زندگی دوسروں کے زاویہ نظر سے
تحریر: محمد ذیشان بٹ
آج شام محترم بلال بشیر صاحب کی ایک مختصر مگر نہایت فکر انگیز تحریر پڑھنے کا موقع ملا جس میں انہوں نے بڑے سادہ مگر پُر اثر انداز میں ایک پیچیدہ معاشرتی رویے کی نشاندہی کی: وہ رویہ جس میں انسان خود سوال اٹھاتا ہے، خود ہی جواب دیتا ہے، اور پھر خود ہی جج بن کر فیصلہ سنا دیتا ہے۔ ان کی تحریر ایک آئینہ ہے جو ہمارے اپنے چہرے دکھاتی ہے، جن پر اکثر ہم پردے ڈالے رکھتے ہیں۔
بلال صاحب کی بات حرف بہ حرف درست ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جو بظاہر تہذیب و ترقی کا دعویدار ہے، مگر درحقیقت عدم برداشت، عجلت پسندی اور سطحی سوچ میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں ہر دوسرا فرد خود کو عقلِ کل سمجھتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کے بارے میں مفروضے گھڑتے ہیں، دلوں میں فتویٰ دیتے ہیں، اور پھر ان ہی خیالی مفروضوں کی بنیاد پر دوسرے کو مجرم ٹھہرا دیتے ہیں۔ اس عمل میں نہ دلیل شامل ہوتی ہے، نہ احساس، نہ انصاف۔
راقم الحروف کی عاجزانہ رائے میں، یہ رویے محض کسی فرد کا ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی ذہنی کیفیت کا عکس ہیں۔ ہم معاشی، ذہنی اور جذباتی دباؤ کے ایسے دائرے میں پھنس چکے ہیں کہ نہ خود کو سمجھنے کا وقت ملتا ہے اور نہ دوسروں کو۔ ہر کوئی تناؤ کا شکار ہے، ہر ذہن الجھا ہوا، ہر دل زخمی، اور ہر زبان تلوار بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی خاموش ہے تو ہم اسے گستاخ سمجھتے ہیں، اگر کوئی اختلاف کرتا ہے تو ہم اسے دشمن جان لیتے ہیں۔ ہم نے دوسروں کی نیت کو جاننے کا دعویٰ کرنا شروع کر دیا ہے، حالانکہ ہم اپنی نیت کے بھید سے بھی اکثر ناواقف ہوتے ہیں۔
یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ آج کا انسان بظاہر تعلیم یافتہ ضرور ہے، مگر اس کے اندر "علم” کی روح ناپید ہو چکی ہے۔ دنیاوی تعلیم ہمیں الفاظ کا ذخیرہ تو دے سکتی ہے، لیکن اگر وہ شعور، برداشت، اور انسان دوستی نہ دے تو وہ تکبر کا سبب بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس دینی علم، وہ بھی اہل دل اور اہل علم سے حاصل کیا گیا، انسان کو خاکساری، فہم، اور وسعتِ نظر عطا کرتا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ دوسروں کی زندگیوں میں جھانکنے سے پہلے اپنی آنکھوں کا عدسہ صاف کرنا ضروری ہے۔
راقم اس موضوع پر پہلے بھی مختلف تحریروں میں گزارش کر چکا ہے کہ کسی کی ذاتی زندگی میں بلا وجہ مداخلت کرنا، کسی کے کردار پر بغیر دلیل کے رائے دینا، یا کسی کے ردعمل کو اس کے حالات جانے بغیر پرکھنا، نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کے بھی منافی ہے۔ دین ہمیں حسنِ ظن کی تعلیم دیتا ہے، اور ہم بدگمانی کو اپنا شعار بنا چکے ہیں۔ دین ہمیں دوسروں کے عیوب چھپانے کا حکم دیتا ہے، اور ہم انہیں نمایاں کرنے پر تلے ہوتے ہیں۔
بلال بشیر صاحب نے بالکل درست کہا کہ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ ہر انسان کی ایک الگ کہانی ہوتی ہے۔ کسی کی خاموشی اس کا احتجاج ہو سکتی ہے، کسی کا تلخ لہجہ اس کے اندر کے زخموں کی بازگشت ہو سکتا ہے۔ زندگی صرف ہماری سوچ، ہماری امیدوں یا ہمارے تجربات تک محدود نہیں۔ ہمیں دوسروں کے زاویہ نگاہ کو سمجھنے کی جستجو کرنی ہوگی۔ یہی ظرف، یہی وسعتِ دل، اور یہی برداشت انسانیت کی اصل معراج ہے۔
بطور قوم ہمیں ایک اجتماعی تربیت کی ضرورت ہے۔ یہ تربیت صرف نصاب سے نہیں آتی، بلکہ گھروں سے، مسجدوں سے، اور مجلسوں سے پھوٹتی ہے۔ جب تک ہم ایک دوسرے کو معاف کرنا نہیں سیکھیں گے، دوسروں کے لیے آسانی پیدا نہیں کریں گے، اور اپنی سوچ کے خول سے باہر نہیں نکلیں گے، تب تک معاشرہ بگاڑ کی اس نہج پر ہی کھڑا رہے گا۔
آخر میں، بلال بشیر صاحب کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے کہ انہوں نے ایک سلگتے ہوئے مسئلے کو نہایت خوش اسلوبی سے بیان کیا۔ ان کی تحریر صرف ایک سطر نہیں، بلکہ ایک سوچ ہے، ایک پیغام ہے، ایک دعوت ہے کہ آئیں، سوچیں، رکیں، اور خود کو بدلنے کا آغاز کریں۔
اگر ہم واقعی بڑے انسان بننا چاہتے ہیں تو ہمیں فیصلہ صادر کرنے والا نہیں، محسوس کرنے والا دل بننا ہوگا۔
کیونکہ یہی اصل انسانیت ہے۔

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |