑکائی ہے۔
لیکن سرفراز بزمی مایوسی کے شاعر نہیں۔ وہ خزاں کے زرد پتوں میں بھی بہار کی جھلک دیکھ لیتے ہیں۔ ان کی نظم کا سب سے درخشاں لمحہ وہ ہے جب وہ کہتے ہیں:
“بجھی بجھی کانگڑی میں لیکن ابھی شرارے دہک رہے ہیں”
یہ بات نظم کی فکری روح ہے۔ “کانگڑی” کشمیر کی روایتی حرارت ہے اور “شرارے” انسانی ارادے اور ضمیر کی علامت۔ کانگڑی کشمیر کی ثقافت کا وہ حسین چہرہ ہے جس کی مٹھی بھر آگ یخ بستہ موسم میں بھی حرارت دیتی ہے۔ وہ کم زور سی آگ برف میں بھی سردی کو شکست ریخت کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ شاعر کا بھی یقین ہے کہ ظلمتوں کے باوجود انسان کے باطن میں امید کی چنگاری زندہ ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں نظم محض بیان سے نکل کر فلسفے میں بدل جاتی ہے۔
پھر منظر بدلتا ہے۔ برف پوش پہاڑ، پہلگام کی سفید چوٹیاں، آبشاروں کی شوخ سرگم سب امید، بقا اور تجدیدِ حیات کی علامت بن جاتے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ خزاں کا موسم عارضی ہے، زخم مندمل ہوں گے اور بہارِ نو پھر سے لوٹے گی۔ یہ ایمان دراصل زندگی کے ابدی اصولِ تغیر پر مبنی ہے۔یہ فکر ہر کشمیری مفکر کی ہے ،ہر شاعر کی اور ہر قلم کار کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر اس زندہ انسان کی جس کا خمیر تو کشمیر کی مٹی سے نہیں اٹھا تاہم وہ کشمیر کے درد سے مکمل طور پر آشنا ہے۔ سرفراز بزمی کا تعلق بھی مؤخر الذکر قبیل سے ہے۔
نظم کے اختتام پر لہجہ درویشانہ اور روحانی ہو جاتا ہے۔ شاعر دعا دیتا ہے:
“خدا تمھیں قوتِ نمو دے، وقارِ غیرت رہے سلامت، تمھیں محبت کی آبرو دے۔”
یہ دعا کشمیر کے لیے ہے مگر اس کی معنویت عالمی ہے۔ یہ دراصل انسانیت، آزادی اور محبت کے بقا کی دعا ہے۔ شاعر چاہتا ہے کہ زمین پر حسن صرف فطرت سے نہیں بلکہ انسان کے ضمیر سے بھی جنم لے۔
اگر اس نظم کو تنقیدی زاویے سے دیکھا جائے تو اس میں تین بنیادی سطحیں واضح طور پر محسوس ہوتی ہیں۔ جمالیاتی سطح پر بزمی صاحب نے فطرت کی منظرکشی کو نہایت باریک حِسّی مشاہدے کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ڈل جھیل کا نیلگوں پانی، جلے درختوں کی بو، چنار کے زرد پتے یہ سب تصویری ترکیبیں قاری کے ذہن میں متحرک منظر بنا دیتی ہیں۔ فکری سطح پر نظم حسن و جبر، خوف و امید اور خزاں و بہار کے تضاد پر قائم ہے۔ شاعر کے نزدیک مایوسی محض وقتی کیفیت ہے جب کہ امید اور تجدید انسان کی اصل شناخت ہے۔ علامتی سطح پر خزاں زوال اور جبر کی علامت ہے، بہار تجدید و آزادی کی اور شرارے انسانی حوصلے اور بےدار ضمیر کے پیام بر۔
یہ نظم صرف کشمیر کی روداد نہیں بلکہ انسان کی ابدی جستجو اور مزاحمت کا استعارہ ہے۔ اس میں فطرت، تاریخ اور انسان ایک ہی بیانیے میں ضم ہو گئے ہیں۔ شاعر نے فطرت کے حسن میں چھپا ہوا کرب دکھایا ہے اور کرب میں چھپی ہوئی امید کو جاوداں کیا ہے۔
“پت جھڑ میں کشمیر کی سیر” محض مناظرِ فطرت کی نظم نہیں، بلکہ ایک عہد کی روح کا بیان ہے۔ اس میں خزاں کی سرد ہوا کے ساتھ امید کی حرارت بہتی ہے اور شاعر کے الفاظ دل پر یوں نقش ہو جاتے ہیں جیسے چنار کے پتوں پر اترتی دھوپ۔ یہ نظم کشمیر کا نوحہ بھی ہے اور انسان کی جاودانی امید کا اعلان بھی کہ اندھیروں کے باوجود چراغِ ہمت جلا ہوا ہے۔
Title Image background by Joe from Pixabay

ڈاکٹر فرہاد احمد فگار کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع مظفرآباد(لوئر چھتر )سے ہے۔ نمل سے اردواملا اور تلفظ کے مباحث:لسانی محققین کی آرا کا تنقیدی تقابلی جائزہ کے موضوع پر ڈاکٹر شفیق انجم کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔کئی کتب کے مصنف ہیں۔ آپ بہ طور کالم نگار، محقق اور شاعر ادبی حلقوں میں پہچانے جاتے ہیں۔ لسانیات آپ کا خاص میدان ہے۔ آزاد کشمیر کے شعبہ تعلیم میں بہ طور اردو لیکچرر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ کالج میگزین بساط اور فن تراش کے مدیر ہیں اور ایک نجی اسکول کے مجلے کاوش کے اعزازی مدیر بھی ہیں۔ اپنی ادبی سرگرمیوں کے اعتراف میں کئی اعزازات اور ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔آپ کی تحریر سادہ بامعنی ہوتی ہے.فرہاد احمد فگار کے تحقیقی مضامین پر پشاور یونی ورسٹی سے بی ایس کی سطح کا تحقیقی مقالہ بھی لکھا جا چکا ہے جب کہ فرہاد احمد فگار شخصیت و فن کے نام سے ملک عظیم ناشاد اعوان نے ایک کتاب بھی ترتیب دے کر شائع کی ہے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |