یونیسکو سے امریکہ کی علیحدگی
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
امریکہ کی جانب سے ایک بار پھر اقوامِ متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو (UNESCO) سے علیحدگی کا اعلان عالمی سطح پر حیرت اور بحث کا باعث بنا ہے۔ اس فیصلے کی بنیاد اسرائیل مخالف جذبات کے پرچار کا الزام ہے، جو نہ صرف اقوامِ متحدہ کی بنیادی اقدار سے متصادم ہے بلکہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب دنیا کو باہمی تعاون، امن، ثقافتی ہم آہنگی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی اشد ضرورت ہے۔
اقوامِ متحدہ کا ادارہ یونیسکو 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے تباہ کن نتائج کے بعد قائم ہوا، تاکہ تعلیم، سائنس، ثقافت اور اطلاعات کے ذریعے دنیا میں امن اور بین الاقوامی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔ امریکہ یونیسکو کے بانی رکن ممالک میں شامل رہا، تاہم اس کی یونیسکو کے ساتھ تاریخ نشیب و فراز سے بھری ہوئی ہے۔
1984 میں امریکہ نے پہلی مرتبہ یونیسکو پر "بائیں بازو کی سیاست، مالی بدعنوانی اور اسرائیل مخالف تعصب” کے الزامات لگا کر ادارے سے علیحدگی اختیار کی۔
2003 میں دوبارہ شمولیت اختیار کی گئی، لیکن فلسطین کو 2011 میں مکمل رکنیت دیے جانے کے بعد امریکہ نے یونیسکو کی مالی معاونت روک دی۔
2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے پھر علیحدگی کا اعلان کیا، اور اب حالیہ اعلان کے مطابق 31 دسمبر 2026 کو اس فیصلے کا باضابطہ اطلاق ہو گا۔
امریکہ نے یونیسکو پر اسرائیل مخالف ایجنڈا پھیلانے کا الزام عائد کیا، خاص طور پر فلسطین کو مکمل رکنیت دینے اور یروشلم کو فلسطینی ورثہ قرار دینے پر۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کسی قوم کے ثقافتی ورثے کو تسلیم کرنا تعصب کے زمرے میں آتا ہے یا یہ ایک تاریخی حقیقت کی تائید ہے؟
یونیسکو ایک غیر جانب دار ادارہ ہے جو تمام اقوام کو برابر سمجھتا ہے اور اس کا مقصد ثقافتی حقائق کو محفوظ رکھنا ہے نہ کہ کسی سیاسی فریق کی حمایت کرنا ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ یونیسکو کا نظریاتی ایجنڈا "امریکہ فرسٹ” پالیسی سے متصادم ہے۔ لیکن درحقیقت، یونیسکو جیسے اداروں کا مقصد ہی "مشترکہ مفادات” کے لیے کام کرنا ہے نہ کہ کسی ایک قوم کے خودغرضانہ مقاصد کی تکمیل۔
یونیسکو دنیا بھر میں تعلیمی منصوبے، سائنسی ترقی، صحافت کی آزادی، ثقافتی ورثہ کی حفاظت، لسانی تنوع اور بنیادی تعلیم کے فروغ جیسے منصوبوں میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے۔ امریکہ کی علیحدگی ان منصوبوں کو بجٹ اور پالیسی سطح پر شدید متاثر کر سکتی ہے۔
عالمی برادری کے اجتماعی اداروں سے مسلسل علیحدگی کے فیصلے امریکہ کو اخلاقی و سفارتی طور پر تنہائی کی طرف لے جا رہے ہیں، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں اس کے تاثر کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
اس فیصلے کے کئی ممکنہ اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جن میں فلسطین کے حوالے سے یونیسکو کی سرگرمیاں مزید دباؤ کا شکار ہو سکتی ہیں۔ یونیسکو کا بجٹ متاثر ہو گا، جس کا اثر ترقی پذیر ممالک میں تعلیمی اور ثقافتی منصوبوں پر پڑے گا۔ عالمی برادری میں امریکہ کے کردار اور ساکھ پر سوالات اٹھیں گے اور اسرائیل کو مزید بالواسطہ یا براہِ راست سفارتی تقویت حاصل ہو گی۔
بین الاقوامی اداروں کو سیاست سے پاک رکھا جائے، یونیسکو جیسے اداروں کو سیاسی و سفارتی تنازعات سے بالاتر ہونا چاہیے۔ رکن ممالک کو چاہیے کہ ان اداروں کو ثقافتی اور سائنسی ترقی کا پلیٹ فارم سمجھیں، سیاسی دنگل نہیں۔ عالمی طاقتیں غیر جانب دار کردار ادا کریں، امریکہ جیسے ممالک کو چاہیے کہ وہ طاقت کے بجائے مکالمے اور ہم آہنگی کو ترجیح دیں۔ یونیسکو جیسے ادارے امریکہ کی اقدار جیسے آزادی، تعلیم اور ثقافتی تنوع کے ترجمان ہیں۔ عالمی برادری مشترکہ لائحہ عمل بنائے، دیگر رکن ممالک کو چاہیے کہ وہ یونیسکو کی مالی و نظریاتی خودمختاری کو تحفظ دیں، اور ایسے ممالک کو واپس لانے کی سفارتی کوششیں کریں جو سیاسی بنیادوں پر ادارے سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔
یونیسکو کو مزید شفافیت اور توازن اپنانا ہوگا، یونیسکو کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی پالیسیوں میں شفافیت، توازن اور رکن ممالک کے خدشات کا جائزہ لے، تاکہ اس پر جانبداری کا الزام نہ لگ سکے۔
یونیسکو سے امریکہ کی علیحدگی ایک ایسا قدم ہے جو عالمی ثقافتی ورثے، تعلیمی تعاون اور بین الاقوامی ہم آہنگی کے لیے خطرناک نظیر بن سکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ عالمی امن اور ترقی انفرادی نہیں، اجتماعی کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر طاقتور ممالک اپنی مرضی کے مطابق عالمی اداروں سے وابستگی کو ناپ تول کے پیمانے پر تولیں گے تو نہ صرف ادارے بلکہ انسانی ترقی کا پورا عمل متاثر ہو گا۔ یہی وقت ہے کہ ہم قوموں کے درمیان مکالمے، ثقافتی ہم آہنگی اور تعلیمی تعاون کو ایک نئی روح دیں، اور یونیسکو جیسے اداروں کو مزید مستحکم اور غیر سیاسی بنانے کی کوشش کریں۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |