سیّدزادہ سخاوت بخاری ایک مسحورکن شخصیت

سیّدزادہ سخاوت بخاری ایک مسحورکن شخصیت

افریقی زبان کا محاورہ ہے کہ جب کوئی دانا شخص دنیا سے رخصت ہوتا ہے گویا ایک کتب خانہ زمین بوس ہو جاتا ہے ۔

یہ تحریر میں اپنے والد محترم سیّدزادہ سخاوت على شاہ بخاری المحترم کی اس جہان فانی سے رحلت کے بعد ان کی یاداشت کے طور پر لکھ رہا ہوں وہ صرف میرے والد ہی نہیں بلکہ استاد اور بڑے بھائی تھے ہمارا رشتہ روایتی باپ بیٹے جیسا نہیں تھا بلکہ ہم گہرے دوست تھے اور میری نظر میں والدین کا رشتہ ایسا ہی ہونا چاہیے ، میں ان کی کمی کو ہر وقت بہت شدت سے محسوس کرتا ہوں ۔  ان کے بارے یہ تحریر لکھتے ہوئے آج مجھے کئی دن ہوگئے ہیں ارادہ تھا کہ ان کے چہلم سے پہلے تحریر تیار کرلوں اور چہلم پر پبلش کردوں لیکن مکمل نہیں ہو پا رہی تھی کیونکہ ان کی ہشت پہلو شخصیت تھی جو بےنظیر تو اس کی نظیر وہ الفاظ کہاں سے لاؤں جو میرے احساسات کی عکاسی کر سکیں ۔ چونکہ اۤپ بخاری صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے سو ہم بھی تحریر میں اسی نام سے اۤپ کو مخاطب کریں گے ، اگر میں یہ لکھوں کہ وہ اپنی زرہ ہستی میں ایک صحرا اور اپنے وجود میں ایک سمندر تھے تو یہ غلط نا ہوگا ۔ وہ بےشمار خوبیوں اور کمالات کے مظہر تھے جیسے انگنت پھولوں کی عطر کا مجموعہ ہوں یہاں مجھے خلیل الرحمن کا مصرع یاد آیا ،

 ” لوگ کتنے ہمیں اک شخص میں مل جاتے ہیں “

 تو ان کی شخصیت بارے لکھنا گویا ان کی تصویر بنانا یا مجسمہ بنانا ہو لیکن جو أصل تھا وہی اصیل تھا وہ شاہکار پھر کبھی بن نا سکے گا ۔ اکثر اوقات ہم حقیقت کو پوری طرح بیان نہیں کر پاتے لیکن اگر خواب میں دھندلا سا منظر بھی دیکھا ہو تو اسکو اپنے انداز میں بیان کر سکتے ہیں مگر وہ تو پھر اک حقیقت تھے کوئی خواب نہیں اس لئیے اس تذبذب میں ہوں کہ ان کے بارے کیا لکھوں اور جو میں کچھ لکھنا بھی چاہوں تو وہ بھی مجھ بے بساط سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ میں اس سلسلے میں موضوع سے پوری طرح انصاف کرسکوں گا ، جو کچھ بھی میرا قلم لکھے اس خصوص میں یہی کہوں گا کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ۔ 

mazar
سیّدزادہ سخاوت علی شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ و دامت برکاتہم کی آخری آرامگاہ

قارئین سے پیشگی معذرت کیساتھ قلم کو جنبش دے رہا ہوں اور اپنے والد محترم کیساتھ گزرا وقت جو اب اک خواب سا لگتا ہے جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں اور تھے بھی توکسی الف لیلا کی کہانی کے کردار تھے انہیں اپنی یاداشتوں کے زریعے آپ کے روبرو پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں تاکہ ان کے مُحبِین کیلئیے اور جو اُن سے کبھی نہ مل سکے  ہوں جسکا مجھے دنیا بھر سے کئی سو پیغامات موصول ہوے ان سے پتا چلا کہ حلقہ احباب میں کئی ایسے تھے جو ان سے کبھی مل ہی نہ سکے تھے تو ان کیلئیے ایک ایسی دستاویز  اک خیالی خاکہ مہیا کروں جس کے زریعے وہ جب چاہیں یادوں کے ان اوراق کو پلٹ کر کسی نا کسی صفحہ میں لکھی تحریر کی پگڈنڈی پر یا سوچ کی کسی راہ گزر پر ان سے ملاقات کر سکیں ۔ آئیے اس سفر کا باضابطہ طور پر ” بہ نام خدا ” آغاز کرتے ہیں ، وقتِ تحریر میں پاکستان میں ہوں اور رات کے اس پچھلے پہر کے سناٹے میں دن بھر کے ہنگاموں اور بے ہنگم شور سے دور الحمدللہ خلوت میسر ہے جس میں عبادت کیساتھ ساتھ جو اس تحریر بارے خیالات ذہن پر اترتے ہیں انہیں قلم بند کرلیتا ہوں اور لکھنے کیلئے رات کا یہ وقت ہی کیوں؟ وہ اس لئیے کہ ہمارے گھر کے قرب میں ایک ٹرین ا سٹیشن واقع ہے جہاں سے رات گئے ایک ٹرین شور مچاتی گزرتی ہے اور مجھے ہر روز اک نئی سوچ اک نیا پیغام دے جاتی ہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے داروغہ وقت منہ ڈھانپ کر میرے لئیے اس ٹرین سے کچھ سامان لاتا ہو جسے جب میں کھولتا ہوں تو اس میں سے کہکشاں کے مختلف رنگ نکلتے ہیں اور ہر رنگ میں بے شمار یادوں کی فلمیں چل پڑتی ہیں میں ننھا سا ہو کر والد محترم کی گود میں بیٹھ کر انہیں حیرت سے تکتا ہوں ، گیا وقت پھر لوٹ آتا ہے اور دل بہلنے لگتا ہے اور نا جانے کس لمحے آنکھ لگ جاتی ہے صبح ہوتی ہے تو پھر وہی یتیمی کی تلخ حقیقت آن دبوچتی ہے اور میرے پیارے ابو میرا بھائی میرا دوست میراغمگسار میرا محسن مجھے کہیں نہیں ملتا ۔

آپ کو قدرت کی طرف سے غیر معمولی ذہانت ، حافظہ اور حاضر دماغی ملی تھی ، جوہر خطابت ، خود اعتمادی ، سیاسی بصیرت و نباضی نیز نظافت و لطافت میں وہ اپنے معاصرین میں ممتاز و نمایاں تھے ۔ وہ باقاعدگی سے ہر موضوع پر مضامین لکھتے تھے اور یہ مضامین بعض اوقات بڑے نازک اور دقیق کلامی وفلسفیانہ مباحث پر ہوتے تھے ۔ چونکہ آپ نے بہت سے ادوار دیکھے تھے اس لئیے آپ کی تحریروں میں آپ بیتی بھی تھی اور جگ بیتی بھی ۔ آپ نے دو صدیوں کے قدیم وجدید گہواروں میں پروش پائی ، اگر قدیم نے ان کو سنوارا تو جدید نے انہیں نکھارا ، ان کے ذھن میں حدت ہی نہیں جدت بھی تھی وہ قدیم صالح اور جدید نافع کے سنگم اور حسین امتزاج تھے ان کے خیالات تروتازہ اور شاداب تھے افکار میں اعتدال اور وسعت تھی ساتھ ہی افکار میں مذھب ، فلسفہ اور سماجی علوم کا ایک سنگم بن گیا تھا ، فقیر طبع انسان تھے سادہ لباس میں ملبوس عاجزی میں رہتے تھے ۔

بخاری صاحب فقط ایک شخصیت نہیں ، ایک اثاثہ ، ایک ادارہ تھے ۔ ایسا اثاثہ جو صرف اپنی اولاد ، عزیز واقارب کے لیے ہی سرمایہ نہ تھا بلکہ ایک عالم کے لیے گراں قدر متاع تھا ۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں اور اس مختصر ٹکڑے میں تمام پہلوؤں کا احاطہ ممکن نہیں اور یہ واضح کرتا چلوں کہ ان کے اوصاف ایک بیٹے کے طور پر نہیں ، بلکہ ایک ایسے شخص کے طور پر لکھ رہا ہوں جس نے کم وبیش 4 دہائیاں مرحوم کی نشست وبرخاست وسفر وحضر کا مشاہدہ کیا ۔ مجھے یقین کی حد تک گمان ہے کہ قارئین میں سے جو اشخاص بخاری صاحب کو ذاتی طور پر جاتنے ہیں ، وہ میرے خیالات سے مکمل طور پر متفق ہوں گے ان شاء اللہ ۔

تحریر کی طوالت کے لیے معذرت اس گزارش کے ساتھ کرتا ہوں کہ اسے مکمل پڑھیے گا اور پڑھ کر میرے والد بخاری صاحب کے لیے دعا ضرور فرمائیے گا ۔ میں نے اس مضمون کو ان کی سات بیٹیوں کی مناسبت سے7 حصوں میں تقسیم کیا ہے جسمیں ان کی زندگی اور شخصیت کے مختلف پہلو شامل کئیے گئے ہیں اور تحریر اس تناسب سے لکھی ہے کہ اس میں ان سب کے نام بھی شامل ہیں اور یہ نام کردار کے طور پر نہیں مرکب الفاظ کی صورت میں ہیں جیسے کوئی سیکرٹ کوڈڈ خط ہو تو جو ان ناموں سے واقف ہیں صرف وہی جان پائیں گے اور جو جاننا چاہیں مجھے کمنٹس میں پوچھ لیجئیے گا ۔

پیدائش اور خانوادہ

 بخاری صاحب کی ولادت گزشتہ صدی کی 30 اگست 1948 کو ہوئی ۔ اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح حیات تھے ، اِرم بخاری انہیں کہتی تھیں کہ قائد اعظم کو تسلی ہوئی کہ آپ آگئے ہیں تو اب میں سکون سے جا سکتا ہوں ۔

date of birth
بخاری صاحب کے برادر بزرگ سیّد رفیق احمد شاہ بخاری اعلی اللہ مقامہ کے ہاتھ سے لکھی تاریخ تولد

جاے ولادت کامرہ کلاں گاؤں (ڈسٹرکٹ اٹک سابقہ کیمپبلپور) جو کہ موجودہ پاکستان ائیر فورس کے ایروناٹیکل کمپلیکس کا مرکز ہے . آپ کے ایک بڑے بھائی سیّد رفیق احمد شاہ بخاری اور ایک بہن سیّدہ گلزار بخاری تھیں (بہن کا انتقال کم عمری میں ہوگیا تھا ) آپ کے والدین مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور زمین سے جڑے ہوئے لوگ تھے ۔ آپ کے والد سیّد علی حیدر شاہ بخاری نے جنگ عظیم دوم میں رائل برٹش آرمی اور پھر قیام پاکستان کے بعد پاکستان ملٹری میں ایم ٹی ڈویژن میں فرائض انجام دئیے اور ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی اپنے خالہ زاد بھائی سیّد مُرتضٰی شاہ کے پاس مقیم ہوے جہاں ان کے بڑے بیٹے اور ان کے بھتیجے سَر سیّد منظور حُسین بخاری ( منظور انکل نیویارک میں اونرری کونسل جنرل آف کوسٹا ریکا اور نائٹ آف مالٹا رہ چکے ہیں دامت اللہ برکاتہم ) کے توسط سے اپنے ملٹری بیک گراؤنڈ کی وجہ سے سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ محکمہ سوئی گیس میں ملازمت اختیار کی اس کے علاؤہ آپ ماہر دینی علوم اور یونانی حکیم بھی تھے انتہائی خوش مزاج اور ملنسار انسان تھے آپ کی دیانت اور اصول پسندی کے سبب جہاں بھی قیام پزیر رہے سندھ سے لے کر خیبر تک لوگ آج بھی شاہ علی حیدر بابا کو یاد کرتے ہیں ۔

manzoor bukhari
سر سیّد منظور حسین بخاری

بخاری صاحب نجیب الطرفین تھے آپ کی والدہ ماجدہ سیّدہ زینت النساء ایک عالمہ تھیں عربی اردو اور فارسی پر عبور تھا اور کیوں نہ ہوتا آپ کے نانا اپنے دور کے مشہور عالم وفاضل تھے ۔ ان کا گھرانا سوات کے پیر بابا سے منسوب ہے پیر بابا کے ایک صاحب زادے سیّد جعفر شاہ سوات سے ہجرت کر کے ضلع نوشہرہ کے پہاڑی سلسلہ جو دریائے سندھ کیساتھ واقع میں آباد ہوے۔

ہمارا خاندان نقوی سادات دسویں امام علی نقی ؑکی اولاد میں سے ہے اور اسلام کی تبلیغ کی غرض سے تقریبا 800 سال قبل بخارا سے ہجرت کر کے براستہ سندھ برصغیر میں داخل ہوا اور یوں بخارا کی نسبت سے ہم نقوی سادات بخاری کہلاے جاتے ہیں یہ یاد رکھیے تمام بخاری سیّد نہیں ہوتے جیسے کہ احادیث کے مشہور مؤلف امام بخاری بنی ھاشم سے نہیں تھے لیکن چونکہ بخارا سے تھے اس لئیے بخاری ہیں اسی طرح ہم نقوی سادات ہیں اور ہمارے جو دادا حجاز سے ہجرت کرکے ثمرقند بخارا موجودہ ازبکستان میں آباد ہوئے اور بعد میں برصغیر موجودہ پاکستان میں تبلیغ اسلام کی غرض سے آن بسے ان کی پہچان کیلئیے نقوی کیساتھ یا الگ سے بخاری لکھتے ہیں ، جیسے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال علیہ رحمۃ کے نام کیساتھ اہل فارس اقبال لاہوری لکھتے ہیں ویسے ہی اکثر لوگوں کے نام کیساتھ سیالکوٹی ، گلگتی ، امروہوی  ، جالندھری اور پشوری ان کے علاقائی تعلق کو ظاہر کرنے کیلئے لکھا جاتا ہے ۔

درس و تدریس کی غرض سے ہجرت کی سنت قائم رہی اور ہماری دادی  نے اپنے بچوں کی تعلیم کی غرض سے کامرہ گاؤں سے کیمپبلپور شہر ( موجودہ اٹک ) سنہ 1954 میں منتقل ہوگئیں یہ سفر بیل گاڑیوں کے قافلوں کی صورت میں ہوتا تھا جسپر لالٹین بھی لٹکائے جاتے تھے والد محترم کہتے تھے سامان کے اوپر بیٹھ کر ہوا کے جھونکوں اور سرسوں کے کھیتوں کی بھینی بھینی خوشبو سے معطر فضاء سے مَحظوظ ہوتے یہ سفر بڑا لگزیریس محسوس ہوتا تھا اس وقت اٹک شہر کا نام کیمپبلپور تھا اور اس علاقے کو عرف عام میں مقامی لوگ چھاؤنی کہتے تھے کیونکہ یہاں فوجی چھاؤنیاں تھیں تو عرف عام میں اگر کوئی یہاں آتا تو کہتے ہم چھاؤنی جا رہے ہیں ۔

family
خانوادہ بخاری صاحب

تعلیم و تربیت

آپ نے میٹرک پشاور ( پبّی )سے کیا اور بعد میں گورنمنٹ کالج کیمپبلپور سے گریجویشن کی ، بڑے بھائی چونکہ مدرس تھے اس لئیے جہاں  جاتے اپنے ساتھ رکھتے تربیت کیلئے ۔ گھر کا ماحول انسان کی شخصیت پر بے حد اثر انداز ہوتا ہے ہماری دادی پختون تھیں تو اس طرح ہماری علاقائی زبان ہندکو کے علاؤہ بخاری صاحب کو  پشتو پر بھی عبور حاصل تھا اور مذہبی گھرانا ہونے کیوجہ سے دینی امور پر بھی خاصی دسترس حاصل تھی ۔ یہ زمانہ ترقی یافتہ نہیں تھا اس لئیے روزانہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لانا ، کنویں سے پانی بھرنا گھر بشمول محلہ داروں کا بھی اور اگر کوئی پیغام کہیں بھجوانا ہوتا تو بچوں کے زریعے ہی بھجواتے وہ بھی پیدل خواہ کتنا ہی دور جانا ہو ۔ میں نے اپنے والد کو ان کے بڑے بھائی اور والدین کی تعظیم میں ہمیشہ کھڑے دیکھا ان کے سامنے بیٹھتے نہیں تھے اور جو وہ کہتے اسے خاموشی سے مان لیتے ۔ مجھے یاد ہے جب میری دادی عُمان تشریف لائی تھیں تو والد نے ان کے پاؤں چھو کر جُھک کر ان کو سلام کیا اور اس بات کا اور اُس لمحے کا أثر مجھ پر آج تک ہے ۔ بچپن میں بخاری صاحب کو اردو انگریزی کے علاؤہ فارسی اور خوش نویسی کی تعلیم بھی دی گئی آج تک کئی لوگوں نے بخاری صاحب کے ہاتھ کے لکھے خط سنبھال کر رکھے ہوے ہیں کہتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے اخبار کی کٹنگ ہے ۔ یہاں مجھے بخاری صاحب کی خوش نویسی پر عربی زبان کا ایک مقولہ یاد آرہا ہے ” يلوح الخط فی القرطاس دھرا ، وکاتبہ رمیم فی التراب ” ترجمہ کچھ یوں ہے کہ لکھی ہوئی تحریریں ہمیشہ قائم رہتی ہیں اور ان کے لکھاری مٹی میں جا بستے ہیں ۔

handwriting
عکس تحریر بخاری صاحب

آپ کے اساتذہ میں ڈاکٹر غلام جیلانی برق ، سعداللہ کلیم ، ڈاکٹر اشرف الحسینی ، پروفیسر انور جلال ، نزر صابری ، پروفیسر زاہر حسن فاروقی اور بعد میں رئیس امروہوی نمایاں نام تھے جن کا آپ کی شخصیت پر گہرا أثر تھا آپ ایک اچھے شاعر بھی تھے اور نثرنگاری میں اپنا منفرد مقام رکھتے تھے ۔ مطالعہ کا شوق آپ کو دم آخر تک رہا اور باقاعدگی سے مختلف علوم کی ورق گردانی کیا کرتے تھے ۔

education

عملی زندگی

آپ بہت کم عمری سے عملی زندگی میں آگئے تھے کیونکہ کوئی بہن نہیں تھی تو گھر کے کام کاج خود ہی سنبھالتے تھے ۔ 1965 میں میٹرک کے بعد پشاور میں ایک دن گھوم رہے تھے کہ دیکھا کہیں قطار لگی ہوئی ہے تو یہ بھی اس قطار میں کھڑے ہوگئے آگے پہنچنے پر پتا چلا کے یہ فوج میں بھرتی کی قطار تھی خیر سے بھرتی ہو گہے اور انہیں تربیت کے بعد آرمڈ کور میں شامل کیا گیا (ٹینک بٹالین – باقی تفاصیل وقت تحریر مجھے یاد نہیں آ رہیں) کچھ عرصہ فوج میں رہ کر اسے خیرباد کہا اور کالج میں داخلہ لے لیا ۔ سن 1971 کی جنگ میں فوج میں واپس بلایا گیا لیکن پھر انہیں انتظامیہ کی جانب سے ڈسٹرکٹ کیمپبلپور (اٹک) کا فائر وارڈن مقرر کیا گیا ۔ 1972 میں انہیں پیپلز گارڈ کا کمانڈر مقرر کیا گیا اس کے بعد آپ نے کچھ عرصہ پاکستان ائیر فورس میں بھی ملازمت کی اور پھر گورنمنٹ کالج کیمپبلپور میں بطور انگریزی زبان کے مدرس کی خدمات انجام دیتے رہے اور یہ سلسلہ 1975 کے اواخر تک جاری رہا ۔

PPP gaurd
بخاری صاحب بحیثیت کمانڈر پیپلز گارڈ چوک فوارہ اٹک میں تقریر کرتے ہوئے

سیاست میں شمولیت

1967 میں جس رات لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پیپلز پارٹی وجود میں آئی اگلی صبح آپ اس کے ممبر بنے ۔ اس وقت کے ان کے دوست اور سیاست کے ساتھی عاشق کلیم مرحوم تھے ۔ پیپلز پارٹی کے کئی مرتبہ وزیر رہنے والے مرحوم حاکمین خان کو پارٹی میں انہوں نے متعارف کروایا اور تقریر کرنا سکھائی ۔

PPP member
باقاعدہ رکنیت 1967 میں ہوئی تھی پارٹی جب منظم ہوئی تو باقاعدہ قرطاسِ رسید 1969 میں مہیا کیا گیا

لیکن 1971 کے الیکشن کے بعد آپ کے ذولفقار علی بھٹو صاحب کیساتھ نظریاتی اختلاف رہا کیونکہ انہوں نے جن مقاصد کے لیے الیکشن لڑا اور جو ان کا منشور تھا حکومت میں آنے کے بعد اس کے برعکس سارے معاملات رہے لیکن والد محترم کیونکہ شروع سے اصول پسند انسان تھے اس لئیے پارٹی سے باقاعدہ استعفی دے دیا ۔ اس کے بعد آپ نے مولانا شاہ احمد نورانی صاحب کے کہنے پر ان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات اور کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ۔

noorani group
کیمپبلپور کے ایک اہم اجلاس کی تیاریوں کے دوران لی گئی تصویر جسمیں بادشاہ گُل صاحب ( عبدالظاہر رضوی مرحوم ) بھی موجود ہیں

آپ کی سیاسی وابستگیاں اور صحبت ذوالفقار علی بھٹو ، علامہ شاہ احمد نورانی ، مفتی محمود (والد مولانا فضل الرحمان) ، خان عبد الولی خان ، سردار محمد عبد القیوم خان آف کشمیر ، حیات محمد شیرپاؤ اور غلام مصطفی کھر کیساتھ رہیں ۔

politics

بیرون ملک روانگی 

ہمارا علاقہ چونکہ اتنا ترقی یافتہ نہیں تھا اس لئیے وہاں اس زمانے میں وسائل کی کمی تھی لوگ ملازمت کیلئے یا تو فوج میں بھرتی ہوتے یا باہر جاتے ( کراچی کو بھی اس زمانے میں پردیس تصور کیا جاتا تھا ) پاسپورٹ آپ نے 1970 سے کچھ پہلے یا 1971 کی جنگ سے پہلے اپلائی کر دیا تھا جس کا اجراء تو ہوا لیکن حکومت وقت کیطرف سے پابندی تھی اور سب کو پاسپورٹ نہیں دیتے تھے خاص طور پر اگر آپ کا سیاسی یا فوجی بیک گراؤنڈ ہو ۔ بھٹو کی حکومت آنے کے بعد اس قانون میں نرمی ہوئی اور افرادی قوت مختلف ممالک کیساتھ سمجھوتے کرنے کیبعد بھیجنا شروع کی گئی تو کئی لوگوں کے رکے ہوئے پاسپورٹ ان کو ملے لیکن والد محترم کو 1973 میں پاسپورٹ ان کے ہاتھ میں دیا گیا جو اس رواں سال 50 سال کا ہوگیا ہے اور چونکہ یہ پرانا اجراء ہوا تھا اس لئیے اس پر اردو اور بنگلہ دو زبانوں میں تحریر ہے جو کہ اب ایک نادر دستاویز ہے اس کے علاؤہ جب پاسپورٹ کا اجراء ہوا تو لوگ کیونکہ ان کو اس زمانے میں بھی ان کی سیاست اور فلاحی کاموں کیوجہ سے جانتے تھے تو ان کے پاسپورٹ میں جو کہ اس زمانے میں پیشہ لکھنا لازم تھا ” سوشل ورکر ‘ لکھا گیا ۔

abroad
سلطنت عُمان آمد کے بعد مسقط شہر میں مطرح کورنش کی ایک یادگار تصویر

اب پاسپورٹ تو بنوا لیا تھا لیکن جاہیں کہاں؟ جہاں جانا تھا وہ مواقع تو چلے گئے اور آپ بھی پیپلز گارڈ پھر ائیر فورس اور پھر کیمپبلپور کالج میں مدرس ٹھہرے آپ کیمپبلپور کالج کی لائبریری میں مجلس نوادرات علمیہ کے رکن بھی رہے اس وقت لائبریرین غلام محمد صاحب تھے اور بخاری صاحب بتایا کرتے تھے کہ سنہ 1975 کے آس پاس کامرہ گاؤں یا اس کے قرب سے ایک بدھ مت کے زمانے کا پتھر ملا تھا جو اسوقت ٹیکسلا میوزیم میں موجود ہے اس پر پھر کبھی تزکرہ کروں گا ۔ یاد آیا اس دوران آپ نے ایک بک شاپ بنائی تھی ” سیّداں نی ہٹی ” میں نے اس کی باقیات اپنے شہر میں دیکھی ہیں ۔ 1976 میں ان کا ویزا آیا اور وہ بیرون مُلک روانہ ہو گئے یہ مُلک تھا سلطنت عُمان جو کہ جنوب مشرقی ایشیا کا ایک عرب مُلک ہے اس کی سرحدیں شمال مغرب میں عرب امارات ، مغرب میں سعودیہ عرب اور جنوب مغرب میں یمن سے ملتی ہیں یہاں بادشاہت کا نظام ہے اور اس وقت نئے بادشاہ سلطان قابوس ؒ  کو آئے ابھی چند سال ہی ہوئے تھے تو ملک ترقی کیطرف گامزن تھا آبادی بہت کم تھی انفراسٹرکچر بن رہا تھا سکول نہیں تھے سوائے گورنمٹ کے سکول ‘ مدرسہ السعیدیہ ‘ کے تو انہیں اس وقت بطور مدرس مسقط شہر کے ایک شیخ نے اپنے گھر ملازمت دی ۔

اک نئی دنیا بسانا

ہم کچھ عرصہ اگر کہیں قیام کریں تو ہم اس جگہ سے مانوس ہو جاتے ہیں وہاں کے راستے ، گلیاں ، محلے بھی ہمیں پہچانتے ہیں سلطنت عُمان میں تو والد محترم نے تقریبا نصف صدی قیام کیا تین نسلیں جوان ہو جاتی ہیں جن کیساتھ ان کا وقت گزرا آج ان کے پوتے بھی انہیں جانتے ہیں کہ ہمارے دادا کے ساتھی تھے ۔ بخاری صاحب جب نئے نئے عُمان تشریف لائے تو ایک دن انکو دعوت پر مدعو کیا گیا یہ ساحل سمندر کیساتھ ملحقہ ایک گاؤں کہہ لیں یا اس زمانے کی بستی تھی جہاں ان کو مدعو کرنے والے نے اپنے اہل خانہ سے ملوایا اور پھر ان کے کسی بزرگ نے کہا کہ آپ اتنے خوبصورت ہیں اور آپ کا نام اتنا مشکل کیوں ” انت جميل مثل يوسف و عيون نجلاء ” آنکھیں بڑی اور آپ یوسف کیطرح خوبصورت ہیں ” پھر انہوں نے کہا کہ ہم آج سے آپ کو یوسف بلاہیں گے تب سے آپ کا نام جتنے بھی ہمارے پرانے جاننے والے ہیں وہ اور ان کے اہل و عیال سب یوسف کہ کر بلاتے ہیں ۔ 

new world
سلطنت عُمان میں قیام کے دوران دو مختلف ادوار میں لی گئی تصویریں

ایک بھرے ہوئے گھر اور ترقی یافتہ ملک کو بوجوہ چھوڑ کر ایک نئی جگہ جانا جہاں سے آنا جانا بھی آسان نا ہو اور وسائل بھی اپنے ملک جیسے نہ ہوں وہاں رکنا اپنوں سے دوری ، تنہائی اور موسم کی صعوبتیں برداشت کرنا اچھے سے اچھے گاما پہلوان کو ایک بار سوچنے پر مجبور کردیتا ہے لیکن والد محترم کی تربیت کا اثر تھا اور کچھ ان کی شخصیت ایسی تھی کے وہ جو ارادہ کر لیتے تھے پھر پیچھے نہیں ہٹتے تھے ان کے ارادے فولادی تھے اور وہ بہت مضبوط اعصاب کے مالک تھے نا درد ظاہر کرتے نا غم دکھاتے ہر وقت حوصلہ افزائی کی باتیں کرتے مایوسی کا لفظ تو جیسے انہوں نے کبھی سنا ہی نہ تھا ہر مسئلے کا حل ان کے پاس ہوتا تھا اور ان سے بات کر کے مسئلہ پھر کبھی مسئلہ رہتا ہی نہ تھا اک عجیب اطمینان تھا ان کی شخصیت میں ۔ ستر کی دھائی میں ہی شادی ہوئی اور والدہ کو بھی عُمان لے گئے وہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے کسی اور موقع پر اس کا ذکر کروں گا ۔ اس طرح انہوں نے ایک چھوٹی سی نئی دنیا بسائی ۔ بخاری صاحب ماشاءاللہ کثیر الاولاد تھے اور انہوں نے ہمیں ایک بہترین زندگی دی اپنی تربیت میں رکھا عملاً چیزیں کر کے دکھاتے تھے حقوق العباد اور فلاحی کاموں میں ہر وقت مصروف رہتے اس کیساتھ گھر اور دوستوں کو بھی بھرپور وقت دیتے ۔ شکار کے شوقین تھے ہر ہفتے یا فراغت کے مطابق مچھلی کا شکار کرتے ، شاعری بھی کرتے تھے اور مسقط شہر میں 70 کے اواخر سے مجلس شعر و ادب اور مجلس مسالمہ کے نام سے پروگرامز کی بنیاد رکھی اور اپنی بساط کے مطابق پروگرام ضرور کرواتے تھے ، مقامی شعراء کا ایک حلقہ بنا رکھا تھا ،  ان کے کچھ مفردات یہاں آپ قارئین کی نظر کرتا ہوں ،

ہم نہیں پھول جو مرجھا کے بکھر جائیں گے،

ہم تو کانٹے ہیں تیرے دل میں اتر جاہیں گے

بدگماں کس لئیے ہوتے ہو رفیقو مجھ سے،

میں تو دشمن کو بھی ہر وقت دعا دیتا ہوں

یوں تو بنیاد کا پتھر ہوں چھپا رہتا ہوں،

بوجھ میں نے ہی اٹھا رکھا ہے دیواروں کا

آپ باقاعدگی سے اخبار جنگ کراچی میں کالم لکھتے ، کتابوں کا ایک انبار لگا رہتا تھا ہمارے گھر ، خط و کتابت کے ذریعے سب سے رابطے میں رہتے جہاں کسی کو پڑھنے کی دشواری ہو تو کیسٹس رکارڈ کرواکر بھیجتے تاکہ رابطہ قایم رہے میں چونکہ ہر وقت ان کیساتھ رہتا تھا تو ہر معاملے کو نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا وہ مشاعرے کی نظامت ہو یا کسی بیمار کی عیادت یا قیدی سے جیل میں ملاقات یا کسی کی آخری رسومات ہر معاملے میں دفتر کے بعد ان کیساتھ رہتا اور یہ میری تربیت ہو رہی تھی جو آج میں ان کے نقش قدم پر چلتا ہوا فلاحی کاموں میں حصہ لیتا ہوں ۔ مسقط میں پاکستان کمیونٹی کا سکول بنا تو اس کیلئے خواتین کا مینا بازار سجایا گیا جہاں سے چندہ جمع ہوا پھر سب نے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالا بخاری صاحب نے اپنی کمپنی سے مزدور اور گاڑیاں دیں اس کے بعد کمیونٹی کے مساہل جو ہر زمانے میں درپیش ہوتے ہیں کیلئے اپنے ہم خیال دوستوں کیساتھ کمیٹی بنائی والدین کے مسائل کیلیے پیرنٹس کاؤنسل بنی ، سوشل کلب کے بانیوں میں سے تھے اور 4 مرتبہ بنا اپوزیشن عہدیدار رے 2014 تک ۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی فلاحی کاموں میں وقف کی یہاں میں ذکر کرنا چاہوں گا کہ یہ اس ٹیم کا حصہ تھے جنہوں نے بھاگ دوڑ کر کے عُمان سے پاکستان ڈیڈ باڈی بھجوانے کی فیس معاف کروائی اور آج پی آئی اے کا جہاز ڈیڈ باڈی کے چارجز نہیں لیتا ورنہ لوگ اپنے مرحومین کو بھجوانے خاص طور پر مزدور طبقہ اخراجات افورڈ نہیں کر پاتا تھا ۔ یہاں میں یہ بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں کے ڈیڈ باڈی کے ہی کیس میں ایک حکومتی عہدیدار کیساتھ ان کی جھڑپ ہوئی اور انہوں نے بخاری صاحب کو اپنی اتھارٹی کا استعمال کرتے ہوے ملک بدر / ڈیپورٹیشن کا نوٹس ایشو کروادیا لیکن اللہ نے عزت بخشی اور بجاے والد محترم کے اس افسر کو جانا پڑا ، والد محترم چاہتے تو خاموش رہتے کے کون ان سے ماتھا ٹکراے لیکن ان کے ایمان کی مضبوطی  اور ان کا ضمیر جس بےمثال خمیر سے گوندھا ہوا تھا ڈر تو ان کی جبلت میں کہیں تھا ہی نہیں کیونکہ ان کی تربیت حُسینیت کی درسگاہ میں ہوئی تھی اور وہ ہر معاملے میں یہی کہتے تھے کہ میں نے اپنے رب کو جواب دینا ہے کبھی خدا کے علاؤہ کسی سے ڈرنا نہیں ۔ ہر ایک سے میل جول رکھتے خواہ کسی بھی رنگ نسل اور مذہب سے ہو اسی لئیے ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا ۔ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری اور اسے ایک مقصد دیا جس پر ان کے ہم تمام بچے عمل پیرا ہیں اللہ ہمیں اسمیں استقامت عطاء کرے آمین ۔ مجھے ان کے جنازے میں یوں محسوس ہوا جیسے کہ وہ پچاس سال سے پردیس نہیں بلکے یہیں پاکستان میں رہتے تھے باہر رہتے ہوے بھی وہ ہر ایک سے روز مرہ کیطرح رابطے میں رہتے تھے ۔ شاید یہ ان کی لوگوں کیلئے آسانیاں مہیا کرنے کا کوئی عمل تھا جو قبول ہوا اور ان کے اپنے معاملات میں اللہ نے آسانیاں پیدا کردیں وہ اپنے آخری لمحات میں اپنے وطن اپنے گھر میں تھے خدانخواستہ اگر یہ عُمان میں رحلت فرماتے تو ہمیں وہاں سے انہیں لانا پڑتا یا شاید نا لاپاتے اور اس میں ایک سے زیادہ دن بھی لگ جاتے جبکے ان کی وصال کی خبر ملی تو مجھے بتایا گیا کہ عُمان ائیر لائن نے ہمارے لئیے فلائٹ تبدیل کی یوں ہم 18 لوگوں کو سیٹیں ملیں اور جن کے پاس پاکستان کے ویزے نہیں تھے ہمیں گھر بیٹھے ایمبیسی کے عملے نے کچھ ہی دیر میں ویزے فراہم کئیے کیا یہ کسی معجزے سے کم ہے کہ ہم بروقت پاکستان پہنچ بھی گہے کیونکہ انہوں نے یہاں ایک نئی دنیا جو بسا رکھی تھی اور جو شخص دوسروں کیلئے آسانیاں فراہم کرے راستہ دے خواہ کتنا ہی اختلاف کیوں نا ہو ذاتی معاملہ ہوتا تو دشمن کی بھی مدد کرتے یہ اخلاقیات کا کتنا بڑا سبق ہے اللہ بھی ایسے بندوں کیلئے آسانیاں پیدا کرتا ہے ۔

میراث اور قومی عجائب گھر عُمان

میراث کے لفظی معنی وراثت کے ہیں جو اکثر ہم سنتے آئے ہیں کے مرحوم کی میراث ان کے ورثاء میں تقسیم کردی گئی وغیرہ وغیرہ تو اگر ہم اس زاویے سے بات کریں تو بخاری صاحب کے نام پر نا تو کوئی گھر تھا نا کوئی جائیداد اور وہ یوں ہاتھ جھاڑ کر اس جہان فانی سے رحلت فرما گئے اور اس کا احساس مجھے ان کی رحلت کے بعد ہوا جب ایک وکیل صاحب نے آن کر کان میں کہا کے مجھ سے رابطہ کرئیے گا اب آپ بہن بھائیوں کا جائیداد اور مال و دولت پر جھگڑا ہوگا میں یہ سن کر زیر لب مسکرا دیا اور سوچنے لگا کے کتنا آسان سا حساب کتاب رکھا انہون نے کہ کوئی سوال بنتا ہی نہیں وہ کبھی اس دنیاوی بکھیڑے میں پڑے ہی نہیں اگر کچھ چھوڑا تو اپنی میراث میں سچائی ، خودداری ، حق کو حق کہنا ، چوری نا کرنا ہنستے ہوئے کہتے تھے کہ اس دنیا میں جتنا بے ایمانی سے مال بنا لو ہسپتال کا ایک چکر لگے گا اور سب نکل جاے گا انہوں نے اگر کچھ چھوڑا تو اپنے اوصاف اپنی صاف گوئی اپنے فلاحی کاموں کی میراث چھوڑی اور یہ سب کرنے کیلیئے کوئی ادارہ یا بہت سارے پیسے درکار نہیں ہوتے بلکہ آہستہ رفتار سے جیسے ہو سکے جتنا ہو سکے لوگوں کیلیے آسانیاں فراہم کریں پیسے نا دے سکیں تو راستہ دکھا دیں مشورہ تو مفت ہوتا ہے نا ۔  مجھے اس بات پر فخر ہے کہ ان پر آج تک کوئی مالی بدعنوانی یا غلط بیانی کا بہتان نہیں لگا اور میں بھی یہی کوشش کرتا ہوں کہ اسی روش پر قائم رہوں تاکہ بخاری صاحب کی برسوں کی محنت رائیگاں نا جاے ۔ مجھے کوئی مسئلہ ہوتا اور ان سے بات نا ہوپاتی تو ہدایت تھی کہ وقت کے امام سے استغاثہ کر لیا کرو اور آج ان کی رحلت کے بعد جب کچھ معاملات میں مشورہ درکار ہو تو استغاثہ کر لیتا ہوں اور جیسے اندھیری رات میں چاندنی سے راہ خود بخود سامنے آجاتی ہے اس طرح وہ مجھے معاملات کا حل لا دیتے ہیں اس پر فیض کا اک مصرع یاد آگیا

‘ ایک اک کر کے ہوے جاتے ہیں تارے روشن ‘

روحانیت اور اس بارے بخاری صاحب کے مشاہدات پر الگ سے ایک مضمون مرتب کروں گا جو ان کی حیات میں میرے مشاہدات رہے اور اب ان کی رحلت کے بعد جو مجھ پر عیاں ہورے ہیں ۔ خلوت میں نماز شب اور دعائے حزب البحر ان کے دائمی ورود و وظائف میں سے تھی دعا کا آغاز ہمیشہ ان الفاظ سے کرتے یا اللہ اپنے سوا کسی کا محتاج نا کرنا اور وصال بھی ایسے ہی ہوا کے نہ کسی کی محتاجی نا خدمت کا موقع بلکہ جب جہانگیر بخاری کو ڈاکٹر کے پاس لیجانے کا کہا اور گاڑی کے انتظار میں تھے تو صائمہ بخاری ان کا بی پی چیک کرنے کیلئے مشین لے کر دوڑتے ہوے آہیں تو یہ دیکھ کر اس تکلیف میں بھی مسکرا دئیے کہ تسلی رکھو اور جانے سے قبل آخری الفاظ یہ کہے کہ ” زندگی ہوئی تو بچ جاؤں گا ” جس نے سب پر سکتہ طاری کر دیا کے انہوں نے ایسا کیوں کہا شاید یا بلکہ میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ وہ اپنی رحلت سے با خبر تھے ۔ مجھے اس بات پر خوشی محسوس ہوتی ہے کہ میں نے ان کی حیات میں ان کا ایک پرانا کارڈ عُمان کے مقامی اداروں کو حدیہ کیا جس سے آنے والی نسلوں کو پتا چل سکے گا کے بیرون ممالک سے آنے والوں کا محکمہ نصف صدی پہلے کیسے کارڈ ایشو کرتا تھا اس میں کتنی ترقی ہوئی اور کن مراحل کو طے کر کے آج یہ کارڈ ایک سمارٹ کارڈ کی شکل میں موجود ہے اور یہ ہماری ساری پاکستانی کمیونٹی کیلئے ایک اثاثہ ہے اور ہمارے ملک کا نام سربلند ہوتا ہے جب ایک محب وطن پاکستانی کا کارڈ بیرون ملک ان کے عجائب گھر میں رکھا جائے اس سلسلے میں قومی اور دیگر اخبارات کے علاؤہ ان کے انٹرویو بھی ہوے جن کا لنک میں اس مضمون کے نیچے مہیا کر دوں گا ۔

card
مسقط کے عجائب گھر میں رکھا بخاری صاحب کے کارڈ کا عکس

اختتامیہ

امید ہے آپ کو اس تحریر کو پڑھ کر  بخاری صاحب کیساتھ بتاے ہوے لمحات یاد آئے ہوں گا یا ان سے اگر  آج آپ کو پہلا تعارف ہو ا ہو تو آپ کے وقت کا شکریہ ، میں تو خود بھی ابھی تک ان کی شخصیت کے سحر سے مسحور ہوں اور خود کو ان کا جانشیں کہتے ہوے خوشی اور طمانیت محسوس ہوتی ہے خود کیلیے اقبال ؒ کا یہ مصرع یہاں موزوں ہے

” وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا “

SAS Bun
کاتب شاندار بخاری اپنے والد محترم سیّدزادہ سخاوت بخاری رحمتہ اللہ علیہ کیساتھ ان کی وفات سے تقریبا ایک ماہ قبل مسقط کے ایک شاہی محل اور بادشاہ سلطان قابوس رحمۃ اللہ علیہ کی رہائش گاہ کے اعزازی دورے کے دوران لی گئی تصویر

بخاری صاحب کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ان کی حقوق العباد کو ترجیح انسان دوستی اور سماجی وابستگی تھی ۔ وہ عالم بالا کے مکیں ہو کے عالم دنیا کے لیے نایاب ہوگئے لیکن ان کے افکار اور کردار ہمیشہ تابندہ رہیں گے ۔ وہ ہر ایک کے دوست ، ہر ایک کے غمگسار تھے سماجی خدمت کے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور میں یہ ہمیشہ کہتا ہوں کہ میرے والد بخاری صاحب نے اپنی زندگی میں اتنے پیسے نہیں جوڑے جتنے بندے جوڑے ہیں شاید یہی وجہ تھی کہ ان کا آخری سفر بہت ہی شاندار رہا ۔ آپ رواں سال 4 جنوری بعد از نماز عصر اس دار فانی سے رحلت فرما گئے اور ان کی وصیت کے مطابق انہیں اپنے والد اور والدہ کے پہلو میں جگہ ملی ۔

“پھر اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی “

مدیر اورسیز | تحریریں

مسقط، سلطنت عمان

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

احساسِ محبت

ہفتہ فروری 18 , 2023
محبت ایک ایسا رشتہ ہوتا ہے جس سے انسان کبھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ پیار یا محبت یوں تو شرطوں پر نہیں ہوتی
احساسِ محبت

مزید دلچسپ تحریریں