خیبر میڈیکل کالج سے یونیورسٹی تک کا سفر
ڈاکٹررحمت عزیز خان چترالی
خیبرپختونخوا کی تعلیمی اور طبی تاریخ میں 29 اگست 2025ء ایک غیر معمولی دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈا پور نے خیبر میڈیکل کالج پشاور کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا باضابطہ اعلان کیا۔ یہ اعلان نہ صرف صوبے بلکہ پورے ملک کے لیے ایک اہم پیش رفت کے طور پر یاد رکھا جائے گا کیونکہ خیبر میڈیکل کالج کا شمار پاکستان کے ان اولین اداروں میں ہوتا ہے جنہوں نے طب کے شعبے میں معیاری تعلیم اور تحقیق کی بنیاد رکھی۔
خیبر میڈیکل کالج 1954ء میں قائم ہوا تھا اور یہ پاکستان کا تیسرا میڈیکل کالج تھا۔ قیام کے وقت اس کا مقصد صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) اور ملحقہ علاقوں میں صحت کے شعبے میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ماہر ڈاکٹرز اور نرسز تیار کرنا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ صرف تدریسی خدمات تک محدود نہ رہا بلکہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے ذریعے جدید علاج اور تحقیقی سہولیات فراہم کرنے لگا۔
1989ء میں پہلی مرتبہ اس ادارے کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کی تجویز پیش کی گئی لیکن یہ عمل مختلف سیاسی اور انتظامی وجوہات کی بنا پر تین دہائیوں سے زائد عرصہ زیر التواء رہا۔ بالآخر 2025ء میں یہ خواب حقیقت میں بدل گیا۔
ڈین پروفیسر ڈاکٹر محمود اورنگزیب کی بریفنگ کے مطابق، کالج اس وقت ہر لحاظ سے یونیورسٹی کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ یہاں 12 پی ایچ ڈی فیکلٹی ممبران تدریسی و تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، جبکہ 140 کنال پر محیط کیمپس عالمی معیار کے انفراسٹرکچر سے آراستہ ہے۔ جدید لائبریری، لیبارٹریز اور منی آڈیٹوریم اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ادارہ نئی نسل کو اعلیٰ سطح کی طبی تعلیم دینے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
اس موقع پر خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے مالی مسائل اور نئے منصوبوں پر بھی بات کی گئی۔ وزیراعلیٰ نے آرگن ٹرانسپلانٹ کے لیے ایک ارب روپے کے فنڈز کی منظوری دی، جن میں سے نصف پہلے ہی وصول ہو چکے ہیں۔ مزید برآں، 300 ملین روپے کارڈیک سرجری یونٹ کے قیام کے لیے بھی مختص کیے گئے، جس سے صوبے کے عوام کو دل کی بیماریوں کے علاج میں نمایاں سہولت ملے گی۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا یہ فیصلہ محض ایک تعلیمی پیش رفت ہی نہیں بلکہ صحت کے نظام میں انقلابی تبدیلی کی نوید بھی ہے۔ صدر ایپنا ڈاکٹر ارشد ریحان کے مطابق، یہ اعلان 36 سالہ انتظار کا اختتام ہے۔ خیبر میڈیکل کالج کا یونیورسٹی میں بدلنا مستقبل میں نہ صرف مقامی بلکہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر تحقیقی و طبی تعاون کو فروغ دے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہزاروں طلباء کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع میسر آئیں گے اور صوبے میں انسانی وسائل کی ترقی کا نیا باب کھلے گا۔
اگرچہ یہ فیصلہ وقت کی اہم ضرورت تھا، مگر اس کے ساتھ کئی عملی چیلنجز بھی درپیش ہوں گے۔ یونیورسٹی کا چارٹر، انتظامی ڈھانچے کی تشکیل، نصاب کی جدت اور بین الاقوامی سطح پر درجہ بندی جیسے امور فوری توجہ طلب ہیں۔ مزید یہ کہ فنڈز کی بروقت فراہمی اور شفاف استعمال یقینی بنانا حکومت اور متعلقہ اداروں کی اولین ذمہ داری ہوگی۔
خیبر میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینا نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ پورے پاکستان کے لیے فخر کا مقام ہے۔ یہ قدم اس خطے میں اعلیٰ تعلیم، تحقیق اور صحت کی سہولیات کو نئی جہت عطا کرے گا۔ تاہم اس فیصلے کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ حکومت کس طرح انتظامی و مالی مسائل کو حل کرتی ہے اور یونیورسٹی کو ایک بین الاقوامی معیار کا ادارہ بنانے میں کس حد تک سنجیدگی اور استقامت دکھاتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |