خزینہء رحمت- سمیعہ ناز کی کتاب

خزینہء رحمت- سمیعہ ناز کی کتاب

الفاظ کی صوتی ترنگ جب الہام کے ساتھ ملتی ہے تو فکر و نظر کے پھول حبیبِؐ کبریا کی مدحت سرائی میں خوشبووں کے نشیلے جھونکے لے کر آتے ہیں۔ مدحت سرائی ذاتی کاوش سے ممکن نہیں ہوتی بلکہ یہ غمگسارِ دل فگاران مدنی تاجدار حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہِ کرم سے ظہور پزیر ہوتی ہے۔ اس میں خیال کو لفظوں کی خوشبو میں ڈھالنا شاعر کا کمال ہوتا ہے جو کہ عطائے ربِ کریم ہوتا ہے۔ نعت گوئی زیارت رسولؐ کا باعث بنتی ہے جب ناعت نعت لکھتے وقت آنکھوں سے نایاب گوہر بیج کی صورت میں اپنے رخساروں کی شگفتہ زمین پر بوتا ہے تو یہ عمل آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں منظورِ نظر ہوجاتا ہے اور الہام کی رم جھم عشقِ رسولؐ میں خامے پر موتیوں کی طرح برستی ہے۔ مجھے نعت گوئی نے کیا کچھ دیا ہے اس کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا اور نہ ہی یہ میرا موضوع ہے۔ مدحت کے دروازے پر آواز نیچی، آنکھیں جھکی ہوئی، گردن خم اور ہاتھ باندھ کر باوضو جانے سے جو سکون و طمانیت حاصل ہوتی ہے وہ شاعری کی دوسری اصناف کے شعرا کے نصیبوں میں کہاں ہے۔

 محترمہ سمیعہ ناز کی نعت نگاری سے میری شناسائی اُن کی کتاب “خزینہ رحمت ” سے ہوئی ۔ سوشل میڈیا پر ان کی سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے والہانہ مودت نعت کے مختلف گروپوں میں عیاں ہوتی ہے شاعرانہ صلاحیتوں سے مزین دل اور قلم رکھنے والی شاعرہ نہ صرف خود شعر کہتی ہیں بلکہ ان کا سوشل میڈیا پر اپنا نعتیہ گروپ بھی ہے جس میں نو وارد شعرا کی پزیرائی کرتی ہیں جو ان کا ایک بہت اعلیٰ وصف ہے ۔ مجھے جب سید شاکر القادری جو اٹک میں نعت گوئی کا ایک بہت نام ہے انہوں نے کمالِ شفقت سے  ” خزینہء رحمت ” کا تحفہ عطا کیا تو پڑھ کر میں سمیعہ ناز کی شاعری اور صلاحیتوں کا معترف ہو گیا

سید شاکرالقادری  نے محترمہ سمیعہ ناز کے ادبی سفر کا تعارف جس خوبصورت انداز میں کرایا ہے اسے پڑھ کر قاری کو نعت گو خواتین کی تاریخ اور مودتوں کے سفر کا اندازہ ہوتا ہے  ۔ اللہ ربّ العزت نے سمیعہ ناز کو  لیڈز ( یو کے ) کی ” یارکشائر ادبی فورم ” میں اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا بھرپور موقع دیا ہے جس میں خواتین شعرا  کے لیے وہ ایک متحرک عاشقِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خوب صورت اور خوب سیرت روپ میں جلوہ گر ہیں، انہوں نے اس تنطیم کو اردو ادب کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ  فروغ نعت کا ایک بہترین پلیٹ فارم بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے  “خزینہء رحمت” میں شامل کلاموں پر جب عشاق مصطفیٰٰؐ کی نظریں نورانی نکہت و رفعت کی تلاش میں پڑتی ہیں تو ایمان و ایقان منور و معنبر ہو جاتے ہیں جس سے سیرت کے کئی باب اذہان و قلوب پر نقش ہوجاتے ہیں اور قاری معاشرے کا ایک بہترین رکن بنتا چلا جاتا ہے جو کدورت کے جنگل سے نکل کر محبت اور نرم دلی کے گلستان میں داخل ہوتا ہے ۔

خزینہء رحمت- سمیعہ ناز کی کتاب

        سمیعہ ناز کی نعتیں محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ اُن کے قلب و نظر کی روحانی واردات  ہیں جو کہ الہام کا ایک نہ ختم ہونے والا مہک افروز سلسلہ ہے

        محترمہ سمیعہ ناز کی نعتوں میں ندرت ، سلاست ، بلاغت ،اوجِ خیال ، شوکتِ الہام کی فراوانی ، مضمون آفرینی اور عشقِ رسولؐ کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ایسے ایسے گوہرِ نایاب رکھتا ہے جس کو دیکھ کر قاری حیران رہ جاتا ہے۔  لیجیے آپ بھی ان اشعار کے موضوعات اور اسالیب کی خوب صورتی سے ذہنوں کو معنبر کیجیے :۔

نبی کی نعت رقم کی ہے جب بھی کاغذ پر

تو  اس  دیار  کی  تصویر چشمِ تر میں رہی

آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن راستوں پر چلتے تھے اُن پر آنے جانے والے جان جاتے تھے کہ یہاں سے حضرت  بی بی آمنہ ؑ کے چاند کی سواری گزری ہے اور صحابہ کرام ؓ     آپ کا یہ اعجاز بھی دیکھتے تھے کہ جب کسی غزوہ میں جاتے تو سفر کا پتہ ہی نہ چلتا اور فاصلے سمٹ جاتے۔جیسے محترمہ سمیعہ ناز نے اس شعر میں بیان کیا ہے ملاحظہ کیجیے:۔

چلیں جس راہ پر آقا ﷺوہاں کے فاصلے کم ہوں

زمیں  جیسے  سمٹ  جائے  مرے  آقاؐ کی عظمت سے

تاریخ شاہد ہے کہ آج تک جتنے لوگوں نے فنا سے بقا تک کے سفر طے کیے ہیں وہ درود پاک اور سلام کے اوراد کا وظیفہ کر کے یہ سارے زینے چڑھے ہیں ان اوراد کی برکات اتنی زیادہ ہیں کہ کئی کتابیں لائبریریوں میں ان اوراد  سے بھری پڑی  ہیں مسلسل بحرِ درود میں رہنے والا شخص زیارتِ رسول ﷺ سے بھی فیض یاب ہوتا ہے اور دنیاوی و آخری مشکلات سے بھی بچتا ہے درود پاک کی عظمت سے سمیعہ ناز یوں معترف ہیں:۔

درود  پاک پڑھنے کا ثمر یہ خواب میں دیکھا

گلاب آکاش سے برسے عجب رنگیں رداوں میں

اعجازِ نعت اور عشقِ رسولؐ کا فیضان ان کو اشعار میں ایسے عنایت ہوتا ہے ملاحظہ فرمایے:۔

نبیؐ کی نعت رقم کی ہے جب بھی کاغذ پر

تو اس دیار کی تصویر چشمِ تر میں رہی

فکرِ رسا جب فکری نظافت کے ساتھ مل جائے تو شعر کی اسلوبیاتی صباحت یوں سماعتوں کو مستنیر کرتی ہے:۔

میرے منہ میں حلاوت سی گھلنے لگی

نام کس کا لبوں پر مرے  آ گیا

عاشقانِ رسولؐ تنہائی میں آنحضورؐ سے سرگوشیاں کرتے ہیں اور دل کے سارے معاملات پیش کرتے ہیں اس خوب صورت کیفیت میں ان کی سسکیاں اور آہیں رقصِ بسمل کی طرح ہوتی ہیں جو تڑپ اور کسک دل کے دریچوں کو چھوتی ہے وہ ایسا اظہارِ خیال بنتی ہے:۔

دل کے دکھڑے انہی کو سناتے ہوئے

آنکھوں  سے  موتیوں  کو بہایا کرو

یہ نہیں ہو سکتا کہ آنحضورؐ سے تو عشق ہو اور ان کے شہر کی گلیوں، درو دیوار،پہاڑوں اور خاک شفا سے محبت نہ ہو ہر عاشق حضورؐ کے شہر کی مٹی میں دفن ہونا چاہتا ہے سمیعہ ناز بھی اسی خواہش کا اظہار یوں کرتی ہیں :۔

چمکے  گا مقدر کا ستارہ مرا اس دن

جب خاک میں مل جاوں گی گلزار نبیؐ میں

آنحضور ؐ کی سیرت و کردار پر عمل پیرا ہونا ہی عظمت و رفعت کی دلیل ہے کیونکہ آپؐ کا اُسوہءحسنہ ہی بہترین نمونہ قرار دیا گیا ہے۔ اس شعر میں سمیعہ ناز کی فکری عفت دیکھیے:۔

حریم جاں میں بس جائے اسی کردار کی خوشبو

نبی کے عشق میں کچھ اس طرح مجھ کو فنا کر دے

زیارتِ رسولؐ سے سرفراز ناعت آنحضور کے شمائل و فضائل بھی لکھتا ہے اور ان کا سراپاءحُسن پیکر بھی نوکِ قلم کی سجدہ ریزیوں میں شامل کرتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام پر زنانِ مصر کی انگلیاں کٹی تھیں لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تو کئی مبارک سر کٹے ہیں اور آج تک کٹ رہے ہیں اور کٹتے رہیں گے حسنِ مصطفیٰ  ﷺکا عاشق تو خود خدا ہے بندوں کی مودت بھی دیدنی ہے سمیعہ ناز بھی اپنا حسنِ عقیدت یوں لکھتی ہیں:۔

نگاہوں میں مری کوئی حسیں چہرہ نہیں جچتا

زیارت  خواب میں جب  سے ہوئی  یا مصطفیٰؐ تیری

آنحضور ؐ کے در پر پہنچنے والا عاشق ہی مقدر کا دھنی ہوتا ہے کیونکہ آپؐ کے در سے بڑا در اللہ پاک نے خلق ہی نہیں کیا۔ یہی منزلِ مقصود ہے اور یہی کامیابی کی دلیل ہے جس نی یہاں تک رسائی حاصل کر لی وہ مقبولِ نظر ہو گیا۔ اس شعر میں اظہار خیال سے لطف لیجیے:۔

وہی منزل کو پہنچا ہے ، اسی نے پائی ہے رحمت

محبت جس نے بھی دل میں بسائی آپؐ کے در کی

نبیلِ فکر جب اوجِ مدحتِ مظہرِ انوارِ حق ، مصدرِ اسرارِ حق اور صاحب قاب و قوسین کے عشق میں بقا پاتی ہے تو جدتِ خیال کے ریشمی تبسم کو لطیف حسن و رعنائی کے ساتھ قرطاس کے سینہ پر یوں گلابوں کے ہار کی طرح سجاتی ہیں:۔

خاورِ دل سے ہوا نعت کا خورشید طلوع

نا امیدی میں ہوئی صبح کی امید طلوع

الفاظ کی گلرنگ برساتیں قاری کے قلب و نظر کو ایسا زرخیز بناتی ہیں کہ علم و ادب کے کئی نئے در وا ہوتے ہیں اور ایک شعر پورے ایک واقعہ کو بیان کر دیتا ہے سرکارِ دو جہاں کا ناعت ہونا بہت بڑا اعزاز ہے چونکہ نعت ” ورفعنا لک ذکرک ” کے فصیح و بلیغ ذکر کرنے والوں کے زمرے میں آتا ہے اس لیے خوش بختی اُس کے قلب و نظر پر  خدا کی طرف سے ایک خصوصی عنایت ہوتی ہے جو کہ ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتی ۔ مدحت کی عنایت سمیعہ ناز کو دوسرے شعرا سے ممتاز کرتی ہے اس لیے اُس کے نگار خانہ ء شعر میں  اظہار شوق کی شائستگی یوں مسکراتی ہے :۔

مدحت کا یہ صلہ مرے مالک نے دے دیا

محفل میں نعت خوان پکاری گئی ہوں میں

اظہاراتی عفت میں جب انابیبِ شعری اور اسلوبیاتی صباحت مل جائیں تو خیالات میں برجستگی اور سلاست پیدا ہوتی ہے اور روح کو ایک نادیدہ ناہیدِ ارم سے ملاتے ہیں اور شاعر دل ہی دل میں سیدِ ابرار، حبیبِ غفار، محبوب ستار، خاصہء کردگار، شافع یوم قرار، اور آفتابِ نو بہار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مودت میں علم و آگہی کے موتی سمیٹتا جاتا ہے اور دل میں خیالات کے دھنک رنگ اور اشعار میں دعا ایک لطیف صورت لے کر لبوں پر رقصِ رعنائی کرتی ہے جس کو اس شعر میں دیکھیے  :۔

یہی ہے آرزوئے ناز بس اب اپنے مولا سے

لوائے حمد کا سایہ میسر روزِ محشر ہو

شاعری کے معیار میں خیال، وزن ،بحر، قافیہ، ردیف استعارہ ،کنایہ وغیرہ کے علاوہ صنعتوں کا استعمال دیکھا جاتا ہے سمیعہ ناز کو قدرت نے اس فن سے بھی مالا مال کیا ہے سمیعہ ناز کے نگار خانہء شعر میں ڈھلے فن پاروں کے عکس ہائے جمیل کی ضیا آفرینی کو چھانا جائے تو صنعت تلمیح مسکرا مسکرا کر قاری کی توجہ حاصل کرتی ہے درج زیل اشعار میں صنعت تلمیح کا حُسن آفریں استعمال دیکھیے:۔

 لگے دینے رسالت کی شہادت بند مٹھی میں

ملا جب اذن گویائی تو کنکر بھی صراحت سے

وہ چشمہ آب کا آقاؐ کی انگلی سے ہوا جاری

کیا جس کو سبھی لوگوں نے نوشِ جاں محبت سے

چلیں جس راہ پر آقا وہاں کے فاصلے کم ہوں

زمیں جیسے سمٹ جائے مرے آقاؐ کی عظمت سے

مرے آقاؐ ہی لائے ہیں یہ عرشِ پاک کا تحفہ

جو پانچوں وقت کی معراج ملتی ہے عبادت سے

وہ رستے بھی معطر ہوں جہاں سے ہو گزر اُن کا

کریں وہ ناز قسمت پر مرے آقاؐ کی نسبت سے

آخر میں سمیعہ ناز کے لیے میری ڈھیر ساری دعائیں ہیں کہ اللہ پاک ان کے ذوق و شوق میں مزید اضافہ فرمائے۔

مستقل لکھاری | تحریریں

میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ہرو کنارے پنجابی مشاعرہ

جمعرات اپریل 15 , 2021
دریائے ہرو کے پر فضا مقام پر کاروان قلم اٹک کے زیر اہتمام پنجابی زبان کے کیمبلپوری لہجے میں 31 مارچ کو ایک محفل مشاعرہ منعقد کیا گیا
River Harao By Jahangir Bukhari

مزید دلچسپ تحریریں