حافظ ہارون الرشید سے برمنگھم میں ایک ملاقات
تحریر: عبدالوحید خان، برمنگھم (یوکے)
جمعیت علماۓ اسلام کے سابق صوبائی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات پنجاب اور ایک طویل عرصہ تک ضلعی سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داریاں نبھانے والے مولانا حافظ ہارون الرشید مہتمم دارالعلوم خدام الدین گاٶں سلیم خان تحصیل حضرو ضلع اٹک ان دنوں برطانیہ کے نجی دورے پر ہیں اور غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ وہ برطانیہ تشریف لائے ہیں-
یوں تو ان کے بہت سے قریبی عزیز و اقارب، چچازاد بھائی اور ان بھائیوں کی اولادیں امریکہ، برطانیہ اور ہانگ کانگ میں طویل عرصہ سے مقیم ہیں جبکہ وہ خود نہ صرف پاکستان میں ہی رہتے ہیں بلکہ یہ موقعہ ہوتے ہوۓ بھی کہ وہ اپنی اہلیہ جو انکی چچا زاد اور خالہ زاد ہیں کے ہمراہ مسقلاً ھانگ کانگ میں مقیم ہو کر وہاں کی شہریت حاصل کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنے والد صاحب کی وفات کے بعد پاکستان میں ہی رہ کر اپنے عظیم والد استاذ الحفاظ حافظ محمد ذمرد خان مرحوم کے 1962 میں شروع کۓ گۓ دینی ادارے اور علمی ورثے خدام الدین کا نظم و نسق سنبھالنےاور اسے ایک تناور شجرِ سایہ دار اور پھل دار بنانے میں اپنی صلاحیتیں، وسائل اور وَقت صَرف کرنے کو ترجیح دی اور اب اِسی مقصدِ عظیم اور صدقہ جاریہ کے مِشن کے لۓ ہمہ وقت کمربند رہتے ہوۓ اہم کردار ادا کر رہے ہیں-
اس وقت تین دینی ادارے بچیوں کے لۓ مدرسہ خدام الدین گاٶں سلیم خان کے اندر، دارالعلوم خدام الدین گاٶں سے باہر روڈ پر، اور ایک سکول اقرإ خدام الدین انکی زیرِ نگرانی چل رہے ہیں اور اس کام میں انہیں اپنے چھوٹے بھائی جامعہ بنوری ٹاٶن کراچی کے فارغ التحصیل مولانا عبدالرشید کی بھرپور معاونت بھی میسر ہے جو انکے ساتھ بطور نائب مہتمم تمام اداروں کے نظم و نسق کو دیکھتے ہیں-
دونوں بھائی اِن اداروں کو اپنے مرحوم والد کی طرف سے شروع کیا گیا صدقہ جاریہ سمجھ کر چلا رہے ہیں اور ہمیشہ ان تعلیمی اداروں کی ترقی اور دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے لۓ عملی طور پر کوشاں رہتے ہیں-
جماعتی طور پر ان کا خاندان ہمیشہ سے جمعیت علماۓ اسلام کے ساتھ منسلک رہا ہے ان کے والد مرحوم کا سابق صوبائی وزیر قاری سعید الرحمٰن مرحوم کے ساتھ بہت قریبی تعلق اور بھائی چارہ رہا ہے اور اسی تعلقِ خاص کو وہ قاری صاحب مرحوم کے صاحبزادے اور جانشین جے یو آئی کے سابق صوبائی صدر ڈاکٹر قاری عتیق الرحمٰن کے ساتھ بہت عقیدت اور محبت سے نبھا رہے ہیں-
قاری عتیق الرحمٰن اپنے مرحوم والد کی وفات کے بعد جب قومی انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں تو حافظ ہارون الرشید نہ صرف ہمیشہ انکے ہمرکاب رہے بلکہ انکے متبادل امیدوار کے طور پر کاغذات نامزدگی بھی داخل کراتے رہے ہیں-
جمعیت علماۓ اسلام کے سربراه مولانا فضل الرحمٰن اور انکا خانوادہ نہ صرف انہیں ذاتی طور پر جانتے اور پہچانتے ہیں بلکہ ہمیشہ انکی ہر غمی خوشی میں شامل ہوتے ہیں اور انکے چھوٹے بھائی مولانا عبدالرشید کا نکاح بھی مولانا فضل الرحمٰن نے بنفس نفیس دارالعلوم خدام الدین تشریف لا کر خود پڑھایا تھا-
حافظ ہارون الرشید سادہ مزاج اور باوقار شخصیت کے مالک ہیں عملی صحافت کے ساتھ بھی منسلک رہے اور روزنامہ اسلام کے ایک طویل عرصہ تک ضلعی نامہ نگار کے طور پر کام کرتے رہے اور دیگر قومی اخبارات و رسائل میں بھی انکی تحریریں شائع ہوتی رہی ہیں جبکہ کچھ سال پہلے انہوں نے اپنے مرحوم والد گرامی کی وفات کے بعد انکی زندگی کے حالات و واقعات پر کتاب ”استاذ الحفاظ حافظ محمد ذمرد خان، احوال و آثار“ بھی مرتب کی ہے-
حافظ ہارون الرشید ہمارے بہت قریبی عزیز اور اٹک شہر میں مقیم میرے بھتیجے اسامہ رشید خان کے ماموں ہیں اس حوالے سے انکی برمنگھم آمد پر انکے میزبان اور انکے تعلیمی اداروں کے سرپرست حافظ محمد اسحاق کی رہائش گاہ پر ان سے گزشتہ روز ایک مختصر ملاقات ہوئی- دوران ملاقات جہاں مختلف سیاسی، سماجی اور حالات حاضرہ کے موضوعات زیر بحث آۓ وہیں انہوں نے کمالِ محبت سے اپنے عظیم والد کے حوالے سے لکھی گئی اپنی کتاب بھی عنایت فرمائی اس موقع پر انکے والد مرحوم کے دیرینہ مرحوم ساتھی اور ہم عصر مولانا محمد سلیمان کے صاحبزادے حافظ محمد قاسم جو انکے بچپن کے دوست ہیں نے موبائل فون پر بہت محبت سے تصویر بنائی جو انہوں نے اپنی فیس بک پر اپلوڈ بھی کی-
حافظ ہارون الرشید کے خاندان بالخصوص انکے والد مرحوم اور ایم آر ڈی کے زمانے میں جے یو آئی کے صوبہ سندھ میں سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے جمہوریت پسند سیاسی حلقوں میں ملکی سطح پر مشہور ہوۓ تایازاد بھائی قاری شیرافضل خان مرحوم کے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے والد گرامی مفتی محمود مرحوم اور مولانا سمیع الحق شہید کے والد گرامی مولانا عبدالحق مرحوم کے زمانے سے دونوں بڑے مذہبی خاندانوں سے ذاتی تعلقات چلے آ رہے ہیں جسے حافظ ہارون الرشید اور انکا خانوادہ بڑی اہمیت دیتے ہیں اور یوں ذاتی طور پر انکی اپنی اور انکے گھرانے کی اجتماعی طور پر علمإ میں بھی نہ صرف اچھی جان پہچان ہے بلکہ انکے خاندان کی بڑی عزت ہے اور پھر انکے والد گرامی مرحوم کے شاگِردان جو مختلف ممالک میں دین اسلام کی خدمت کے لۓ منبر و محراب سے وابستہ ہیں وہ بھی ہمہ وقت بخوشی انکی میزبانی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حافظ ہارون الرشید بظاہر دنیاوی وسائل کی کمیابی کے باوجود مختلف ممالک میں جا چکے ہیں وہ 2015 میں دبئی اور ملائشیا، 2017 میں عمرہ کی ادائیگی کے لۓ سعودی عرب، 2019 میں دبئ، تھائی لینڈ، ملائشیا، سنگاپور اور چائنا، 2025 میں برطانیہ آنے سے کچھ ماہ پہلے ھانگ کانگ اور چائنا کا دورہ کر چکے ہیں-
حافظ ہارون الرشید اپنے والد صاحب کی بیماری کے ایام 1999 سے درجہ حفظ و ناظرہ اور 2001 سے درس نظامی کے مختلف درجات اپنے ادارہ دارالعلوم خدام الدین میں بنفس نفیس پڑھا رہے ہیں-
اس وقت ان کے ادارہ میں تیس افراد پر مشتمل اساتذہ اور دیگر عملہ موجود ہے جو تقریباً بشمول ایک سو اقامتی طلبإ کی سو طلبإ کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی میں مصروفِ عمل ہیں انکے ادارے نہ صرف باقاعدہ حکومت پاکستان کے مروجہ نظام کے مطابق وزارت تعلیم کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں بلکہ زیر تعلیم طلبإ کی دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کا بھی بھرپور خیال رکھا جاتا ہے اور مختلف سطح کے محکمہ تعلیم کے مروجہ امتحانات دلواۓ جاتے ہیں تاکہ طلبإ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم سے بھی آراستہ ہو سکیں-
انکے ادارے کے تعارف کے لۓ اتنا ہی کافی ہے کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ علوم قرآنیہ کے سربراه پروفیسر ڈاکٹر قاری تاج افسر مدرسہ خدام الدین کے اولین طالبعلموں میں سے ہیں جو مدرسہ کے طالبعلم کے طور پر سعودی عرب میں منعقدہ قرآت کے انٹرنیشنل مقابلوں میں انعام بھی حاصل کرتے رہے ہیں اور بعد میں تعلیم کے مختلف مدارج میں کامیابیوں کے بعد بطور لیکچرار بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ساتھ منسلک ہوۓ اور آج ترقی کی منازل طے کر کے شعبہ قرآنی تعلیمات کے صدر نشین ہیں اور اپنے استاد دارالعلوم خدام الدین کے بانی حافظ محمد ذمرد خان مرحوم کو اپنا محسن اور مربی قرار دیتے ہیں- (ختم شد)

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |