بھلا ماں کا بھی کوئی دن ہوتا ہے؟
تحریر محمد ذیشان بٹ
اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے
دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے
بھلا ماں کا بھی کوئی دن ہوتا ہے نہیں ، ماں کے بغیر تو کوئی دن ہوتا ہی نہیں۔
یہ جملہ صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک ایسی سچائی ہے جو ہر اس انسان کے دل کی آواز ہے جس نے ماں کی گود میں پرورش پائی، جو ماں کے لمس سے شفا پا چکا، اور جو ماں کی دعا سے منزل پا چکا ہو۔
اب سوال یہ ہے کہ مدرز ڈے یا "ماں کا دن” کیوں منایا جاتا ہے؟ اس کا آغاز مغرب سے ہوا، جہاں خاندانی نظام تیزی سے زوال پذیر ہوا۔ جب اولاد ماں باپ کو بوجھ سمجھنے لگی، جب نرسنگ ہومز ماں باپ کے لیے بننے لگے، تب وہاں احساس ہوا کہ ایک دن ماں کے نام مخصوص کیا جائے تاکہ دنیا کو یہ یاد دلایا جا سکے کہ ماں کا رتبہ کتنا بلند ہے۔
لیکن اسلام نے تو صدیوں پہلے ہی ماں کو وہ مقام دے دیا تھا جو دنیا آج بھی پوری طرح نہ دے سکی۔
زمانہ جاہلیت میں بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا، ماں کو کمزور، بے کار اور بوجھ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے تو انہوں نے ماں کو عزت دی، بیٹی کو رحمت کہا، اور فرمایا:
"تمہاری جنت تمہاری ماں کے قدموں تلے ہے۔”
یہ ایک قول نہیں، ایک انقلابی نظریہ تھا۔ صحابہ کرام کی زندگیوں میں اس تعلیم کا عکس صاف نظر آتا ہے۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ حضرت ہاجرہ کی قربانیوں کو قرآن نے محفوظ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"اگر کوئی شخص اپنی ماں کو کندھوں پر بٹھا کر حج کروا دے، تب بھی وہ ماں کے ایک درد کا حق ادا نہیں کر سکتا۔”
ایک اور عظیم مثال حضرت ابوہريرہ رضی اللہ عنہ کی ہے، جو اپنی ماں کی خدمت کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ وہ جب بھی گھر کے دروازے پر پہنچتے تو بلند آواز سے کہتے: "السلام علیکِ یا اُمّاہ، رحمکِ اللہ کما رَبَّيتِني صغیرا” یعنی اے ماں! تم پر سلام ہو، اللہ تم پر رحم فرمائے جیسے تم نے مجھے بچپن میں پالا۔ اور ان کی والدہ جواب دیتیں: "وَعلیک السلام یا بُنَي، رحمک اللہ کما بَرَرتَني کبیرا” یعنی اے بیٹے! تم پر بھی سلام، اللہ تم پر رحم کرے جیسے تم نے بڑھاپے میں میری خدمت کی۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ کامیاب انسان کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، اور عمومی تاثر یہ ہوتا ہے کہ وہ عورت بیوی ہو گی۔ لیکن اگر حقیقت کی گہرائی میں جھانکا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اصل سہارا اس کی ماں ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ ماں وہ ہستی ہے جو اپنے بچے کو اُس وقت سے جانتی ہے جب وہ اپنی بات بھی نہیں کہہ سکتا، جب وہ صرف رونے اور مسکرانے سے اپنی کیفیات کا اظہار کرتا ہے، اور ماں اُس وقت بھی اُس کی ہر ضرورت، ہر خواہش کو سمجھ لیتی ہے۔
راقم کی زندگی بھی اسی سچائی کی ایک مثال ہے۔ آج اگر میں اپنے مقام پر ہوں، اگر میری پہچان ہے، اگر میرے ہزاروں شاگرد ہیں، تو اس کی بنیادی وجہ میری والدہ کی قربانیاں اور دعائیں ہیں۔ ایک ایسا خاندان جہاں تعلیم کا تصور بھی نہ تھا، جہاں کسی ایک فرد نے بھی سکول کا منہ نہ دیکھا ہو، وہاں میری ماں نے خود کبھی سکول نہ جانے کے باوجود مجھے تعلیم کی ابتدائی روشنی عطا کی۔ مجھے حروفِ تہجی سکھائی، نماز پڑھنا سکھایا، اور سبق یاد کرایا۔ ایک اَن پڑھ ماں کا اپنے بچے کو پڑھانا معجزے سے کم نہیں۔
میری والدہ کے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں:
"بیٹا، علم حاصل کرو، یہی تمہارا اصل زیور ہے۔”
اور میں نے دیکھا کہ ایک ماں جو خود علم کی روشنی سے محروم رہی، وہ اپنے بیٹے کو علم کی وہ شمع دے گئی جو اب کئی گھروں میں چراغ بن چکی ہے۔
آج ہم جدید دور میں رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا، موبائل فون، مصروفیات، دوستیوں اور دنیا داری نے ہمیں ماں سے دور کر دیا ہے۔ ماں کو وقت دینا ہمیں بوجھ لگتا ہے۔ جب وہ ہمیں بلاتی ہے تو ہمیں الجھن ہوتی ہے۔ جبکہ یہی ماں جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو ساری رات جاگتی ہے، جب ہم غمگین ہوتے ہیں تو ہماری خاموشی سے بھی ہماری کیفیت سمجھ جاتی ہے۔
اگر آج کی اولاد ماں کے احترام کی تلاش میں ہے تو اسے کسی بڑی کتاب کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک لمحہ رک کر ماں کے چہرے کو دیکھیں۔ ان کی جھریوں میں چھپی قربانیوں کو محسوس کریں۔ ان کی آنکھوں میں جھلکتی دعا کو سمجھیں۔
ماں کا دل وہ آئینہ ہے جس میں اولاد کی خوشی اس کی اپنی خوشی بن جاتی ہے۔ ماں کی گود وہ پہلا مدرسہ ہے جہاں انسان انسان بنتا ہے۔ ماں کا لمس وہ دوا ہے جس کی کوئی قیمت نہیں۔ ماں کا پیار وہ دولت ہے جو لاکھوں کے بینک بیلنس سے قیمتی ہے۔
ہمیں ماں کے لیے کوئی ایک دن مخصوص کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہر دن، ہر لمحہ، ماں کے نام ہونا چاہیے۔
ماں کے قدم چومنا، ماں کی بات کو دھیان سے سننا، ماں کو وقت دینا، ان کے لیے دعا کرنا، اور سب سے بڑھ کر ان کے جیتے جی ان سے محبت کا اظہار کرنا، یہی اصل "ماں کا دن” ہے۔
آخر میں بس اتنا ہی کہوں گا:
جو شخص اپنی ماں سے سچی محبت کرتا ہے، اس کی زندگی میں برکت ہی برکت ہوتی ہے۔
ماں ناراض ہو جائے تو رزق سے برکت اٹھ جاتی ہے۔
ماں دعا دے دے تو راہیں خود بخود بننے لگتی ہیں۔
آج کی نوجوان نسل کو چاہیے کہ ماں باپ کی خدمت کو فرض جانے۔ ان کی قدر کرے، ان کے ساتھ وقت گزارے۔ انگریزوں کی طرح صرف مدرز ڈے منا کر جان نہ چھڑائے، بلکہ عملی طور پر ماں باپ کی خدمت کرے۔ کیونکہ جو آج بوئے گا، وہی کل کاٹے گا۔ اور یہ خدمت محض سوشل میڈیا پر پوسٹس لگا دینے سے نہیں ہوتی۔ ماں باپ نے آپ کو پیدا کیا ہے، ڈاؤن لوڈ نہیں کیا۔ اس لیے ان کے ساتھ وقت گزاریں، ان کی بات کو غور سے سنیں، ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوں۔ تجربہ شرط ہے، اور تجربہ تبھی حاصل ہو گا جب آپ حقیقی خدمت کریں گے۔
Title Image by Sabine van Erp from Pixabay

محمد ذیشان بٹ جو کہ ایک ماہر تعلیم ، کالم نگار اور موٹیویشنل سپیکر ہیں ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے ۔ تدریسی اور انتظامی زمہ داریاں ڈویژنل پبلک اسکول اور کالج میں ادا کرتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں نجی ٹی وی چینل کے پروگراموں میں بھی شامل ہوتے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |