جرمن شاعر گوئٹے کی نعت: انگریزی اور اردو تراجم کا جائزہ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
یورپ کی رومانوی اور فکری تحریکوں میں جرمن شاعر یوان وولف گانگ گوئٹے (Johann Wolfgang von Goethe) کا نام ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے اس عظیم شاعر نے نہ صرف یورپ کی ادبیات بلکہ مشرقی فکر اور اسلامی فلسفہ پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ گوئٹے کی تخلیقات میں مشرقی علوم و فنون سے شغف اور اسلامی تعلیمات کی جھلک واضح طور پر نظر آتی ہے۔ اسی ضمن میں ان کی ایک تخلیق وہ نعتیہ شاعری ہے جسے انہوں نے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں لکھا۔ یہ امر مغربی ادبیات کے تناظر میں غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یورپ میں مذہبی اور ثقافتی فاصلے کے باوجود ایک جرمن شاعر نے محبت و عقیدت کے اظہار کے لیے نعت رسول ﷺ کو بطور صنف اختیار کیا۔
گوئٹے کی اس نظم کو جرمن سے انگریزی میں ترجمہ کرنے کا اعزاز ایملی ایزسٹ (Emily Ezust) کو حاصل ہوا۔ ایزسٹ نے نعت کو لفظی و فکری سطح پر یورپی قاری کے ذوق کے مطابق منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ انگریزی ترجمہ میں استعارات اور منظرنامے (Spring، Valley، Ocean وغیرہ) فطرت کے پیکر میں ڈھالے گئے ہیں۔ چشمہ، وادی، ندی اور سمندر کا استعارہ گوئٹے کے ہاں رسولِ کریم ﷺ کی عالمگیر اور ہمہ گیر شخصیت کے ظہور کو علامتی انداز میں ظاہر کرتا ہے۔ تاہم یہ ترجمہ اپنے اندر عقیدت کا رنگ کم اور فکری و علامتی پہلو زیادہ رکھتا ہے، جس کی وجہ ترجمے کی مغربی فکری حدود بھی ہیں۔
اردو میں اس نظم کو ڈاکٹر شان الحق حقی نے منظوم ترجمہ کی صورت عطا کی ہے۔ اردو ترجمہ محض لفظی ترجمہ نہیں بلکہ ایک تخلیقی و جمالیاتی تشکیل ہے۔ حقی نے چشمہ، بہار، وادی، دشت اور قافلوں کے استعارے کو نعتیہ روایات کے قریب کر دیا ہے۔ ان کے ترجمے میں حضور اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس کو براہِ راست مرکز بنایا گیا ہے مثلاً:
“جس طرف اُس ﷺ کا رخ پھر گیا
اُس ﷺ کے فیضِ قدم سے بہار آگئی”
یہ مصرعہ نہ صرف ترجمے کا کمال ہے بلکہ اردو نعتیہ روایت سے ہم آہنگ بھی ہے۔ لیکن اس میں حضور اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے لیے "اس” کا لفظ نہیں آنا چاہئیے تھا بلکہ کوئی تعظیم والا لفظ ہونا چاہئیے تھا
اردو ترجمے میں رسول کریم ﷺ کی عالمگیر قیادت، رحمت للعالمین کا تصور اور امت کی رہنمائی کو بہت خوش اسلوبی سے اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ رنگ اصل نعت میں موجود استعاراتی و علامتی سطح سے زیادہ روحانی اور عقیدتی سطح پر نمایاں ہوا ہے۔
گوئٹے کی نعت بنیادی طور پر استعاراتی اور فطرت کے پیکروں سے مزین ہے۔
پیغمبر اسلام ﷺ کی شخصیت کو ایک چشمے یا دریا کی مانند پیش کرتا ہے جو صحرا، وادیاں اور میدان سرسبز کر کے سب کو اپنے ساتھ لے کر بحرِ ازل تک پہنچتا ہے۔
گوئٹے نے اس میں ایک عالمگیر قائد کی تصویر کھینچی ہے۔
انگریزی ترجمہ (ایملی ایزسٹ) بھی بہترین ہے۔ یہ نسبتاً لفظی ترجمہ ہے جس میں علامتی رنگ کو قائم رکھا گیا ہے
ترجمے میں عقیدتی و روحانی پہلو کمزور ہیں لیکن فطرتی مناظر پر زور دیا گیا ہے۔
یورپی قاری کے لیے زیادہ قابلِ فہم ہے مگر نعتیہ فضا میں کمی نظر آرہی ہے۔
شان الحق حقی کا اردو ترجمہ بھی بہترین ہے۔
یہ محض ترجمہ نہیں بلکہ تخلیقی و نعتیہ روایت سے ہم آہنگ شعری تشکیل بھی ہے۔
ترجمے میں حضور اکرم ﷺ کی ذات کو براہِ راست مرکز بنایا گیا ہے۔
استعارات کو عقیدت اور محبت کے رنگ میں ڈھالا گیا ہے
گوئٹے کی نعت رسول مقبول ﷺ ایک ایسی ادبی اور فکری تخلیق ہے جو مغربی اور مشرقی ادب کے مابین ایک روحانی پُل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایملی ایزسٹ کا انگریزی ترجمہ اگرچہ گوئٹے کے استعارات کو پیش کرتا ہے مگر نعتیہ روح سے دور ہے، جب کہ شان الحق حقی نے اردو ترجمے میں اس نظم کو ایک مکمل نعتیہ رنگ اور اسلامی تصورِ قیادت عطا کر دیا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ گوئٹے کا متن فکری و علامتی عظمت رکھتا ہے، انگریزی ترجمہ فہم و ابلاغ کے لیے معاون ہے اور شان الحق حقی کا اردو ترجمہ عقیدت و محبت سے سرشار ایک روحانی و ادبی تحفہ ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے گوئٹے کی نعت کے انگریزی اور اردو تراجم پیش خدمت ہیں۔
اردو ترجمہ
نغمہ ء ِ محمدیؐ
شان الحق حقی
وہ پاکیزہ چشمہ
جواوجِ فلک سے چٹانوں پہ اترا
سحابوں سے اوپر بلند آسمانوں پہ جولاں ملائک کی چشم نگہداشت کے سائے سائے
چٹانوں کی آغوش میں عہد برنائی تک جوئے جولاں بنا
چٹانوں سے نیچے اترتے اترتے
وہ کتنے ہی صد رنگ اَن گھڑ خزف ریزے
آغوشِ شفقت میں اپنی سمیٹے
بہت سے سسکتے ہوئے رینگتے، سُست کم مایہ سوتوں کو چونکاتا ، للکارتا ساتھ لیتا ہوا خوش خراماں چلا
بے نمو وادیاں لہلہانے لگیں
پھول ہی پھول چاروں طرف کھل اٹھے
جس طرف اُس ﷺ کا رخ پھر گیا
اُس ﷺ کے فیضِ قدم سے بہار آگئی
یہ چٹانوں کے پہلو کی چھوٹی سی وادی ہی کچھ
اُس ﷺ کی منزل نہ تھی
وہ تو بڑھتا گیا
کوئی وادی ، کوئی دشت، کوئی چمن، گلستاں، مرغزار
اُس ﷺ کے پائے رواں کو نہ ٹھہرا سکا
اُس ﷺ کے آگے ابھی اور صحرا بھی تھے
خشک نہريں بھی تھیں ، اُترے دریا بھی تھے ۔
سیلِ جاں بخش کے ، اُس ﷺ کے سب منتظر
جوق در جوق پاس اُس ﷺ کے آنے لگے
شور آمد کا اُسﷺ کی اٹھانے لگے
راہبر ﷺ ساتھ ہم کو بھی لیتے چلو
کب سے تھیں پستیاں ہم کو جکڑے ہوئے
راہ گھیرے ہوئے ، پاؤں پکڑے ہوئے
یاد آتا ہے مسکن پرانا ہمیں
آسمانوں کی جانب ہے جانا ہمیں
ورنہ یونہی نشیبوں میں دھنس جائیں گے
جال میں اِن زمینوں کے پھنس جائیں گے
اپنے خالق کی آواز کانوں میں ہے
اپنی منزل وہيں آسمانوں میں ہے
گرد آلود ہیں پاک کر دے ہمیں
آ ۔ ہم آغوش ِ افلاک کردے ہمیں
وہ رواں ہے ، رواں ہے ، رواں اب بھی ہے
ساتھ ساتھ اُس کے اک کارواں اب بھی ہے
شہر آتے رہے شہر جاتے رہے
اُس ﷺ کے دم سے سبھی فیض پاتے رہے
اُس ﷺ کے ہر موڑ پر ایک دنیا نئی
ہر قدم پر طلوع ایک فردا نئی
قصر ابھرا کيے خواب ہوتے گئے
کتنے منظر تہہ ِ آب ہوتے گئے
شاہ اور شاہیاں خواب ہوتی گئیں
عظمتیں کتنی نایاب ہوتی گئیں
اُس ﷺ کی رحمت کا دھارا ہے اب بھی رواں
از زمیں تا فلک
از فلک تا زمیں
از ازل تا ابد جاوداں ، بیکراں
دشت و در ، گلشن و گل سے بے واسطہ
فیض یاب اس سے کل
اور خود کل سے بے واسطہ
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |