کامیاب اور بھرپور زندگی جینے کا راز
بہت عرصہ پہلے ایک واقعہ پڑھا تھا جس میں لکھا تھا کہ ایک بحری جہاز سمندر میں ڈوب رہا ہوتا یے، ہر طرف ہلچل برپا ہوتی ہے، جہاز کا عملہ اور سب مسافر چیخ و پکار کر رہے ہوتے ہیں مگر ایک آدمی بڑے اطمینان سے جہاز کے ایک تخت پر بیٹھا کتاب کا مطالعہ کر رہا ہوتا ہے۔ ایک مسافر حیرانی سے ہانپتا ہوا اس سے پوچھتا ہے، "بھائی ادھر ہم سب مرنے جا رہے اور آپ یہ کتاب کیوں پڑھ رہے ہیں؟” اس پر کتاب کا مطالعہ کرنے والا شخص بڑے سکون سے اسے جواب دیتا ہے اور کہتا ہے، "ایک تو ہمیں معلوم ہے کہ ہم سب مرنے جا رہے ہیں اور ہمارے پاس صرف چند منٹوں کی زندگی باقی رہ گئی ہے تو پھر میں جان سے بھی زیادہ اس قیمتی وقت کو بھلا رونے دھونے میں کیوں ضائع کروں۔”
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم زندگی کے سالوں، مہینوں، ہفتوں، دنوں، گھنٹوں اور لمحوں کو ایک تسلسل کے ساتھ گزارنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم اس بات کو سمجھ جائیں کہ جتنی اہمیت و افادیت ایک سال، مہینے، ہفتے، دن اور ایک گھنٹے وغیرہ کی ہے، اتنی ہی اہمیت و افادیت ایک ثانیہ کی بھی ہے، تو زندگی کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر یکسر بدل سکتا یے۔ اس فلسفہ زندگی کے پیچھے یہ راز پوشیدہ ہے کہ اصل زندگی لمحہ موجود ہی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کے جو ماہ و سال گزر جاتے ہیں اور جو "ماضی” کہلاتے ہیں یا زندگی کے جو لمحات اور ماہ و سال ابھی باقی ہوتے ہیں اور جسے ہم "مستقبل” کہتے ہیں، ان دونوں کو ان کے گزر جانے کے بعد یا ان کے آنے سے پہلے، ہم انہیں بدلنے یا تبدیل کرنے کا اختیار یا طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کے پاس بس اتنی سی مہلت ہوتی ہے کہ ہمیں لمحہ موجود کی جو زندگی میسر ہے اور جس میں ہم جی رہے ہیں تو ہم سب اسے بھرپور طریقے سے جینے کی کوشش کریں۔
میں انگریزی زبان کے ایک فقرے، "لیونگ لائف ٹو اٹس فل ایکسٹینٹ” کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں کہ جس کا مفہوم میں اس طرح نکالنے کی کوشش کرتا ہوں کہ زندگی کے ہر لمحہ کو اس کی تمام تفصیلات اور جہات کے ساتھ مکمل توجہ کے ساتھ جینا چایئے تاکہ کسی بھی طرح سے اس میں کوئی کمی نہ رہ جائے مثال کے طور پر آپ ورزش کرتے ہیں، موسیقی سنتے ہیں، مطالعہ کرتے ہیں، کسی سے ہمکلام ہوتے ہیں یا زندگی کا کوئی بھی کام کرتے ہیں تو آپ اسے مکمل دل جمعی اور توجہ سے کریں تاکہ کسی بھی جگہ اس میں حتہ الامکان کوئی نقص یا کمی باقی نہ رہے، مگر ہم سب میں سے اکثر لوگ زندگی کے لمحہ موجود کو بھی اسی طرح بے توقیری کے ساتھ گزار دیتے ہیں کہ جیسے وہ پہلے ہی گزر چکا ہو یا اسے ابھی آنا باقی ہو۔
ایک بار کسی نے مشہور فلسفی خلیل جبران سے پوچھا کہ:
"انسانوں میں سب سے حیرت انگیز بات کیا ہے؟” انہوں نے جواب دیا کہ، "انسان بچپن سے اکتا جاتے ہیں اور جلدی بڑے ہونے کی آرزو کرتے ہیں، پھر جب بڑے ہو جاتے ہیں تو دوبارہ بچپن کی تمنا کرتے ہیں۔ اپنی صحت کی قربانی دے کر دولت کماتے ہیں، پھر اسی دولت کو صحت کی بحالی پر خرچ کرتے ہیں۔ وہ مستقبل کی فکر میں حال کو نظرانداز کر دیتے ہیں، نتیجتاً نہ وہ حال میں جیتے ہیں اور نہ ہی وہ مستقبل میں جی پاتے ہیں۔ ایسے لوگ یوں زندگی بسر کرتے ہیں جیسے کبھی مرنا نہیں اور یوں مر جاتے ہیں جیسے کبھی جیا ہی نہیں۔”
زندگی کے بارے میں ہم عام انسانوں کا یہی غافلانہ رویہ (جسے انگریزی زبان میں "لیتھارجک بیئوئیر” کہتے ہیں) ہمیں زندگی کے اصل لطف سے محروم کر دیتا ہے۔ امریکی مصنفہ ہیلن کیلر نے بھی اپنے ایک مضمون، "تھری ڈیز ٹو سی” (دیکھنے کے تین دن) کے ایک مصرعے میں بھی یہی کہا تھا کہ، "ہم آنکھیں رکھنے کے باوجود کچھ نہیں دیکھتے ہیں۔” آپ کسی آدمی سے پوچھیں جو سیر کر کے آیا ہو کہ، "آپ نے کیا دیکھا؟” اس پر وہ جواب میں عموما یہی کہے گا کہ، "کچھ خاص نہیں دیکھا ہے۔”
دنیا میں جتنے بھی عظیم لوگ گزرے ہیں ان کی عظمت کا یہی ایک راز تھا کہ انہوں نے جتنی زندگی بھی گزاری اسے انہوں نے مکمل بھرپور طریقے سے جیا۔ دنیا کے عظیم ترین فلسفیوں، مصنفین یا کھلاڑیوں وغیرہ ہی کو دیکھ لیں کہ انہوں نے عظمت کی بلندیوں کو اسی وقت چھوا جب انہوں نے اپنی زندگی کے اوقات کو بھرپور طریقے سے جینے کا فن سیکھ لیا، انہوں نے اپنی زندگی کے ہر "لمحہ موجود” سے بھرپور فائدہ اٹھایا، اسے ضائع نہیں کیا، مسلسل محنت کی اور پھر انہوں نے زندگی کے جس میدان کا بھی انتخاب کیا وہ اس میں مہارت حاصل کرتے چلے گئے۔
میرا ذاتی تجربہ ہے کہ آپ زندگی میں کچھ بننا چاہتے ہیں تو کبھی بھی وقت ضائع نہ کریں۔ آپ نے زندگی میں کچھ غلطیاں کی ہیں یا ماضی میں وقت ضائع کیا ہے تو آپ کے پاس اب بھی وقت ہے کہ آپ اپنی موجودہ زندگی کے اوقات میں زندگی کو بھرپور انداز سے جینا سیکھ لیں۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم آسانی کے ساتھ ماضی کی غلطیوں کو "کیش بیک” کر سکتے ہیں۔ ہمارا حال ہی ہماری زندگی کا ایسا دورانیہ ہوتا ہے کہ وہ ماضی سے ہمیں سبق سیکھنے اور مستقبل کو خوبصورت بنانے کا موقعہ فراہم کرتا ہے کہ کوئی جہاں بھی ہو اور جس حال میں بھی ہو وہ اس سے فائدہ اٹھانا اور اسے بھرپور طریقے سے جینا سیکھ لے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |