نظام مدافعت اور قوت ارادی
حکیم لقمان کا ایک قول پڑھا تھا کہ، "بیماری پہلے ہماری روح اور پھر جسم میں ظاہر ہوتی ہے،” جس کا عام فہم مطلب یہ ہے کہ بیمار ہونے سے پہلے ہمارا نظام مدافعت اور ہماری قوت ارادی کمزور پڑتی ہے جس کے بعد ہمارے جسم میں نقص آ جاتا ہے تو ہم بیمار پڑ جاتے ہیں۔ ویسے تو ہمارے خون کے سرخ جرثوموں کا کام بھی بیماری کے بیرونی حملہ آور بیکٹیریاز کے خلاف جنگ لڑنا ہوتا ہے اور جب وہ ان پر سبقت حاصل نہیں کر پاتے ہیں تو ہم بیمار پڑ جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ہماری ذہنی قوت ارادی ایسی طاقتور ترین "ادویہ” ہے کہ جو بہت ساری انگریزی ادویات سے زیادہ بہترین علاج ہے، جس کے بارے میرا ماننا ہے کہ اول تو ہم متوازن عذا کھائیں، ورزش کریں اور خود کو ارادی طور پر ہمیشہ مضبوط اور چاک و چوبند رکھیں تو ہم بیمار ہی نہیں ہوتے ہیں اور اگر ہو بھی جائیں تو احتیاطی تدابیر اور اپنی ہی قوت ارادی سے ہم مکمل طور پر دوبارہ صحت یاب ہو سکتے ہیں۔
حکیم لقمان کا ایک اور قول ہے کہ، "وہم کا کوئی علاج نہیں ہے۔” اگر ہمارے دماغ سے بیماری کا تصور نکال دیا جائے اور اس کی جگہ صحت و تندرستی کو جگہ دی جائے تو ہم معمولی ادویات سے بھی بہت جلد ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس ہم خود ہی اپنے آپ کو بیمار سمجھنے لگیں تو پھر ہماری سوچ "وہم” میں بدل جاتی ہے جس کا علاج انگریزی دوائیوں سے کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ عہد حاضر میں جتنی بھی انگریزی ادویات تیار کی جاتی ہیں پہلے انہیں "پلیسبو افیکٹ” سے گزارا جاتا ہے جو کہ ایک ذہنی طریقہ علاج ہے۔
ہمارے ہاں خواتین کے طرزِ زندگی میں "قوت ارادی” اور "پلیسبو افیکٹ” کے ذریعے ایک انقلابی صحت مند تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ پلیسبو کیا ہے اور یہ کس طرح کام کرتا ہے؟ پلیسبو دراصل ایک "ڈَمی دوا” ہوتی ہے۔ اکثر خواتین کی بیماریاں کچھ حقیقی اور کچھ ذہنی اختراع ہوتی ہیں۔ کچھ خواتین سوچتی ہیں کہ انہیں جو بیماری ہے وہ محض دوا کھانے ہی سے ٹھیک ہو گی اور وہ بے دریغ دوائیاں کھاتی ہیں جس کے اکثر نقصانات بھی سامنے آتے ہیں۔ اس تکنیک کا استعمال کر کے وہ کئی بیماریوں سے نجات حاصل کر سکتی ہیں۔
ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ اس تکنیک کا استعمال کر کے دوا کی بجائے انسانی دماغ کو تبدیل یا گمراہ کر کے مرض کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ تصور کریں کہ ایک مریض کو ایک گولی دی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اس سے اس کے درد کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور یہ دوا وہ ڈاکٹر دیتا ہے جس پر مریض کو پورا اعتماد ہوتا ہے۔ دراصل یہ گولی کوئی دوا نہیں ہوتی محض شکر کی گولی ہوتی ہے۔ لیکن یہ بات مریض کو نہیں پتہ ہوتی، وہ اسے حقیقی دوا سمجھ کر کھاتا ہے اور صحت یاب ہو جاتا ہے۔ یوں بغیر دوا کے صحت یاب ہونے کے نفسیاتی عمل اور رجحان کو "پلیسبو افیکٹ” کہتے ہیں جس کے ذریعے ہمارے خیالات اور ہماری قوت ارادی ہماری صحت پر ایک انتہائی طاقتور طریقے سے براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔
ذہنی قوت یا کمزوری دراصل پلیسیبو افیکٹ کا دوسرا نام ہے۔ اس سے مثبت اور منفی دونوں قسم کے نتائج نکل سکتے ہیں۔ جب آپ کو یہ پختہ یقین ہوتا ہے کہ اس دوا سے مَیں ٹھیک ہو جاؤں گی تو واقعی اس کا نتیجہ بھی مثبت نکلتا ہے، اور خدانخواستہ آپ یہ سوچیں کہ دوا سے بھی آپ ٹھیک نہیں ہوں گی تو پھر دوائی سے بھی آرام نہیں آتا ہے۔ یہ تکنیک دماغ اور جسم کے درمیان ایک مضبوط تعلق پیدا کرنے کے بارے میں ہے۔ اس کے نفسیات پر مثبت یا منفی اثرات تب پڑتے ہیں جب کسی مخصوص چیز کو کسی خاص ردعمل سے جوڑا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کوئی مخصوص کھانا کھانے کے بعد بیمار ہو جاتی ہیں تو آپ اس کھانے کو اپنی بیماری کا سبب سمجھتی ہیں اور مستقبل میں اسے کھانے سے گریز کرتی ہیں۔ پلیسبو افیکٹ بھی اسی نہج پر کام کرتا ہے۔ اگر آپ سر درد کے لئے ایک مخصوص دوا لیتی ہیں تو آپ اس دوا کو درد سے نجات کے ساتھ جوڑنا شروع کر دیتی ہیں اور اگر آپ کو سر درد کے لئے اس دوا جیسی نظر آنے والی "پلیسبو گولی” بھی دی جائے تو بھی آپ اس کو کھا کر درد میں کمی محسوس کریں گی، حالانکہ وہ محض آپ کی توقعات کا اثر ہوتا ہے۔
یہ ہمارے اندر موجود قوت مدافعت اور ہماری قوت ارادی کا ایک "ہارمونک رسپانس” ہے کہ آپ کو کسی چیز سے پہلے سے جو توقعات وابستہ ہوتی ہیں وہ اس کے بارے میں آپ کے تاثر کو متاثر کرتی ہیں۔ لہٰذا اگر آپ کو امید ہے کہ گولی آپ کو بہتر محسوس کروائے گی تو آپ اسے کھانے کے بعد بہتر محسوس کریں گی۔
ذہنی کمزوری اور ہارمونل رسپانس کی ایک منفی مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے کہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں سزائے موت کے مجرموں کو زہر کا ٹیکا لگایا جاتا تھا۔ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے ایک سزائے موت کے قیدی کو بتایا کہ فلاں تاریخ کو اسے زہر کا انجیکشن لگایا جائے گا۔ اس تاریخ کو قیدی کو زہر کی بجائے محض پانی کا ٹیکہ لگایا گیا اور وہ اسی پانی کے ٹیکے ہی سے ہلاک ہو گیا۔ جب ڈاکٹروں نے اس کے خون کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے خون میں واقعی زہر موجود تھا جس سے ڈاکٹروں کی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کہ اس قیدی کے ذہنی خیالات اور وہم نے پانی کے اس ٹیکے کو زہر کے انجیکشن میں بدل دیا تھا۔
اللہ رب العزت نے ہمارے دماغ میں ایسی طاقت رکھی ہے کہ جو ہمارے خیالات کے ذریعے ہم پر مثبت اور منفی اثرات قائم کرتی ہے۔ اگر ہمیں راسخ اور کامل یقین ہو کہ ہم کبھی بیمار نہیں ہوں گے یا ہم ہر بیماری کا علاج احتیاطی تدابیر اور قوت ارادی سے کر سکتے ہیں تو ہم کسی بھی بیماری کے خلاف واقعی کسی حد تک تندرست ہو سکتے ہیں۔
ہماری روح ہماری سوچ، خیالات اور ہمارے طرز زندگی پر مبنی ہوتی ہے جسے ہم اگر مثبت قوت ارادی سے جوڑے رکھیں تو اللہ کے فضل و کرم سے ہم کبھی بیمار ہی نہ ہوں۔ پہلے پہل یہ انگریزی ادویات کہاں ہوتی تھیں۔ اس وقت لوگوں کی عمریں بھی لمبی ہوا کرتی تھیں اور وہ صحت مند بھی رہتے تھے کہ وہ اپنا علاج محض احتیاط، جڑی بوٹیوں اور اپنی ذہنی طاقت ہی سے کر لیا کرتے تھے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |