جاوید عباس جاوید : روشن چراغ
تحریر : مقبول ذکی مقبول ، بھکر
جاوید عباس جاوید : ضلع بھکر میں اُردو شعر و ادب کا روشن چراغ ہیں ۔
جاوید عباس جاوید بھکر شہر کے باسی ہیں اور اُردو شعری و نثری حوالوں سے پہچانے جاتے ہیں ۔ وہ اُردو زبان و ادب ، شاعری اور ثقافت کے حوالے سے اپنی ذات میں ایک مکمل حوالہ اور ادارہ ہیں ۔ شعر و ادب کے لیے ان کی خدمات بہت قیمتی اور لازوال ہیں ۔جاوید عباس کے والد غلام محمد متین کوٹلہ جامی ایک کہنہ مشق اُردو شاعر اور نثر نگار تھے ۔جاوید نے اپنے والدِ مرحوم کی تقلید میں اُردو شاعری اور نثرنگاری کو اپنا مشغلہ بنایا اور بچپن سے ہی شاعری اور نثر نگاری میں سکون محسوس کیا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ محکمہ تعلیم میں بطورِ پرائمری مدرس بھرتی ہوئے اور اپنے شعری ذوق و شوق کی وجہ سے ترقی کرتے کرتے اُردو کے ایسوسی ایٹ پروفیسر بن گئے اور اسی عہدے سے گورنمنٹ کامرس کالج جھنگ سے ریٹائر ہوئے ۔ انھوں نے شعر و ادب کی دُنیا میں اپنی پہچان کرائی ۔ یہی پہچان آپ کا وسیلہِ روزگار بھی بن گئی اور آپ کی ذات میں چھپی ہوئی خوبیوں کو اجاگر بھی کر دیا ۔
جاوید نے بسلسلہِ ملازمت 2006ء میں ہمارے شہر منکیرہ میں سینئرانسٹرکٹر اُردو کے عہدے پر تعینات ہوئے ۔ وہ بھکر سے روزانہ منکیرہ آتے تھے اور کالج ٹائم کے بعد واپس جاتے تھے ۔ اُن دنوں میرا تعلق اُردو ادب کے سلسلے میں مرحوم علی شاہ کے ساتھ تھا ۔ میں علی شاہ ( مرحوم ) اور بلال مہدی ( مرحوم ) کے ہمراہ کامرس کالج بھکر میں گیا ۔جہاں میری اُن سے پہلی ملاقات ہوئی ۔ پھر اُن سے اکثر منکیرہ کے بس اسٹاپ پر ملاقات ہوتی رہتی تھی ۔ جہاں علی شاہ ( مرحوم ) بھی موجود ہوتے تھے ۔ چائے کی چُسکیوں کے ساتھ ادبی موضوعات پرباتیں ہوتیں اور گپ شپ بھی ہوتی تھی ۔ جاوید عباس جاوید کی ذات سادگی ، خلوص اور سچائی کا ایک مکمل نمونہ ہے ۔ اُن میں کوئی فخر ، بڑائی ، خود سرائی اور خوشامد پسندی کا جذبہ نہیں ہے ۔ سچی اور پرخلوص باتیں کرنا اُن کی شناخت ہے اور اپنی ذات میں موجود فنی خوبیوں اور دیگر اوصاف کے اظہار میں انھوں نے کبھی نہ حسد کیا ہے ، نہ تکبر کیا ہے اور نہ کبھی کسی سے اپنا مقابلہ یا موازنہ کیا ہے ۔ اُن کی ذات میں علم وآگہی کے جو دریا موجود ہیں اُن کے نمایاں کرنے میں وہ کبھی شوق نہیں رکھتے تھے ۔ دوسروں کا کلام اور باتیں بڑے شوق سے سنتے ہیں لیکن اپنی ذات اور فن کے اظہار کرنے میں وہ اکثرکسرِ نفسی سے کام لیتے ہیں ۔
جاوید نے بتایا کہ انھوں نے نثر لکھنے سے ابتدا کی تھی ۔ 1974 ء جب وہ کلورکوٹ ہائی سکول میں نویں جماعت میں پڑھتے تھے تو اُن کے لکھے ہوئے نثری کہانی نما افسانے لاہور سے شائع ہونے والے بچوں کے معروف رسالے ٫٫ کھلونا ،، میں چھپتی تھیں اور اُس وقت کے معروف اخبار ٫٫ امروز ،، کے بچوں کے ایڈیشن ٫٫ بچوں کی دنیا ،، میں اُن کی نظمیں اور مختصر تحریریں چھپتی تھیں ۔ ٫٫ امروز ،، اخبار میں اُن دنوں منو بھائی کا کالم چھپتا تھا ۔جس کا نام ٫٫ گریبان ،، تھا اور اس کالم میں اکثر منو بھائی کلورکوٹ کی اپنی یادوں کا ذکر کیا کرتے تھے ۔ جاوید کا بچپن اور جوانی کا ابتدائی حصّہ کلورکوٹ میں گزرا ہے ۔ جہاں اُن کے والد متین کوٹلہ جامی مارکیٹ کمیٹی کے سیکریٹری تھے ۔ چنانچہ جاوید عباس بھی اکثر کلورکوٹ کی یادوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں ۔
جاوید بتاتے ہیں کہ :
٫٫ میرے والد گرامی اکثر اُردو ادب اور شاعری کی باتیں کرتے تھے اور ہم بہن بھائیوں میں بھی یہ عادت سرائیت کر گئی اور یوں ہم بھی اُردوشاعری اور نثر کی طرف راغب ہوئے ۔ غالباً 1971 – 1972ء کی بات ہے جب محلہ جھرولی کلورکوٹ میں ان کا گھر تھا اور ان کے بڑے بھائی اظہار الحسن المعروف حسن رضا نے کلورکوٹ کے ادب شناس ادیبوں لوگوں کے ساتھ مل کر وہاں اُردو کی پہلی انجمن بنائی ۔جس کا نام ٫٫ انجمن اسرارِ ادب ،، تھا ۔ اِس انجمن کے زیرِ انتظام ان کی بیٹھک میں تین مشاعرے ہوئے تھے ۔ جن میں کلورکوٹ کے شاعروں میں سے عبدالکریم مستانہ ، حمید اختر کاشف ، شبیر اختر ، لطیف عابدی ، تقی شاہ راغب ، اشک پٹیالوی ، ماسٹر عبدالعزیز آصف ، کرم حیدر بے کس ، غلام محمد تقی اور رانا جمیل و دیگر شعراء شریک ہوتے تھے ۔ اِس انجمن کے سرپرست رانا نذر محمد خان شمیم تھے ۔ ان مشاعروں میں دریا خان سے عابد سیمابی ، انجم عابدی ، قاضی اشتیاق اسیر جیسے شاعر بھی مدعو کیے گئے تھے ۔ اس انجمن کے زیرِ اہتمام دو کتابچے شائع ہوئے جو کلورکوٹ ( بھکر ) میں اُردو ادب پہلی تحریک تھی ۔ اس رسالے کا نام ٫٫ اسرارِ ادب ،، تھا اور اس کے دو ایڈیشن شائع ہوئے تھے ۔ اُن دنوں ڈیرہ اسماعیل جاکر اشک پٹیالوی یہ رسائل چھپوا کر آتے تھے ۔
کلورکوٹ کی اور بھی دیگر اہم باتیں وہ سناتے رہتے تھے ۔ بعد ازاں اُن کے تنقیدی مضامین ٫٫ ماہِ نو ،، لاہور ، ٫٫ تخلیق ،، لاہور ، ماہنامہ ٫٫ ارژنگ،، ،٫٫ طلوعِ اشک ،، لاہور ، ٫٫ اسالیب ،، سرگودھا ، ٫٫ نظریہِ پاکستان ،، لاہور اور ٫٫ حقیقت ،، بہاولپور میں شائع ہوتے رہے ۔ اس کے علاوہ انھوں نے بھکر سے شائع ہونے والے تمام مقامی اخبارات میں کالم نگاری کی ہے ۔ جس کا ریکارڈ اُن کے پاس محفوظ ہے ۔ بھکر کامرس کالج میں 1991ء میں انھوں نے پہلا میگزین ٫٫ الفلاح ،، کے نا م سے 1991ء میں شائع کیا اور یہ میگزین نوسال تک شائع ہوتا رہا ۔ بعد میں اس کا نام ٫٫ سرمایہ ،، رکھ دیا گیا ۔ اس رسالے کی معاونت میں ان کے ساتھ سعید عاصم اور قلبِ عباس بھی شامل تھے جوان دنوں کامرس کالج میں پڑھاتے تھے ۔ انھوں نے دیگر کامرس کالجزکے رسائل میں بھی شاعری اور مضامین شائع کیے ہیں ۔ ان کے بڑے بھائی ظفر عباس بھکر کے معروف شاعر ہیں ۔ ان کی چار شعری تصانیف شائع ہوچکی ہیں ۔انھیں شاعرِ ہفت بھی کہاجاتا ہے ۔ انھوں نے اُردو کے شاعری ساتھ ساتھ فارسی میں بھی شاعری کی جو ایرانی رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہے ۔ اس طرح ان کا گھرانہ بھکر کے ادبی گھرانوں میں سرفہرست ہے ۔ ان کے تنقیدی مضامین بہت سی کتابوں میں شائع ہوئے ہیں ۔جن کے تذکرے کے لیے ایک الگ موضوع درکار ہے اور وہ بھکر کے نثرنگاروں میں کلیدی اہمیت کے حامل ہیں ۔ آپ کا ایم ۔ فل ( اُردو ) کا مقالہ بعنوان ٫٫ بھکر کے غزل گوشعراء 1947ء تا 2003 ء ،، ایک بہت نادر تحقیقی دستاویز ہے ۔جس سے بھکر کے شعر و ادب کے دلدادہ اور محققین بھرپور استفادہ کرتے ہیں ۔
2022ء میں اُن کا مجموعہِ کلام ٫٫ راستے آساں ہوئے ،، شائع ہوا ۔ اس میں حمد ، نعت ، مرثیہ ، نظمیں
( آزادوپابند ) ، قطعات اور 100 غزلیات ہیں ۔ وہ بھکر کے اکثر مشاعروں اور ادبی محفلوں میں شرکت کرتے رہے ہیں ۔ ان کے شاگردوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جوان کی قدر جانتے ہیں اور آج بھی ان سے کسبِ فیض کرتے ہیں ۔ ان کی محفل علم و ادب کے متلاشیوں کے لیے ہمہ وقت حاضر ہے اور وہ یہ فریضہ بڑی خوشی اور توجہ سے کرتے ہیں ۔ان کے شاگردوں کے علاوہ ادبی محققین کی بڑی تعداد ان کے پاس اصلاح و مشاورت کے لیے آتے ہیں اور وہ ایم ۔ فل اور پی ۔ ایچ ۔ڈی سطح مقالہ جات کی تکمیل کے ساتھ اشعار کی اصلاح ، نثر نگاری کے عوامل اور ادبی معاملات میں رہنمائی کر کے خوشی محسوس کر تے ہیں ۔ اُن سے میری کافی عرصہ رفاقت رہی اور میں ان کے شاگردوں میں اپنا شمار کرنا اعزاز سمجھتا ہوں ۔ علاوہ ازیں بھکر کے نوجوان شعرا ء میں سے صفدر کربلائی ، مظہر مونس ، سعید عاصم ، شاہد بلال حسرت کاشمار بھی ان کے شاگردوں میں ہوتا ہے ۔
جہاں تک پروفیسر جاوید عباس جاوید کے نظریات اور ان کی شاعری کے موضوعات کا تعلق ہے ، میں نے یہ دیکھا ہے کہ ان کے کلام میں ایک تو اللّٰہ تعالیٰ کی ذات اور توحید کا بڑا ذکر ہے ۔ وہ یہ باتیں کر کے بہت خوش ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے خُدا پر کامل یقین رکھتے ہیں ۔توحید ان کا پسندیدہ موضوع ہے ۔ ان کا کلام متنوع موضوعات کا احاطہ کرتا ہے ۔انھوں نے نظم ونثر کی کئی اصناف میں اسپِ قلم کے جوہر دکھائے ہیں ۔ بلاتشکیک جاوید عباس ایک مہان شاعر ، نفیس نثرنگار اور شفیق استاد کے تمام خصائل سے مالا مال ہیں ۔توحید پر ان کے یقینِ کامل کے تناظر میں اشعار ملاحظہ فرمائیں :
جاوید وقفِ سجدہ تھی واحد خُدا کی ذات
یہ کیا ہوا کہ سینکڑوں مسجود ہو گئے
——–٭———
میرے سچے خُدا کہاں ہے تُو
ناخداؤں میں پھنس گیا ہوں میں
جاوید عباس جاوید تھل دھرتی اور وسیب کے ماحول کو بھی اپنی شاعری میں یاد رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے اشعار مقبول ہیں ۔ اپنی مٹی اور صحرا سے محبت کا ثبوت جاوید عباس اشعار کے پیرائے میں کچھ یوں پیش کرتے ہیں :
سنا ہے لوگ بستے ہیں پہاڑوں اور جھیلوں پر
ہمیں تو چین ملتا ہے فقط بھکر کے ٹیلوں پر
————٭——
قیامت کی تپش ، آندھی کے جھکڑ
یہی دیکھے سدا احوالِ بھکر
———–٭————–
تھل کے صحرا میں عجب آئی بہار
خشک ٹیلے مرکزِ باراں ہوئے
اُن کی شاعری میں اپنی ذات اور معاشرتی ناہمواروں کے حوالے سے خصوصاً ان کی غزلیات کے مقطع میں خوبصورت اشعار ملتے ہیں جس سے ان کی شاعری میں جدت و انفرادیت واضح جھلکتی ہے :
اپنے ہونے پر بہت نازاں ہوئے ………. ہم بھی اپنے دور کے انساں ہوئے
زندگانی کا سفر دشوار تھا ………. بندگی سے ٫٫ راستے آساں ہوئے ،،
وقت کی دُھند میں نہ کھوجانا ………. غمِ ہستی کے داغ دھوجانا
کبھی فرصت ملے اگر جاوید ………. گزرے وقتوں کی کھوج کو جانا
الغرض ! جاوید میرے محسن و مربی ہیں اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ خصوصاً ان کی ذات میں جو سادگی اور خلوص پایا جاتا ہے وہ مجھے بہت حوصلہ دیتا ہے ۔ میں ان سے ہر بات پر بے دھڑک مشورہ لیتا ہوں اور وہ کسی دباؤ یا کسی مطلب کے بغیر درست اور بہترین مشورہ دیتے ہیں ۔ بھکر میں ان کی موجودگی ایک ایسے درخت کی طرح ہے جس کا سایہ میرے جیسے نوآموز اور ادب دوست لکھاری اور شعراء کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے ۔ اللّٰہ تبارک تعالیٰ انھیں صحتِ کاملہ اور عمرِ خضر عطا فرمائے اور تشنگانِ شعر و ادب ان جیسے نخلِ تناور سے سیراب ہونے والوں کو فیضیاب کرے ۔آخر میں ان کا ایک شعر دیکھیں :
بہت سے کام کرنے کے ابھی جاوید رہتے ہیں
مگر یہ زندگانی بھی کہاں تک ساتھ دیتی ہے ۔
*
جاویدعباس جاوید:ضلع بھکر میں اردوشعروادب کا روشن چراغ
جاوید عباس جاوید : ضلع بھکر میں اُردو شعر و ادب کا روشن چراغ ہیں ۔
جاوید عباس جاوید بھکر شہر کے باسی ہیں اور اُردو شعری و نثری حوالوں سے پہچانے جاتے ہیں ۔ وہ اُردو زبان و ادب ، شاعری اور ثقافت کے حوالے سے اپنی ذات میں ایک مکمل حوالہ اور ادارہ ہیں ۔ شعر و ادب کے لیے ان کی خدمات بہت قیمتی اور لازوال ہیں ۔جاوید عباس کے والد غلام محمد متین کوٹلہ جامی ایک کہنہ مشق اُردو شاعر اور نثر نگار تھے ۔جاوید نے اپنے والدِ مرحوم کی تقلید میں اُردو شاعری اور نثرنگاری کو اپنا مشغلہ بنایا اور بچپن سے ہی شاعری اور نثر نگاری میں سکون محسوس کیا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ محکمہ تعلیم میں بطورِ پرائمری مدرس بھرتی ہوئے اور اپنے شعری ذوق و شوق کی وجہ سے ترقی کرتے کرتے اُردو کے ایسوسی ایٹ پروفیسر بن گئے اور اسی عہدے سے گورنمنٹ کامرس کالج جھنگ سے ریٹائر ہوئے ۔ انھوں نے شعر و ادب کی دُنیا میں اپنی پہچان کرائی ۔ یہی پہچان آپ کا وسیلہِ روزگار بھی بن گئی اور آپ کی ذات میں چھپی ہوئی خوبیوں کو اجاگر بھی کر دیا ۔
جاوید نے بسلسلہِ ملازمت 2006ء میں ہمارے شہر منکیرہ میں سینئرانسٹرکٹر اُردو کے عہدے پر تعینات ہوئے ۔ وہ بھکر سے روزانہ منکیرہ آتے تھے اور کالج ٹائم کے بعد واپس جاتے تھے ۔ اُن دنوں میرا تعلق اُردو ادب کے سلسلے میں مرحوم علی شاہ کے ساتھ تھا ۔ میں علی شاہ ( مرحوم ) اور بلال مہدی ( مرحوم ) کے ہمراہ کامرس کالج بھکر میں گیا ۔جہاں میری اُن سے پہلی ملاقات ہوئی ۔ پھر اُن سے اکثر منکیرہ کے بس اسٹاپ پر ملاقات ہوتی رہتی تھی ۔ جہاں علی شاہ ( مرحوم ) بھی موجود ہوتے تھے ۔ چائے کی چُسکیوں کے ساتھ ادبی موضوعات پرباتیں ہوتیں اور گپ شپ بھی ہوتی تھی ۔ جاوید عباس جاوید کی ذات سادگی ، خلوص اور سچائی کا ایک مکمل نمونہ ہے ۔ اُن میں کوئی فخر ، بڑائی ، خود سرائی اور خوشامد پسندی کا جذبہ نہیں ہے ۔ سچی اور پرخلوص باتیں کرنا اُن کی شناخت ہے اور اپنی ذات میں موجود فنی خوبیوں اور دیگر اوصاف کے اظہار میں انھوں نے کبھی نہ حسد کیا ہے ، نہ تکبر کیا ہے اور نہ کبھی کسی سے اپنا مقابلہ یا موازنہ کیا ہے ۔ اُن کی ذات میں علم وآگہی کے جو دریا موجود ہیں اُن کے نمایاں کرنے میں وہ کبھی شوق نہیں رکھتے تھے ۔ دوسروں کا کلام اور باتیں بڑے شوق سے سنتے ہیں لیکن اپنی ذات اور فن کے اظہار کرنے میں وہ اکثرکسرِ نفسی سے کام لیتے ہیں ۔
جاوید نے بتایا کہ انھوں نے نثر لکھنے سے ابتدا کی تھی ۔ 1974 ء جب وہ کلورکوٹ ہائی سکول میں نویں جماعت میں پڑھتے تھے تو اُن کے لکھے ہوئے نثری کہانی نما افسانے لاہور سے شائع ہونے والے بچوں کے معروف رسالے ٫٫ کھلونا ،، میں چھپتی تھیں اور اُس وقت کے معروف اخبار ٫٫ امروز ،، کے بچوں کے ایڈیشن ٫٫ بچوں کی دنیا ،، میں اُن کی نظمیں اور مختصر تحریریں چھپتی تھیں ۔ ٫٫ امروز ،، اخبار میں اُن دنوں منو بھائی کا کالم چھپتا تھا ۔جس کا نام ٫٫ گریبان ،، تھا اور اس کالم میں اکثر منو بھائی کلورکوٹ کی اپنی یادوں کا ذکر کیا کرتے تھے ۔ جاوید کا بچپن اور جوانی کا ابتدائی حصّہ کلورکوٹ میں گزرا ہے ۔ جہاں اُن کے والد متین کوٹلہ جامی مارکیٹ کمیٹی کے سیکریٹری تھے ۔ چنانچہ جاوید عباس بھی اکثر کلورکوٹ کی یادوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں ۔
جاوید بتاتے ہیں کہ :
٫٫ میرے والد گرامی اکثر اُردو ادب اور شاعری کی باتیں کرتے تھے اور ہم بہن بھائیوں میں بھی یہ عادت سرائیت کر گئی اور یوں ہم بھی اُردوشاعری اور نثر کی طرف راغب ہوئے ۔ غالباً 1971 – 1972ء کی بات ہے جب محلہ جھرولی کلورکوٹ میں ان کا گھر تھا اور ان کے بڑے بھائی اظہار الحسن المعروف حسن رضا نے کلورکوٹ کے ادب شناس ادیبوں لوگوں کے ساتھ مل کر وہاں اُردو کی پہلی انجمن بنائی ۔جس کا نام ٫٫ انجمن اسرارِ ادب ،، تھا ۔ اِس انجمن کے زیرِ انتظام ان کی بیٹھک میں تین مشاعرے ہوئے تھے ۔ جن میں کلورکوٹ کے شاعروں میں سے عبدالکریم مستانہ ، حمید اختر کاشف ، شبیر اختر ، لطیف عابدی ، تقی شاہ راغب ، اشک پٹیالوی ، ماسٹر عبدالعزیز آصف ، کرم حیدر بے کس ، غلام محمد تقی اور رانا جمیل و دیگر شعراء شریک ہوتے تھے ۔ اِس انجمن کے سرپرست رانا نذر محمد خان شمیم تھے ۔ ان مشاعروں میں دریا خان سے عابد سیمابی ، انجم عابدی ، قاضی اشتیاق اسیر جیسے شاعر بھی مدعو کیے گئے تھے ۔ اس انجمن کے زیرِ اہتمام دو کتابچے شائع ہوئے جو کلورکوٹ ( بھکر ) میں اُردو ادب پہلی تحریک تھی ۔ اس رسالے کا نام ٫٫ اسرارِ ادب ،، تھا اور اس کے دو ایڈیشن شائع ہوئے تھے ۔ اُن دنوں ڈیرہ اسماعیل جاکر اشک پٹیالوی یہ رسائل چھپوا کر آتے تھے ۔
کلورکوٹ کی اور بھی دیگر اہم باتیں وہ سناتے رہتے تھے ۔ بعد ازاں اُن کے تنقیدی مضامین ٫٫ ماہِ نو ،، لاہور ، ٫٫ تخلیق ،، لاہور ، ماہنامہ ٫٫ ارژنگ،، ،٫٫ طلوعِ اشک ،، لاہور ، ٫٫ اسالیب ،، سرگودھا ، ٫٫ نظریہِ پاکستان ،، لاہور اور ٫٫ حقیقت ،، بہاولپور میں شائع ہوتے رہے ۔ اس کے علاوہ انھوں نے بھکر سے شائع ہونے والے تمام مقامی اخبارات میں کالم نگاری کی ہے ۔ جس کا ریکارڈ اُن کے پاس محفوظ ہے ۔ بھکر کامرس کالج میں 1991ء میں انھوں نے پہلا میگزین ٫٫ الفلاح ،، کے نا م سے 1991ء میں شائع کیا اور یہ میگزین نوسال تک شائع ہوتا رہا ۔ بعد میں اس کا نام ٫٫ سرمایہ ،، رکھ دیا گیا ۔ اس رسالے کی معاونت میں ان کے ساتھ سعید عاصم اور قلبِ عباس بھی شامل تھے جوان دنوں کامرس کالج میں پڑھاتے تھے ۔ انھوں نے دیگر کامرس کالجزکے رسائل میں بھی شاعری اور مضامین شائع کیے ہیں ۔ ان کے بڑے بھائی ظفر عباس بھکر کے معروف شاعر ہیں ۔ ان کی چار شعری تصانیف شائع ہوچکی ہیں ۔انھیں شاعرِ ہفت بھی کہاجاتا ہے ۔ انھوں نے اُردو کے شاعری ساتھ ساتھ فارسی میں بھی شاعری کی جو ایرانی رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہے ۔ اس طرح ان کا گھرانہ بھکر کے ادبی گھرانوں میں سرفہرست ہے ۔ ان کے تنقیدی مضامین بہت سی کتابوں میں شائع ہوئے ہیں ۔جن کے تذکرے کے لیے ایک الگ موضوع درکار ہے اور وہ بھکر کے نثرنگاروں میں کلیدی اہمیت کے حامل ہیں ۔ آپ کا ایم ۔ فل ( اُردو ) کا مقالہ بعنوان ٫٫ بھکر کے غزل گوشعراء 1947ء تا 2003 ء ،، ایک بہت نادر تحقیقی دستاویز ہے ۔جس سے بھکر کے شعر و ادب کے دلدادہ اور محققین بھرپور استفادہ کرتے ہیں ۔
2022ء میں اُن کا مجموعہِ کلام ٫٫ راستے آساں ہوئے ،، شائع ہوا ۔ اس میں حمد ، نعت ، مرثیہ ، نظمیں
( آزادوپابند ) ، قطعات اور 100 غزلیات ہیں ۔ وہ بھکر کے اکثر مشاعروں اور ادبی محفلوں میں شرکت کرتے رہے ہیں ۔ ان کے شاگردوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جوان کی قدر جانتے ہیں اور آج بھی ان سے کسبِ فیض کرتے ہیں ۔ ان کی محفل علم و ادب کے متلاشیوں کے لیے ہمہ وقت حاضر ہے اور وہ یہ فریضہ بڑی خوشی اور توجہ سے کرتے ہیں ۔ان کے شاگردوں کے علاوہ ادبی محققین کی بڑی تعداد ان کے پاس اصلاح و مشاورت کے لیے آتے ہیں اور وہ ایم ۔ فل اور پی ۔ ایچ ۔ڈی سطح مقالہ جات کی تکمیل کے ساتھ اشعار کی اصلاح ، نثر نگاری کے عوامل اور ادبی معاملات میں رہنمائی کر کے خوشی محسوس کر تے ہیں ۔ اُن سے میری کافی عرصہ رفاقت رہی اور میں ان کے شاگردوں میں اپنا شمار کرنا اعزاز سمجھتا ہوں ۔ علاوہ ازیں بھکر کے نوجوان شعرا ء میں سے صفدر کربلائی ، مظہر مونس ، سعید عاصم ، شاہد بلال حسرت کاشمار بھی ان کے شاگردوں میں ہوتا ہے ۔
جہاں تک پروفیسر جاوید عباس جاوید کے نظریات اور ان کی شاعری کے موضوعات کا تعلق ہے ، میں نے یہ دیکھا ہے کہ ان کے کلام میں ایک تو اللّٰہ تعالیٰ کی ذات اور توحید کا بڑا ذکر ہے ۔ وہ یہ باتیں کر کے بہت خوش ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے خُدا پر کامل یقین رکھتے ہیں ۔توحید ان کا پسندیدہ موضوع ہے ۔ ان کا کلام متنوع موضوعات کا احاطہ کرتا ہے ۔انھوں نے نظم ونثر کی کئی اصناف میں اسپِ قلم کے جوہر دکھائے ہیں ۔ بلاتشکیک جاوید عباس ایک مہان شاعر ، نفیس نثرنگار اور شفیق استاد کے تمام خصائل سے مالا مال ہیں ۔توحید پر ان کے یقینِ کامل کے تناظر میں اشعار ملاحظہ فرمائیں :
جاوید وقفِ سجدہ تھی واحد خُدا کی ذات
یہ کیا ہوا کہ سینکڑوں مسجود ہو گئے
——–٭———
میرے سچے خُدا کہاں ہے تُو
ناخداؤں میں پھنس گیا ہوں میں
جاوید عباس جاوید تھل دھرتی اور وسیب کے ماحول کو بھی اپنی شاعری میں یاد رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے اشعار مقبول ہیں ۔ اپنی مٹی اور صحرا سے محبت کا ثبوت جاوید عباس اشعار کے پیرائے میں کچھ یوں پیش کرتے ہیں :
سنا ہے لوگ بستے ہیں پہاڑوں اور جھیلوں پر
ہمیں تو چین ملتا ہے فقط بھکر کے ٹیلوں پر
————٭——
قیامت کی تپش ، آندھی کے جھکڑ
یہی دیکھے سدا احوالِ بھکر
———–٭————–
تھل کے صحرا میں عجب آئی بہار
خشک ٹیلے مرکزِ باراں ہوئے
اُن کی شاعری میں اپنی ذات اور معاشرتی ناہمواروں کے حوالے سے خصوصاً ان کی غزلیات کے مقطع میں خوبصورت اشعار ملتے ہیں جس سے ان کی شاعری میں جدت و انفرادیت واضح جھلکتی ہے :
اپنے ہونے پر بہت نازاں ہوئے ………. ہم بھی اپنے دور کے انساں ہوئے
زندگانی کا سفر دشوار تھا ………. بندگی سے ٫٫ راستے آساں ہوئے ،،
وقت کی دُھند میں نہ کھوجانا ………. غمِ ہستی کے داغ دھوجانا
کبھی فرصت ملے اگر جاوید ………. گزرے وقتوں کی کھوج کو جانا
الغرض ! جاوید میرے محسن و مربی ہیں اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ خصوصاً ان کی ذات میں جو سادگی اور خلوص پایا جاتا ہے وہ مجھے بہت حوصلہ دیتا ہے ۔ میں ان سے ہر بات پر بے دھڑک مشورہ لیتا ہوں اور وہ کسی دباؤ یا کسی مطلب کے بغیر درست اور بہترین مشورہ دیتے ہیں ۔ بھکر میں ان کی موجودگی ایک ایسے درخت کی طرح ہے جس کا سایہ میرے جیسے نوآموز اور ادب دوست لکھاری اور شعراء کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے ۔ اللّٰہ تبارک تعالیٰ انھیں صحتِ کاملہ اور عمرِ خضر عطا فرمائے اور تشنگانِ شعر و ادب ان جیسے نخلِ تناور سے سیراب ہونے والوں کو فیضیاب کرے ۔آخر میں ان کا ایک شعر دیکھیں :
بہت سے کام کرنے کے ابھی جاوید رہتے ہیں
مگر یہ زندگانی بھی کہاں تک ساتھ دیتی ہے ۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |