ہم جینے کیوں نہیں دیتے؟

ہم جینے کیوں نہیں دیتے؟

از -رضاسید

ہمارا معاشرہ ہندو معاشرے سے بے حد متاثر ہے ذات پات اور اونچ نیچ نے جہاں معاشی تنگی پیدا کی وہاں کچھ مخصوص پیشوں سے وابستہ لوگوں کو ان کی قوم یا ذات قرار دے دیا اور ان کو معاشرے میں نچلی ذات کی اقوام یا کمی کہہ کر انکی توہین کی جاتی ہے جیسا کہ نائی ۔ موچی ۔ لوہار ۔تیلی ۔پاولی ۔ ترکھان یا دھبہ وغیرہ حالانکہ یہ پیشے ہیں اقوام نہیں ۔۔۔

مجھے کئی دفعہ عرب ممالک جانے کا اتفاق ہوا  خاص کر عراق۔۔۔عرب ممالک میں سبز رنگ مخصوص ہے ہاشمی سادات قبائل کے ساتھ اسی طرح دیگر رنگ دیگر قبائل کی نشانی ہیں میں ایک باربر شاپ گیا داڑھی کا خط کروانے تو میں نے بھی سبز رنگ کا کپڑا یا جسے ہم پرنہ کہتے ہیں کندھے پر رکھا ہوا تھا وہ مجھے عزت دیتے ہوئے بٹھاتا ہے اور وہ غیر ملکی لوگوں سے ڈیل کررہا تھا کئی سال سے اس لیے کچھ نا کچھ انگریزی زبان سے واقف تھا مجھ سے ہندوستان کا پوچھنے لگا میں نے کہا میں پاکستانی ہوں۔ بولا ہاشمی ہو کیا میں نے اثبات میں سر ہلا دیا مجھ سے ہندوستان میں گئے سادات قبائل کا پوچھنے کی کوشش کی میں نے اس کو کچھ تاریخ بتائی جو اس کو کچھ سمجھ آئی کچھ نہ آئی تاہم جوابی میں نے اس سے پوچھا آپ نے بھی سبز رنگ کا کپڑا رکھا ہوا ہے آپ بھی ہاشمی ہو تو اس نے جوابی اثبات میں کہا نعم یعنی ہاں جی ۔۔۔

مجھے جھٹکا لگا کہ ہم کتنے ظالم لوگ ہیں ہم نے مخلتف محنت مزدوری کے پیشوں پر پابندی لگا دی ہے جو وہ یہ مخصوص  کام کرتا ہے اس کی نائی موچی کہہ کر ہتک کرتے ہیں جبکہ عرب و ایران میں یہ کام بہترین پیشے ہیں لوگ اپنی مزدوری کررہے ہیں چاہے وہ کوئی بھی کسی بھی رنگ و نسل سے ہے ۔

یہ سید زادہ باربر کا کام کررہا تھا اور اپنی روزی کما رہا تھا یہاں پاکستان میں کئی ایسے سیدوں ملکوں سرداروں کو میں جانتا ہوں جو بے روزگاری سے بھوکے مر رہے ہیں مگر اس معاشرے نے ان پر ایسی ہنر مندی پر پابندی لگا رکھی ہے جس سے وہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں ۔اگر وہ ایسا کچھ کریں گے تو ان کی آنے والی نسلوں کو لوگ کہیں کہ یہ سید یا ملک نہیں یار یہ نائی یا موچی ھے اس لیے وہ بے روزگار بیٹھے رہیں گے مگر کام نہیں کریں گے ۔۔۔

کتنی بے حسی ہے ہم کسی کی مدد نہیں کر سکتے کسی بے روزگار کا ہاتھ نہیں تھام سکتے مگر اس کو ذلیل کرنے کے لیے تاڑ میں بیٹھے ہوتے ہیں

آئیے ۔مل کر اس بے ہودہ ذات بات کے خلاف آواز اٹھائیں اور کسی کو اس کے کام کی وجہ سے ہتک کرنے والے کی مزمت کریں تاکہ معاشرے میں وہ اقوام جو یہ کام کررہی ہیں انکی عزت ہو اور جو اس ڈر کی وجہ سے نہیں کررہے کہ وہ تماشہ نا بنیں ان کو حوصلہ ہو ۔

ہم جینے کیوں نہیں دیتے؟

بقلم رضا سید

تحریریں

لکھاری،تجزیہ نگار،کالم نویس،اصلاح پسند، سماجی نقاد

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

صحت عامہ پر خصوصی اجلاس

جمعرات دسمبر 31 , 2020
ڈپٹی کمشنر اٹک علی عنان قمر صاحب نے صحت عامہ سے متعلق اجلاس کی صدارت کی

مزید دلچسپ تحریریں