ماہِ صفر کی بدعات اور حقائق
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ’’صفر المظفر‘‘ ہے، جو عرب جاہلیت کے دور میں منحوس اور بَلاؤں کا مہینہ سمجھا جاتا تھا۔ اس زمانے کے لوگ صفر میں شادی، نکاح، سفر اور دیگر امور زندگی انجام دینے سے گریز کرتے تھے۔ حیرت انگیز طور پر یہی باطل تصور امتِ مسلمہ کے بعض طبقات میں آج بھی موجود ہے، حالانکہ رسولِ اکرم ﷺ نے ان جاہلانہ عقائد کا نہ صرف انکار کیا، بلکہ ان کی بنیاد کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔
عربوں کے ہاں قبل از اسلام صفر کا مہینہ نحوست کا مظہر تھا۔ ان کے عقیدے کے مطابق یہ وہ مہینہ تھا جب آسمان سے بلائیں نازل ہوتیں اور بیماریاں عام ہوتیں۔ اسی عقیدے کو تقویت دینے کے لیے وقت گزرنے کے ساتھ کچھ جعلی روایات بھی گھڑی گئیں، جنہیں بدقسمتی سے بعض مسلمان حلقے صحیح سمجھ کر عمل پیرا ہو گئے۔
صفر کے بارے میں کئی من گھڑت حدیث موجود ہیں۔ صفر کی نحوست کو جواز دینے کے لیے جو حدیث مشہور کی گئی، وہ درج ذیل ہے: "مَنْ بَشَّرَنِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ، بَشَّرْتُہٗ بِالْجَنَّۃِ”
ترجمہ: "جو شخص مجھے صفر کے مہینے کے ختم ہونے کی خوشخبری دے گا، میں اسے جنت کی خوشخبری دوں گا۔”
یہ حدیث موضوع (من گھڑت) ہے اور اس کا کوئی اصل و سند نہیں۔ حدیث کے محدثین مثلاً ملا علی قاریؒ، علامہ شوکانیؒ، علامہ عجلونیؒ اور علامہ طاہر پٹنیؒ نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس بات کی سختی سے تردید فرمائی کہ کسی مخصوص مہینے یا دن میں کوئی نحوست ہو سکتی ہے۔
حدیث مبارکہ ہے: ’’لا عدویٰ ولا طیرۃ ولا ھامۃ ولا صفر‘‘ (بخاری، کتاب الطب، حدیث: 5770)
اس حدیث کے مطابق اللہ کے حکم کے بغیر بیماری خود بخود نہیں لگتی۔
پرندوں یعنی اُلو سے بدشگونی لینا غلط ہے، صفر میں نحوست کا کوئی وجود نہیں، صفر کے آخری بدھ کی بدعات بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ صفر کے آخری بدھ کو بعض لوگ مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں، مخصوص نمازیں پڑھتے ہیں۔ چُوری اور حلوہ تیار کرتے ہیں ، روزہ رکھتے ہیں اور جھوٹی روایت کے تحت نبی کریم ﷺ کے شفایاب ہونے کی خوشی مناتے ہیں۔
یہ تمام اعمال نہ صرف خلاف سنت بلکہ غلط عقائد پر مبنی ہیں۔ درحقیقت تاریخ اسلام کے معتبر منابع بتاتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی بیماری کا آغاز صفر کے آخری بدھ ہی کو ہوا، نہ کہ آپ کو شفا ملی۔
مفتیان کرام اور علماے اہل سنت کے فتاویٰ بھی موجود ہیں۔ مفتی محمد شفیعؒ (امداد المفتین) کے مطابق صفر کے آخری بدھ کا روزہ اور مٹھائی بدعت اور ناجائز ہے۔
علامہ عبد الحی لکھنویؒ کے مطابق آخری بدھ کی مخصوص نماز کا کوئی شرعی ثبوت نہیں، یہ ایجابی بدعت ہے۔
فتاویٰ عالمگیری، فتاویٰ رشیدیہ، فتاویٰ محمودیہ، کفایت المفتی، احسن الفتاویٰ، فتاویٰ فریدیہ کے مطابق سب نے ان رسومات کو جہالت، بدعت اور عوام الناس کی گمراہی قرار دیا ہے۔
اگر بالفرض یہ حدیث درست بھی ہوتی (جو کہ نہیں ہے)، تب بھی اس کا تعلق صفر کی نحوست سے نہیں بلکہ رسول ﷺ کے شوقِ وصال سے جڑا ہوا ہو سکتا تھا، یعنی جو ربیع الاول کی آمد کی خبر دے، وہ محبوبِ خدا کی ملاقات کا وقت قریب لانے والا ہے۔
ان بدعات کے کئی منفی اثرات بھی ہیں۔ یہ بدعات توحید پر ضرب ہیں اور یہ بدعات شرک کی جانب لے جاتی ہیں
ان بدعات کی وجہ سے لوگ سنت سے دوری اختیار کرلیتے ہیں، بدعتوں کی کثرت سنتوں کے ترک کا سبب بنتی ہے
ان بدعات کی وجہ سے عوامی ذہنیت پر غلط اثر پڑتا ہے اور لوگ غلط عقائد کو دین کا حصہ سمجھ لیتے ہیں
ان بدعات میں سماجی خرچ اور ریاکاری شامل ہوتی ہے۔ یہ غیر شرعی تقریبات مالی اور روحانی نقصان کا سبب بنتی ہیں
عوام الناس کو صحیح عقیدہ و عمل کی تعلیم دی جائے، خطباتِ جمعہ اور دروس میں صفر کی بدعات کی علمی اور دلیل سے نفی کی جائے۔ کمیونٹی لیڈرز، ائمہ، اور مدارس ان موضوعات پر بروقت روشنی ڈالیں، کتب و پمفلٹس کی اشاعت کے ذریعے عوام کو باخبر کیا جائے، عوامی میلوں اور تقریبات سے علماء دوری اختیار کریں جن کی بنیاد بدعت پر ہو
ماہِ صفر بذاتِ خود کوئی منحوس مہینہ نہیں۔ اس سے منسوب تمام توہمات، بدعات اور رسومات جہالت کی باقیات ہیں۔ اس مہینے کی نحوست سے متعلق حدیث من گھڑت ہے، جسے رد کرنا دینی فریضہ ہے۔ اُمتِ مسلمہ کو چاہیے کہ وہ قرآن و سنت کی روشن تعلیمات کی روشنی میں ہر قسم کے جاہلانہ نظریات سے نجات حاصل کرے اور شریعتِ محمدی ﷺ پر عمل پیرا ہو کر اپنی دنیا و آخرت کو سنوارے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بدعت سے محفوظ رکھ کر سنت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Title Image by Mollyroselee from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |