اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں

اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں

( کیا  امراو جان اداء  ایک حقیقی کردار تھا یا مرزا ھادی رسواء کی ذہنی تخلیق )

تحقیق و تحریر :

سیدزادہ سخاوت بخاری

اردو ادب کے طالب علم کی حیثیت سے جہاں حصہ نظم میں غالب ، میر ، مومن ، آتش اور اقبال کو پڑھنے کا موقع ملا وہیں عظیم نثر نگاروں ,  ڈپٹی نذیر احمد اور مرزا محمد ہادی رسواء کی مشہور زمانہ نثری تخلیقات ، توبة النصوح اور امراؤ جان اداء جیسے ناول بھی پڑھنے کو ملے ۔

چونکہ رسواء کا تعلق لکھنوء سے تھا لھذا وہاں کے کوٹھوں ( گانے بجانے والی طوائفوں کے  بالا خانے ) کے ماحول سے متاثر ہوکر انہوں نے ایک ایسا شاھکار تخلیق کیا جو آگے چل کر بالی وڈ ( Bollywood ) فلم کی شکل میں ہمارے سامنے آیا ۔

1899ء  میں تخلیق کی گئی اس کہانی کے بارے میں ، مرزا ہادی  رسواء  نے کب سوچا ہوگا کہ آج سے کم و بیش 80 برس بعد ، اس کے ذھن سے ٹپکا ہوا خیال ، بمبئی فلم انڈسٹری کی ایک شاندار ، مہنگی اور معروف زمانہ فلم کا روپ دھار کر ، برصغیر ہندوپاک ہی نہیں بلکہ دنیاء بھر میں جہاں جہاں  اردو /ہندی بولی اور سمجھی جاتی ہے ، سینماوں کی زینت بنے گا ۔

Umrao Jaan movie poster


اس شہر میں تم جیسے  دیوانے ہزاروں ہیں
Image By Amazon

پاک و ہند کا ایسا کونسا مسلمان ، ہندو اور سکھ ہوگا جو ایودھیا کے نام سے نا آشناء ہو ۔ اگر اس سے پہلے نہیں بھی جانتا تھا  تو ہندو انتہاء پسند  بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھوں 500 سو سال پرانی بابری مسجد کو گرائے جانے اور اس کے نتیجے میں پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد ، ہر خورد و کلاں ، پڑھا لکھا اور ان پڑھ ،  ایودھیا ، ضلع فیض آباد یوپی کو ذہن نشین کرچکا ہے ۔ مرزا رسواء کی امراو جان اداء کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا ۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ

ایودھیا فیض آباد میں دلاور خان نامی ایک بدمعاش رہتا تھا ۔ وارداتیں کرنا اور جیل یاترا اس کی زندگی کا معمول تھا ۔ اسی سلسلے کے ایک مقدمے میں اس کے  پڑوسی نے پولیس کے کہنے پر اس غنڈے کے خلاف گواہی دیدی اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے امراؤ جان اداء جیسے کردار کا جنم ہوا ۔

بدمعاش دلاور خان کو پڑوسی کی گواہی پر جیل تو جانا پڑ گیا لیکن اس نے دل ہی دل میں ٹھان لی کہ واپس آکر اس گواہ سے بدلہ لونگا لھذا جب وہ رہا ہوکر آیا تو اس نے اس پڑوسی ( گواہ ) کی  ” امیرن ” نامی بیٹی اغوا کرلی اور اسے لکھنوء لے جاکر ایک طوائف ” خانم جان”کے ہاتھ فروخت کردیا ۔

اس شھر میں تم جیسے  دیوانے ھزاروں ہیں

یاد رہے یہ اس زمانے کی بات ہے جب لکھنوء کے کوٹھے ( Red light Area ) ، طوائفیں , رقاصائیں  اور بائیاں ( Mistresses ) پورے برصغیر میں مشہور تھیں ۔ ان کوٹھوں پر نہ فقط رقص و سرود کی محفلیں جمتی تھیں بلکہ انہیں تہذیب اور آداب محفل سکھانے کی درس گاہوں کا درجہ حاصل تھا ۔ بڑے بڑے روساء اور نواب اپنے بچوں کو تہذیب سکھانے کے لئے ان بائیوں کے پاس بھیجا کرتے ۔

چونکہ ہادی رسواء کے آتے آتے یہ اسکول اخلاقی تنزلی کا شکار ہوچکا تھا اور اب وہ پہلے والے کوٹھے نہ تھے اس لئے اس نے لکھنوی معاشرے  کی نفسیاتی ، معاشرتی ، اخلاقی اور تہذیبی تصویر اجاگر کرنے کے لئے امراو جان اداء کے نام سے ناول لکھا ۔

بعض مورخین اردو ادب ، اس کتاب اور کہانی کو اردو کا پہلا ناول قرار دیتے ہیں لیکن قطع نظر اس کے کہ یہ پہلا تھا یا دوسرا ، یہ بات برملا کہی جاسکتی ہے کہ رسواء نے شاہکار تخلیق کیا ۔ قاری شروع سے آخر تک کہانی کی گرفت سے باہر نہیں آسکتا ۔ زبان و بیان اور تجسس ( Suspence) اسے ایک خیالی دنیاء میں محو پرواز رکھتا ہے ۔

ہم بیان کررہے تھے کہ فیض آباد کے بدمعاش دلاور خان نے ننھی امیرن کو اغواء کرکے لکھنوء میں خانم جان نام کی ایک کوٹھے والی بائی (  Dance Mistress  ) کے ہاتھ فروخت کردیا ۔ بائی خانم جان  ، چھوٹی عمر کی لڑکیوں کو رقص اور گانا بجانا سکھا کر مجرے ( Dance)

کے لئے تیار کرتی تھی ۔ ہر شام اس کے کوٹھے پر امراء ، روساء اور نوابین مجرا دیکھنے آتے اور اس طرح وہ نئی نویلی ، سجی دھجی ، بنی سنوری  چھمک چھلیوں کو نچا کر ان کی جیبیں خالی کردیتی ۔

بازار حسن ( Red light Areas ) کا رواج ، ضرورت اور اصول ہے کہ نائکہ ( Mistress ) ہر لڑکی کا اصل نام بدل کر اسے اسٹیج کا ایک نام دیتی ہے تاکہ اصل شناخت چھپانے کے ساتھ ساتھ ، رقاصہ کے نام میں ایک کشش اور جاذبیت پیدا ہو لھذا

نئی آنیوالی لڑکی ” امیرن ” کو بھی اسی اصول کے تحت

” امراؤ جان اداء ” کا نام دیا گیا۔

امراؤ جان جب تربیت مکمل کرکے بحیثیت رقاصہ اسٹیج پر نمودار ہوئی تو لکھنوء ہی کیا پوری ریاست اودھ میں اس کے حسن ، اداوں اور ناز و نخرے کی دھوم مچ گئی ۔ نوابین اور روساء مجرا دیکھنے آنے لگے ان ہی میں سے ایک نواب سلطان ( اداکار فاروق شیخ جس نے نواب سلطان کا کردار ادا کیا )  ، امراؤ جان  ( ریکھا ) کو دل دے بیٹھتا ہے ۔ امراو بھی اس سے محبت کرنے لگتی ہے اور دونوں زندگی بھر ساتھ نبھانے کا عھد کرلیتے ہیں لیکن نواب سلطان کے گھر والے اس رشتے کو نہ تسلیم کرتے ہوئے ، اس کی شادی کہیں اور    اپنے خاندان میں کردیتے ہیں جس سے امراو بہت زیادہ دلبرداشتہ ہوکر اپنے ایک اور چاہنے والے فیض علی ( راج ببر )  سے دوستی کرلیتی ہے ۔ فیض علی بھی اسے محبت اور شادی کا یقین دلاتا ہے اور  گناہ کی اس دلدل سے نکلنے کی خاطر ایک دن موقع پاکر وہ فیض علی کے ساتھ بھاگ جاتی ہے لیکن راستے میں ہی پولیس فیض علی کو گرفتار کرلیتی ہے اور اس وقت امراو کو پتا چلتا ہے کہ فیض علی تو ایک ڈاکو تھا لھذا وہ واپس لکھنوء آکر اسی دھندے پر لگ جاتی ہے ۔ یہاں یہ نقطہ قابل غور ہے کہ امراؤ جان کو حالات نے زبردستی ایک شریف گھر کی امیرن سے امراؤ بنایا تھا ۔ وہ خود اپنی مرضی سے اس پیشے میں نہیں آئی تھی اسلئے اس کے اندر کا انسان اسے ہمیشہ یہاں سے نکلنے کی ترغیب دیتا رہا لیکن وہ حالات کی زنجیروں سے جان نہ چھڑا سکی ۔

Umrao Jaan Ada

جب امراؤ واپس کوٹھے پر آئی تو کچھ ہی عرصہ بعد انگریزوں نے لکھنوء پر حملہ کردیا اور لوگ جان بچا کر بھاگنے لگے ۔ امراو نے بھی لکھنوء کو خیر باد کہا اور پناہ حاصل کرنےکی خاطر اتفاق سے فیض آباد کے قریب پہنچ گئی ۔ اسے معلوم نہ تھا کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں سے اسے بچپن میں اغواء کیا گیا تھا ۔

جب علاقے کے لوگوں کو علم ہوا کہ لکھنوء کی معروف رقاصہ امراؤ جان اداء یہاں آئی ہے تو انہوں نے اس سے گانے اور رقص کی فرمائیش کی ۔ قسمت کی ستم ظریفی ، املی کے اسی پیڑ کے نیچے اسے رقص کرنا پڑا جہاں سے بدمعاش دلاور خان اسے اٹھا کر لے گیا تھا ۔ گاوں کے لوگ جمع تھے ۔ امراو کی ماں نے اپنی امیرن کو پہچان لیا اور گھر لے جانا چاہا مگر اس کے بھائی نہ مانے اور اس طرح امراؤ جان ایک بار پھر سے تن تنہاء واپس لکھنوء کے بازار حسن پہنچ گئی ۔

مرزا ہادی رسواء کی لکھی اس کہانی کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دو اساتذہ ، ہدائیتکار مظفر علی اور باکمال شاعر شہریار نے , بالی وڈ کی معروف چاکلیٹی رنگت والی اداکارہ ریکھا ، اداکار فاروق شیخ اور مدھر سروں کی ملکہ آشا بھونسلے کو لیکر جب سینماء اسکرین کی زینت بنایا تو فلم بین عش عش کر اٹھے ۔

شہر یار کی الہامی غزلوں اور مدھر گیتوں نے  آشا بھونسلے کی جادو بھری آواز اور سانولی سلونی اداکارہ ریکھا کی مستانی اداوں کے بھنور میں پھنس کر لکھنوء کے تاریخی مجروں کی یاد تاذہ کردی ۔

مثلا یہ غزل :

ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ھزاروں ہیں

اسی غزل کا ایک شعر جو مجھے بہت پسند ہے ،

اک تم ہی نہیں تنہاء الفت میں میری رسوا

اس شھر میں تم جیسے دیوانے ھزاروں ہیں

تحریریں

شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

محمدؐ دے نغمے سُریلے سُنڑا کے

اتوار مارچ 21 , 2021
محمدؐ دے نغمے سُریلے سُنڑا کے
iattock

مزید دلچسپ تحریریں