جنگ میں کون کہاں کھڑا ہے؟
ایران کی جس ایٹمی صلاحیت کو آڑ بنا کر اسرائیل نے ایران پر حملہ کرنے میں پہل کی، اس کی بنیاد ایران نے امریکہ کے تعاون سے سنہ 1957ء میں رکھی تھی۔ اس وقت ڈیوڈ آئیزن ہاور امریکہ کے صدر تھے۔ وہ ریاست ہائے امریکہ کے 34 ویں صدر تھے جنہوں نے ایران کے اس اٹامک انرجی پروگرام کا نام "ایٹم فار پیس” رکھا تھا جس کا مطلب "امن کا زرہ” ہے، اور جسے آج اسرائیل اپنے لیئے خطرہ سمجھ کر ایران پر حملہ آور ہوا۔
سنہ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی اسرائیل نے عربوں پر حملہ کرنے میں پہل کی تھی جب اسے معلوم ہوا تھا کہ عرب ممالک اسرائیل پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ جنگ صرف 6 دن تک جاری رہی تھی جس میں اسرائیل نے عربوں کو شکست دی۔ اس جنگ میں اسرائیل نے مصر اور شام کی ایئرفورس کو تباہ کر دیا تھا۔ اسرائیل نے اردن کے حملوں کو بھی ناکام بنایا تھا۔ اس جنگ کا خاتمہ اسرائیل کے غزہ سٹرپ، صحرائے سنہا، ویسٹ بنک، گولان کی پہاڑیوں اور ایسٹ یروشلم پر قبضے کی صورت میں ہوا تھا۔
سنہ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد ایران اسرائیل کی شدید کشمکش کا آغاز 80 کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے دوران ہوا تھا جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کر کے اس کے "نیوکلیئر پراسیسنگ پلانٹ” کو تباہ کر دیا تھا۔ اس بار بھی اسرائیل نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ایران پر حملہ کر کے اس کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کی کوشش کی جس میں ایران کو اعلی فوجی جرنیلوں اور اب تک 80 سے زیادہ سویلین کی شہادتوں کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس کے بدلے میں ایرانی کارروائیوں سے اسرائیل کو کتنا نقصان ہوا؟ ایران کے دعوے اپنی جگہ لیکن دنیا ’’الجزیرہ‘‘ اور "فاکس نیوز” کی رپورٹنگ کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ جنگ ہے اور جنگ کے میدان کی گرما گرمی کے ساتھ "جنگی دعوی جات” فروخت ہوتے ہیں۔ اسرائیل معاشی طور پر ایران سے زیادہ مضبوط ہے۔ یہ دعوی نہیں کیا سکتا کہ ایران یا اسرائیل دونوں جھوٹ بول رہے ہیں۔ البتہ ایک تو اسرائیل میں حالیہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی نافذ ہونے والی خصوصی سنسر شپ کی بدولت انہی اطلاعات پر انحصار کرنا پڑے گا جو دستیاب ہوں گی۔ اطلاعات کا ایک ذریعہ سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس بھی ہیں۔ ان میں کچھ سنجیدہ تجزیے اور ٹھوس اطلاعات ضرور ہیں۔ دوسرا عالمی میڈیا اسرائیل کے زیر اثر ہے۔ انہی اطلاعات کے مطابق جنگ کے آغاز میں اسرائیل نے برتری حاصل کی مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل چاہتا ہے کہ امریکہ مداخلت کر کے جنگ بندی کروائے کیونکہ اسرائیل کے مطابق اس نے ایران کی کمر توڑ دی ہے اب وہ اٹھنے کے قابل نہیں رہا ہے یعنی اسرائیل ایران پر حملے سے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا یا تو اس نے وہ مقاصد حاصل کر لیئے ہیں اور یا پھر وہ اندرون خانہ جنگ ہار رہا ہے اور اب وہ جنگ سے فرار چاہتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ ایرانیوں نے اسرائیلی اندازوں کے برعکس حیران کن جوابی وار کئے ہیں جس سے تل ابیب سے لے کر حیفہ تک اسرائیلی عوام میں خوف کا رقص شروع ہو گیا ہے۔ جنگ کے آغاز میں اسرائیلی شرح اموات کم تھیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران کے خلاف جنگی کارروائی کے آغاز پر اسرائیلی حکومت نے اپنے شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کے لئے کہہ دیا تھا۔
لیکن سچ یہ ہے کہ جنگ کے ابتدائی چند دنوں کے دوران ایران کی جانب سے اسرائیل پر کئے گئے غیر معمولی اور منظم میزائل حملوں نے مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایرانی حملوں کا صرف عسکری نہیں بلکہ ان کا سیاسی، نفسیاتی اور سماجی اثر بھی نمایاں ہے۔ اسرائیل کے وجود کو جس مسلم ملک ترکی نے سب سے پہلے تسلیم کیا تھا اس کے سربراہ نے بھی اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی ہے اور گزشتہ سال تک جس سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے اسرائیل کو سعودی عرب اور پاکستان سے تسلیم کروانے کے لیئے اسرائیل کا خفیہ دورہ کیا تھا، اب اسی سعودی عرب کے ولی عہد نے چند روز قبل ایرانی صدر کو فون کر کے جنگی تعاون کی یقین دہانی کروائی اور اپنے ایک بیان میں کہا کہ، "پوری اسلامی دنیا ایران اسرائیل جنگ کے حوالے سے متحد ہے۔”
اسرائیلی حکومت اور اس کا مین اسٹریم میڈیا دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ صورتحال ان کے مکمل کنٹرول میں ہے، لیکن زمینی حقائق، سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل اور غیر سرکاری بیانیئے اسرائیل کے اس سرکاری دعوے کو مکمل طور پر چیلنج کر رہے ہیں۔
اسرائیل کی سرکاری رپورٹوں کے مطابق، ان حملوں میں اسرائیل کے کم از کم 18 افراد ہلاک اور 200 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ اب تک درجنوں ایرانی میزائل اور ڈرونز اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ حملوں کا نشانہ بننے والے مقامات میں تل ابیب، حیفہ، بیرشیوا، اشدود، اور دیگر اہم شہر شامل ہیں۔ ان علاقوں میں اسرائیلی پینٹاگان، فوجی تنصیبات، تیل کے ذخائر، ریفائنریز، اسلحہ کے گوداموں اور کارخانوں کے علاوہ کچھ رہائشی عمارات بھی تباہ ہوئیں ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق بعض جگہوں پر آگ کئی گھنٹوں تک لگی رہی، اور اسرائیل کے ریسکیو ادارے مکمل طور پر بے بس دکھائی دیئے۔ اگرچہ اسرائیلی حکام نے صرف چند مخصوص مقامات پر نقصانات کو تسلیم کیا ہے، لیکن مختلف ذرائع سے آنے والی ویڈیوز اور تصاویر یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اصل نقصان اس سے کہیں زیادہ وسیع اور گہرا ہے۔
ان حملوں کے بعد اسرائیل میں معلومات کی ترسیل پر بھی خاصی قدغن دیکھی گئی۔ اسرائیل کے ہزاروں شہریوں نے سوشل میڈیا پر شکایت کی ہیں کہ حملوں کے فوراً بعد کئی علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورکس بند کر دیئے جاتے ہیں، خاص طور پر وہ مقامات جہاں نقصانات زیادہ ہوئے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض صارفین نے بتایا کہ ان کی پوسٹس، جن میں وہ میزائل حملوں کے مناظر یا نقصانات کی ویڈیوز شیئر کر رہے تھے، بغیر کسی وضاحت کے سوشل میڈیا سے ہٹا دی گئیں۔ اسرائیلی صارفین نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی جنگی رپورٹنگ کو بین کیا جا رہا ہے یا اس کی "پہنچ” کم کر دی جاتی ہے۔ ایران، فلسطین کے الفاظ کی حامل پوسٹ اور جنگی مناظر پر مبنی ویڈیوز، ریلز، اور اسٹوریز "اپ لوڈ” نہیں ہو رہی ہیں، جبکہ دوسرے مواد پر ایسا نہیں ہے۔ اطلاعات ہیں کہ صرف "میٹا” نے جنگ کے پہلے تین دنوں میں 795,000 عربی و عبرانی پوسٹس اور تحاریر ہٹا دیں، اور سوشل میڈیا کے کئی اکاؤنٹس کو سسپینڈ کر دیا۔ یہ تمام اقدامات اس تاثر کو تقویت دیتے ہیں کہ اسرائیلی حکومت معلوماتی کنٹرول کے ذریعے داخلی بے چینی کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسرائیلی شہری اس دباؤ کو کھلے عام محسوس کر رہے ہیں۔ کئی شہروں میں اسکول بند رہے، بازار محدود وقت کے لئے کھلے، اور لوگ اپنی روزمرہ زندگی کو بم شیلٹرز کے ساتھ ہم آہنگ کرنے پر مجبور رہے۔ سیاحتی شعبہ مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے، اس وقت تقریباً 40 ہزار غیر ملکی سیاح اسرائیل کے مختلف شہروں میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ فضائی حدود جزوی طور پر بند کر دی گئی ہیں۔ ہوٹلوں، ریلوے سٹیشنز، اور ایئرپورٹس پر غیر معمولی ہجوم دیکھا گیا۔ عوام میں نہ صرف غصہ بڑھ رہا ہے بلکہ ایک قسم کا عدم اعتماد بھی پیدا ہو رہا ہے کہ حکومت ان کے ساتھ مکمل سچائی کا برتاؤ نہیں کر رہی ہے۔
اس دوران اسرائیلی حکومت نے مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، اور دیگر فلسطینی علاقوں میں سیکیورٹی کی آڑ میں شدید پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ درجنوں نئے چیک پوائنٹس قائم کئے گئے ہیں، جن کی وجہ سے فلسطینیوں کی نقل و حرکت سخت متاثر ہوئی ہے۔ کئی جگہوں پر شہریوں کو ہسپتال یا عبادت گاہوں تک جانے کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ مسجد اقصیٰ کے گرد اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی موجودگی میں بے پناہ اضافہ کیا گیا ہے۔ صرف معمر افراد کو داخلے کی اجازت ہے۔ جبکہ نوجوانوں اور بچوں کو زبردستی روک دیا گیا ہے۔ اسرائیل میں اگرچہ رسمی طور پر کسی کرفیو کا اعلان نہیں کیا گیا، لیکن اکثر شہروں میں صورتحال عملاً ایک مکمل کرفیو جیسی ہے، خاص طور پر مسلمان اکثریتی علاقوں میں۔
یہ تمام صورت حال اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ ایران کے میزائل حملوں نے صرف فوجی اہداف کو نشانہ نہیں بنایا، بلکہ اسرائیل کے دہائیوں سے اپنی ناقابلِ تسخیر دفاعی طاقت کے دعووں کو بھی خاک میں ملا دیا ہے۔
اب خود اسرائیلی عوام سچائی جاننا چاہتے ہیں، اور عبرانی و اسرائیلی سوشل میڈیا پر یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ حکومت اصل نقصان کی تفصیلات فراہم کرے۔ یوں اسرائیلی ریاست اپنے داخلی تضادات سے دوچار دکھائی دیتی ہے۔ اگر یہ رجحان جاری رہا، اور عوامی دباؤ بڑھتا رہا، تو شاید آنے والے دنوں میں اسرائیلی قیادت کو بین الاقوامی محاذ کے ساتھ ساتھ اپنے اندرونی عوامی محاذ پر بھی ایک بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اطلاعات پر کنٹرول، اظہارِ رائے کی پابندی، اور حقائق سے چشم پوشی کی پالیسی دیرپا نہیں ہو سکتی۔ ایران کے میزائل بے شک اسرائیل پر کم وقت کے لیئے گریں، لیکن ان کا اثر اسرائیل کی داخلی اور سیاسی ساکھ پر برسوں تک قائم رہے گا۔
بہرکیف یہ سنہ 1967ء ہے اور نہ ہی 80ء کی دہائی ہے۔ اس پر مستزاد امریکی صدارت کی گدی پر امریکی تاریخ کے شاطر ترین صدر مکرمی ڈونلڈ ٹرمپ صاحب بیٹھے ہیں جن کی نظر "نوبل پیس پرائز” پر ہے۔ جس طرح انہوں نے پاک بھارت جنگ بندی کروائی، اسی طرح وہ ایران اسرائیل جنگ بھی امید ہے ضرور بند کروائیں گے۔ لیکن اس سے پہلے بہت سی ایسی رکاوٹیں اور مسائل ہیں جو ابھی حل طلب ہیں۔
یاد رہے اسرائیل نے ایران پر عین اس وقت حملہ کیا جب ایران اور اسرائیل کے درمیان مشرق وسطی ہی کے دو ممالک میں "مذاکرات” جاری تھے۔ ان مذاکرات کا پہلا دور 12 جون کو ہوا اور ابھی 13 اور 14 جون کو مذاکرات ہونا تھے کہ اسی دوران اسرائیل نے اچانک علی الصبح ایران پر شدید حملہ کر دیا۔
اگر کبھی جنگ بندی ہو گئی تو اس صورت میں "مسئلہ فلسطین” حل ہو گا، دیگر مسلمان ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں گے یا نہیں اور ایران اپنی "پراکسی وارز” کو کہاں تک ختم کرے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ابھی آنا باقی ہے۔ کیا معطل ایران امریکہ مذاکرات دوبارہ شروع ہونگے اور ہوں گے تو ان کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، ان سوالوں کا سردست صحیح جواب ڈھونڈنا صرف قیاس آرائی ہے۔ مشرق وسطی میں امن کی بحالی دنیا بھر میں امن کی ضمانت ہے۔ دیگر عالمی طاقتوں کو چایئے کہ وہ جنگ بھڑکانے کی بجائے اس کے شعلوں کو بجھانے کے لیئے اپنا کردار ادا کریں، جس میں روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی وغیرہ سرفہرست ہیں۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |