“تجھ سے مل کے سب در دل کے وا ہوتے ہیں” از فرہاد احمد فگار
تجھ سے مل کے سب در دل کے وا ہوتے ہیں
تو ہی تو ہوتا ہے ہم جس جا ہوتے ہیں
تُو کرتا ہے روشن دنیا روح اور دل کی
چاند اور تارے تیرے آگے کیا ہوتے ہیں
آج تمھارے ہاتھ میں ایک کنارا تک نہیں
ہم نے کہا بھی تھا دریا دریا ہوتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرہاد احمد فگار
تجلیٔ الوہیت اور انسانی دل کا انکشاف
فرہاد احمد فگار کی یہ حمد روحانی احساس اور الوہی تعلق کی حسین عکاسی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ “تجھ سے مل کے سب در دل کے وا ہوتے ہیں”، گویا خدا کی قربت انسان کے دل کے تمام بند دریچوں کو کھول دیتی ہے۔ یہ مصرعہ صوفیانہ تجربے کی بنیاد پر کھڑا ہے جہاں بندہ اپنے خالق کے ساتھ وصل کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ انسانی دل، جو عام حالات میں غفلت اور خودغرضی کے پردوں میں چھپا رہتا ہے، اس لمحے نورِ یقین سے روشن ہو جاتا ہے۔ شاعر کا لہجہ عقیدت، انکسار اور عرفان سے لبریز ہے۔ یہاں دل کا کھلنا دراصل انسان کے اندرونی نور کی بیداری ہے۔ تصوف کے مطابق، “دل خدا کا گھر ہے” اور جب یہ دل کھلتا ہے تو معرفت کے در وا ہو جاتے ہیں۔ شاعر کا یہ نکتہ روحانیت کے بلند ترین احساس کی نمائندگی کرتا ہے جہاں خدا کی قربت بندے کے شعور کو وسعت بخشتی ہے۔
الوہی روشنی اور کائناتی تمثیل
دوسرے شعر میں شاعر کہتا ہے، “تُو کرتا ہے روشن دنیا روح اور دل کی، چاند اور تارے تیرے آگے کیا ہوتے ہیں”۔ یہاں شاعر نے روشنی کو استعارہ کے طور پر استعمال کیا ہے جو خدا کی صفتِ نورانیت کی علامت ہے۔ یہ وہی نور ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے: “اللّٰہ نور السموات والارض”۔ شاعر کے نزدیک دنیا کی ساری روشنی، چاند کی ٹھنڈک اور ستاروں کی چمک خدا کے نور کے سامنے ہیچ ہیں۔ یہ تمثیل کائناتی سطح پر خدا کی قدرت کی مظہر ہے۔ شاعر نے روح اور دل کی روشنی کو کائنات کی روشنی پر فوقیت دی ہے، کیونکہ روحانی بصیرت مادی بصیرت سے زیادہ طاقتور ہے۔ شاعر کا انداز نہ صرف استعاراتی ہے بلکہ فلسفیانہ گہرائی بھی رکھتا ہے۔ یہ مصرعہ ایک ایسی روشنی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ظاہری نہیں بلکہ باطنی ہے — وہ روشنی جو انسان کو خدا کی پہچان عطا کرتی ہے۔
انسانی کمزوری اور خدا کی قدرت
تیسرے شعر میں شاعر کہتا ہے: “آج تمھارے ہاتھ میں ایک کنارا تک نہیں، ہم نے کہا بھی تھا دریا دریا ہوتے ہیں۔” یہاں شاعر انسانی کمزوری اور خدا کی لامحدود طاقت کو بیان کرتا ہے۔ دریا کا استعارہ وسعت، بے ثباتی اور طاقت کے لیے استعمال ہوا ہے، جو خدا کی قدرت اور انسان کی عاجزی کا مظہر ہے۔ شاعر انسان کو متنبہ کرتا ہے کہ خدا کے دریا سے مقابلہ ممکن نہیں، کیونکہ یہ دریا اُس کی ذات کی علامت ہے، جو لا محدود ہے۔ “کنارا نہ ہونا” دراصل بندگی کی حالت ہے — بندہ اس دریا میں غرق ہو کر فنا فی اللہ کی منزل پاتا ہے۔ شاعر کے نزدیک دنیاوی سہارے عارضی ہیں، اصل سہارا صرف خدا ہے۔ یہی وہ صوفیانہ نظریہ ہے جو انسان کو خود سے ماورا کر کے حقیقتِ ازلی سے جوڑتا ہے۔
کلیدی مفہوم اور روحانی ہم آہنگی
مجموعی طور پر یہ حمد روحانی عقیدت، عرفان اور خالص توحید کے احساسات سے بھرپور ہے۔ شاعر کا خدا کے ساتھ مکالمہ سراپا نیازمندی کا مظہر ہے۔ اس کلام میں بندہ خود کو فنا کرتا ہے تاکہ بقا پائے۔ ہر مصرعہ میں ایک لطیف روحانی تجربہ پوشیدہ ہے جو صوفیانہ روایات سے ہم آہنگ ہے۔ شاعر نے نہ صرف الفاظ کے ذریعے عقیدت کا اظہار کیا ہے بلکہ ایک جذباتی کیفیت بھی پیدا کی ہے جو قاری کے دل پر اثر ڈالتی ہے۔ اس حمد میں خدا کی صفاتِ نور، قدرت، محبت اور قربت کے تاثر نمایاں ہیں۔ شاعر کا وژن یہ ہے کہ انسان جب تک خدا سے جڑ نہیں جاتا، تب تک اس کے اندر کی تاریکی ختم نہیں ہوتی۔
اسلوبِ شاعری اور فنی تجزیہ
فرہاد احمد فگار کی حمد کا اسلوب نہایت شفاف، رواں اور صوفیانہ نرمی لیے ہوئے ہے۔ ان کے کلام میں خارجی تمثیلیں (چاند، تارے، دریا) داخلی احساسات (روح، دل، قربتِ الٰہی) کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر معنوی گہرائی پیدا کرتی ہیں۔ وہ مشکل الفاظ یا گنجلک تراکیب سے گریز کرتے ہیں اور سادگی کے ذریعے روحانی تاثیر پیدا کرتے ہیں۔ مصرعوں میں صوتی توازن اور روانی حمد کی نعتی فضا کو مزید مؤثر بناتی ہے۔ فگار کی زبان میں ایک لطافت ہے جو قاری کے دل کو چھو لیتی ہے۔ یہ اسلوب نہ صرف کلاسیکی حمدیہ روایت سے جڑا ہوا ہے بلکہ جدید روحانی حسیت کو بھی منعکس کرتا ہے، جس سے ان کی حمد ایک زندہ روحانی تجربہ بن جاتی ہے۔
یہ حمد فنی اعتبار سے ایک مکمل روحانی تجربے کا بیان ہے جو انسان کو اپنے خالق کی قربت کے احساس سے لبریز کر دیتی ہے
Title Image by pixabay

اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردو
رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |