آخر پاکستانی کھلاڑیوں کو سر کا خطاب کیوں نہیں ملتا ؟
تحریر محمد ذیشان بٹ
برطانیہ وہ عظیم سلطنت ہے جس نے پوری دنیا کو دو چیزیں ضرور دیں: ایک انگریزی زبان، اور دوسرا ’سر‘ کا خطاب۔ پہلا تو سب نے زبردستی سیکھ لیا، لیکن دوسرے کے لیے اب تک صرف وہی اہل ٹھہرے ہیں جن کے پاس یا تو ولایتی پاسپورٹ ہو، یا ولایتی واسطہ۔ باقی سب خواہ جتنے مرضی چھکے مار لیں، جتنے مرضی ورلڈ کپ جتوا دیں، ان کے حصے میں صرف واہ واہ ہی آئے گی، ’سر‘ کبھی نہیں۔
کرکٹ کی دنیا میں پہلا ’سر‘ جس نے ہم جیسے ناتمام کھلاڑیوں کی نیندیں اڑا دیں، وہ کوئی اور نہیں بلکہ خود سر ڈان بریڈمین تھے۔ جی ہاں، وہی آسٹریلوی جن کی بیٹنگ دیکھ کر گیند بازوں نے نوکری چھوڑ کر بیکریاں کھول لیں۔ انہوں نے 99.94 کی اوسط سے رنز بنا کر یہ ثابت کیا کہ بعض انسان دنیائے فانی میں بھی افسانہ بن سکتے ہیں۔ بادشاہ سلامت نے سوچا کہ ایسا بلے باز تو شاید اگلی صدی میں بھی پیدا نہ ہو، چنانچہ جھٹ سے تلوار نکالی اور ’سر‘ کا خطاب دے مارا۔
پھر یہ روایت چل نکلی۔ ویسٹ انڈیز والوں نے بھی کمال کر دکھایا۔ سر گارفیلڈ سوبرز، سر ویو رچرڈز، سر کلائیو لائیڈ، سر کرٹلی ایمبروز — گویا پوری ٹیم ہی ’سر‘ ہو گئی۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ گیند باز وسیم اکرم نے کہا، “یار انگریز بلے بازوں سے نہیں، ان کے خطابوں سے ڈر لگتا ہے۔”
ادھر نیوزی لینڈ نے بھی اپنی قسمت آزمائی اور سر رچرڈ ہیڈلی کو آگے کر دیا۔ یہ وہ دور تھا جب صرف تیز گیند، سوئنگ اور ایک آدھ ہیٹ ٹرک کافی تھی ’سر‘ بننے کے لیے۔
پھر آیا انگلینڈ کا دور، جس میں سر ایان بوتھم، سر ایلکس اسٹیورٹ اور بعد میں سر ایلسٹر کک بھی شامل ہوئے۔ اب کک صاحب کو ’سر‘ بننے پر مرغی فروشوں نے خاص رعایت دی کیونکہ ان کا نام ہی کُک تھا، اور ’سر کک‘ کہنے میں جو مزہ ہے، وہ شاید ’سر تنویر‘ یا ’سر بشیر‘ میں نہیں۔
لیکن آئیے اب بات کریں برصغیر کی، جہاں سچن ٹنڈولکر کا نام سن کر بچے بھاگ کر بیٹ لینے لگتے تھے اور گیند باز بھاگ کر ویزا اپلائی کرنے۔ اگر ٹنڈولکر برطانوی ہوتے، تو یقینی طور پر ’سر‘ بننے کے بعد بکنگھم پیلس کے لان میں کرکٹ سکھا رہے ہوتے۔ لیکن کیا کریں، بندہ بھارتی ہے، سو صرف ’بھارت رتن‘ پر گزارا کرنا پڑا۔
اسی طرح وسیم اکرم، جس کی سوئنگ پر ابھی بھی ہوا کا دباؤ بگڑ جاتا ہے، اگر برطانوی ہوتا تو ’سر وسیم‘ بن کر لندن کی پارلیمنٹ میں ’’ریورس سوئنگ پر لیکچر‘‘ دے رہا ہوتا۔ لیکن چونکہ وہ پاکستانی ہے، تو اسے صرف کرکٹ بورڈ سے معطلی، سیاسی تجزیے، اور وکٹوں کی یادگاریں ہی ملی ہیں، ’سر‘ نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر ایشیائیوں کا کیا قصور ہے؟ کیا ’سر‘ کا خطاب لینے کے لیے وکٹ کے ساتھ پاسپورٹ بھی برطانوی ہونا ضروری ہے؟ کیا چھکا لگانے کے بعد ’God Save The King‘ گانا بھی گانا لازمی ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں کرکٹ نہیں، انگریزی جھنڈا پکڑ کر چائے بیچنی چاہیے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ کھلاڑیوں کو "Honorary Knighthood” بھی دیا گیا، جیسے سچن ٹنڈولکر کو۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ وہ ’سر‘ نہیں کہلا سکتا، کیونکہ قانون کہتا ہے: "اگر تم ولایتی نہیں، تو تم صرف اعزازی ہو، باقاعدہ ’سر‘ نہیں!” یعنی خطاب بھی دیا، مگر استعمال کی اجازت نہیں۔ یہ کچھ ایسا ہی ہے جیسے بچے کو آئسکریم دے کر کہنا: "دیکھ تو سکتا ہے، کھا نہیں سکتا۔”
اب تک آخری کھلاڑی جسے ’سر‘ بنایا گیا، وہ سر ایلسٹر کک ہے — ایک شریف النفس اوپنر، جس کی بلے بازی بھی چائے کی پیالی کی طرح دھیمی مگر پائیدار تھی۔ اس کے بعد کچھ اور انگلش کھلاڑیوں کے نام زیرِ غور ہیں، لیکن کوئی ایشیائی فہرست میں نہیں۔ ہم لوگ بس تماشائی ہیں، جھاڑو دے کر ’سر‘ کہنے والے، اور وہ خطاب لے کر ’سر‘ بننے والے۔
آج بھی اگر کوئی پاکستانی بچہ اپنے نام کے آگے ’سر‘ لگائے، تو استاد کہتا ہے، “پہلے ہوم ورک تو مکمل کر لے، پھر ’سر‘ بننا!”
تو صاحبو، بات سیدھی سی ہے، کرکٹ تو کھیل سکتے ہو، دل بھی جیت سکتے ہو، لیکن ’سر‘ بننے کے لیے یا تو ولایتی ہو، یا ولایتیوں کے خاص بندے ہو۔ ہم تو بس یہی دعا کر سکتے ہیں کہ کبھی کسی دن عمران خان، ٹنڈولکر، سنگاکارا اور وسیم اکرم کے اعزاز میں کوئی ’عالمی سر کانفرنس‘ ہو، اور تب یہ سب بغیر پاسپورٹ کے ’سر‘ کہلائیں۔
جب تک ایسا نہیں ہوتا، ہم اپنے دل سے بس یہ کہتے رہیں گے:
سر! معاف کیجیے، ہم ابھی بھی پاکستانی ہیں۔

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |