بچھڑنا ہے تو خوشی سے بچھڑو
تحریر: احمد قریشی
26 اپریل2025ء ہفتے کی صبح ہمارے تعلیمی ادارے(گورنمنٹ بوائز انٹر کالج ،ٹھیریاں، مظفرآباد )میں ایک شان دار اور پروقار الوداعی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب کا مقصد دوازدہم کو کالج میں اپنا عرصہ بہترین انداز میں گزارنے پر یہاں سے الوداع کرنا تھا۔ کالج کے ہونہار طلبہ و طالبات کے اعزاز میں ان کی تعلیمی محنت و کاوشوں کو سراہنا اور ان کے آئندہ کی زندگی کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرنا تھا۔ یہ تقریب تعلیمی سفر کے اختتام کی غم گین اور خوشی کے ملی جلے جذبات کی آئینہ دار تھی۔ اس موقعے پر ہر طالب علم اور ہر استاذ کے دل میں یادیں اور امیدیں در آئی تھیں۔
تقریب کا آغاز بہت ہی روح پرور انداز میں ہوا، جب دواز دہم کے طالب علم محمد حذیفہ نے خوب صورت الحان کے ساتھ تلاوتِ کلامِ پاک کی۔ ان کی آواز نے محفل کو معطر کر دیا اور ایک روحانی فضا پیدا کی۔ اللہ کی بے پایاں رحمتوں اور برکات کا ذکر کرنے والی آیاتِ قرآنی نے تقریب میں برکتوں کا رنگ بھر دیا۔ اس کے بعد احمد شریف نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نعت پیش کی۔ ان کی دل نشین آواز اور آخری نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عقیدت کے پھول نچھاور کرنے والے کلمات نے سامعین کے دلوں کو جھنجھوڑ دیا۔ ہر شخص خود کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں ڈوبتا محسوس کر رہا تھا۔
تقریب میں طلبہ و طالبات نے اپنی مختلف صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ مختلف تقاریر، مزاحیہ خاکے اور مزاح کے مختلف آئٹم پیش کیے گئے۔ طلبہ اور طالبات نے پروفیسر صاحبان سے الگ الگ سوال کیے۔ کچھ طلبہ نے ڈراما کیا اور مکالمے بھی کیے۔ ہر کسی نے چہرے پر مسکراہٹ لانے کی کوشش کیجس نے محفل کو اور بھی خوش گوار بنا دیا۔
ان سرگرمیوں نے حاضرین کو نہ صرف محظوظ کیا بلکہ ان میں محنت کا جذبہ پیدا کرنے کے ساتھ ان میں اپنے تعلیمی سفر کے حوالے سے یادیں تازہ کر دیں۔طلبہ کی پرجوش آوازوں نے محفل کو گرمایا اور ایک یادگار موقع بنا دیا۔
وقت کی قلت کو سامنے رکھتے ہوئے تقریب میں صرف تین اساتذہ نے خیالات کا اظہار کیا۔ اسٹیج سیکرٹری حفصہ ایمان نے سب سے پہلے استاد محترم پروفیسر سید طارق علی بخاری صاحب کو دعوت دی۔ جنھوں نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ لمحہ آپ کے لیے بہت یاد گار ہے۔ آپ نے یہاں جو دو سال مکمل کیے آج آپ یہاں سے جدا ہو رہے ہیں۔ کچھ بچے خوش اور کچھ غم زدہ ہوں گے لیکن یہ زندگی کا اصول ہے کہ سب نے مل کر بچھڑنا ہوتا ہے۔ طارق بخاری صاحب نے طلبہ کے لیے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اس کے بعد اردو کے ہر دلعزیز استاد فرہاد احمد فگار صاحب کو دعوت دی گئی۔ فرہاد سر نے حسب عادت ایک شعر سے اپنی بات کا آغاز کیا۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ جو وقت گزر گیا وہ گزر گیا۔ اب آپ اپنی تمام تر توجہ امتحان پر مرکوز کریں اور دلجمعی سے امتحان کی تیاری کریں ۔ فگار صاحب نے بتایا کہ محنت کرنے والے کبھی ناکام نہیں ہوتے کوئی بھی نالائق نہیں ہوتا آپ طلبہ کا مسئلہ صرف غفلت ہے۔ انھوں نے طلبہ کو ایک مشہور آدمی کا محنت کے حوالے سے واقعہ بھی سنایا جو بہت سست تھا لیکن ایک دن غیرت کھانے کے بعد وہ گولڈ میڈلسٹ ہو گیا۔ اس کے بعد سربراہ ادارہ پروفیسر راجا تنویر احمد خان صاحب کو طلبہ سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ پرنسپل صاحب نے طلبہ سے وابستہ اپنی امیدوں کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں مکمل کوشش کر رہا ہوں کہ یہ ادارہ ڈگری کالج بن جائے۔ تنویر صاحب نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ مکمل محنت سے اپنا امتحان دیں اور کامیابی حاصل کریں۔ انھوں نے طلبہ کو نصیحت کی کہ آپ نے اپنا تعلیمی سفر ادھورا نہیں چھوڑنا بلکہ اسے تکمیل کو پہنچانا ہے۔
انھوں نے کہا کہ: "علم کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا، اور زندگی کے ہر مرحلے پر سیکھنے کی جستجو برقرار رکھنی چاہیے۔” انھوں نے طلبہ کو یہ نصیحت کی کہ وہ مستقبل میں آنے والے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے اپنی خود اعتمادی کو بڑھائیں اور اپنے علم کو عمل میں ڈھالیں۔ ان کا کہنا تھا کہ علم انسان کو باہمت بناتا ہے اور یہ دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ پروفیسر صاحب نے طلبہ کو محنت اور عزم کی طاقت کو سمجھانے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنی زندگی میں درپیش مسائل کا حل نکال سکیں۔
تقریب کے اختتام پر ایک شان دار ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔ ہمارے استاد محترم ڈاکٹر جواد اعوان صاحب نے بہت لذید بریانی بنوا کر لائی تھی۔ اس ضیافت میں تمام طلبہ، اساتذہ اور انتظامیہ نے ایک ساتھ خوش گوار لمحوں کا لطف اٹھایا۔ یہ ایک خوب صورت موقع تھا جب سب نے اپنی محبتوں، یادوں اور نیک تمناؤں کا تبادلہ کیا۔ اس کے بعد یادگاری تصاویر بنوائیں گئی تاکہ اس دن کو ہمیشہ کے لیے یاد رکھا جا سکے۔
یوں یہ خوب صورت اور یادگار الوداعی تقریب دعاؤں، نیک تمناؤں اور دلوں میں گزرے لمحوں کی یادیں چھوڑتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچی۔ طلبہ و طالبات نے اپنی محنت اور کامیابیوں کی ایک نئی کہانی لکھی اور اس دن کو ہمیشہ کے لیے اپنی یادوں میں محفوظ کر لیا۔ اس خوب صورت تقریب نے سب کو اپنے تعلیمی سفر کی اہمیت اور اس کے اثرات کا دوبارہ ادراک کروایا۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |