ہم فیس دیتے ہیں
تحریر حمد ذیشان بٹ
امتحانات کا موسم آتے ہی ہر طرف گہما گہمی شروع ہو جاتی ہے۔ کہیں مٹھائی کے ڈبے کھلتے ہیں تو کہیں صدمے کے آنسو بہتے ہیں۔ لیکن ایک جملہ تقریباً ہر گھر میں سننے کو ملتا ہے: ’’ہم تو فیس دیتے ہیں جی، باقی سکول کا کام ہے‘‘۔ کاش! اگر تعلیم صرف فیس سے ملتی تو آج تک کوئی بچہ فیل نہ ہوتا اور ہر گلی محلے میں کم از کم دس دس پروفیسر کھڑے ہوتے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ علم محنت سے آتا ہے، استاد کی صحبت سے آتا ہے اور والدین کی توجہ سے پروان چڑھتا ہے۔
ہمارے ہاں والدین کا حال یہ ہے کہ بچہ چاہے سارا سال موبائل پر کھیلتا رہے، انسٹاگرام پر ریلس ڈالتا رہے، لیکن جیسے ہی رزلٹ کا دن قریب آتا ہے تو ماں دعائیں مانگتی ہے کہ بیٹا فرسٹ آجائے، اور والد اخبار بند کر کے اعلان کر دیتے ہیں کہ ’’یہ سب سکول کی نااہلی ہے‘‘۔ حالانکہ اگر فیس سے ڈگری ملتی تو ملک ریاض کے بیٹے آج کم از کم پی ایچ ڈی ڈاکٹر ضرور ہوتے اور بادشاہوں کے بچے کبھی فیل نہ ہوتے۔
قرآن کریم نے علم کی قدر و قیمت یوں بیان کی:
"قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ” (الزمر: 9)
یعنی بھلا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟
صحابہ کرامؓ نے علم کے لیے سخت مشقتیں اٹھائیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ استاد کے دروازے پر گھنٹوں دھوپ میں کھڑے رہتے تاکہ ایک سبق سیکھ سکیں۔ امام بخاریؒ نے ایک ایک حدیث کے لیے میلوں کا سفر کیا۔ ان کے پاس نہ فیس تھی نہ ایئرکنڈیشنڈ کلاس روم، لیکن ادب، محنت اور مستقل مزاجی تھی۔
اس کے مقابلے میں آج کے والدین اگر استاد بچے کو ذرا سا بھی ڈانٹ دے تو فوراً شکایت لے کر پہنچ جاتے ہیں: ’’ہم فیس دیتے ہیں، یہ کیا رویہ ہے؟‘‘ جیسے استاد کوئی گھریلو ملازم ہے۔ اور اگر سکول ’’پی ٹی ایم‘‘ بلائے تو جواب ملتا ہے: ’’جی ہمیں تو پتہ ہی نہیں چلا‘‘۔ ارے بھائی! سکول نے گیٹ پر ایف آئی اے کھڑی کی ہوئی ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ جن بچوں کے نتائج اچھے ہوتے ہیں انہی کے والدین بار بار سکول آ کر استاد سے ملتے ہیں، اور جن بچوں کو اصل ضرورت ہوتی ہے ان کے ابو دکان پر بیٹھے ہوتے ہیں اور امی انسٹاگرام پر فلٹر لگا رہی ہوتی ہیں۔
تعلیم دراصل ایک مثلث ہے: استاد، والدین اور بچہ۔ تینوں مل کر نتیجہ پیدا کرتے ہیں۔ مگر آج والدین اس مثلث کا ٹوٹا ہوا کونا بن چکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ استاد اکیلا محنت کرے، اور بچے کی کامیابی ان کے خوابوں کے مطابق خود بخود سامنے آ جائے۔ یہ وہی خواب ہیں جو رزلٹ کے دن آنکھوں سے بہہ نکلتے ہیں۔
لہٰذا والدین کرام! یہ حقیقت سمجھ لیں کہ فیس دینا کافی نہیں۔ فیس تو صرف دروازہ کھولتی ہے، اندر داخل کروانا استاد کا کام ہے، اور بچے کے ساتھ چلتے رہنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ استاد کے ساتھ رابطہ رکھیں، اس کی عزت کریں اور بچے پر مسلسل نظر رکھیں۔ ورنہ اگلے رزلٹ کے دن آپ کے بیٹے کی مارک شیٹ دیکھ کر یہی لگے گا کہ شاید وہ سکول نہیں جاتا تھا بلکہ آپ صرف فیس کسی جم کی ممبرشپ کے طور پر بھر رہے تھے
Title Image by cuteluke from Pixabay

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |