شعورو ادراک حیدر قریشی نمبر

سید نصرت بخاری

شعورو ادراک حیدر قریشی نمبر

ہزار کام مزے کے ہیں داغ الفت میں

جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں

آج کل عام تاثر یہی ہے کہ رسالے کی اشاعت گھاٹے کا سودا ہے۔لیکن یہ رائے قائم کرنے والوں کو عشق کی وہ کہکشاں دکھائی نہیں دیتی جو رسالہ چھاپنے والا دیکھ رہا ہوتا ہے۔اگر اپنی جیب سے خرچ کر کے چند موضوعات  و شخصیات کو صدیوں تک محفوظ کر لینا گھاٹے کا سودا ہے تو پھر دوسروں کی جیب کاٹ لینے کو یقیناََ فائدہ مند سمجھا جائے گا۔میں نے اپنے ضلع کی صحافت پر ایک تحقیقی کتاب”ضلع اٹک کے اخبارات و رسائل “لکھی ہے؛اس کتاب کو مرتب کرتے ہوئے مجھے بار بار یہ خیال آتا رہا کہ اخلاص اور محبت سے کیا گیا کام ضائع نہیں جاتا؛جس نے اخلاص سے کسی اخبار یا رسالے کی ایک بھی اشاعت چھاپی ہو ،اہل انظر اور اہل دل کے ہاں اسے شرف قبولیت حاصل ہوتا ہے۔میں چونکہ خود ایک رسالے”ذوق”کا مدیر ہوں ،اس لیے غیر منافع بخش ہوتے ہوئے بھی رسالے کی اشاعت کے ان مفیدمخفی پہلوئوں سے آگاہ ہوں جو سطحی نظر رکھنے والے کو دکھائی نہیں دیتے؛جن میں سب سے بڑا فائدہ”تسکین”ہے؛لیکن اس کے لیے ایک شرط ہے؛وہ یہ کہ مدیر میں”انتخاب “کی صلاحیت اور شعوربہ درجہ اتم ہونے چاہیے۔یہی وہ خوبی ہے جو کسی رسالے کی قدروقیمت کی ضمانت ہے۔”نقوش” کےمحمد طفیل،”فنون” کے احمد ندیم قاسمی اور “اوراق” کے ڈاکٹر وزیر آغا اس کی مثالیں ہیں۔

شعورو دراک کے مدیر محمد یوسف وحید غالباََ ان مفید مخفی پہلوئوں سےآگاہ ہیں ، تب ہی تو ان کے حوصلے نہ صرف بلند ہیں بلکہ وہ “شعوروادراک”کو مزید ترقی دینے کے لیے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ “شعوروادارک”کی علمی خدمات کو “ہائیر ایجوکیشن کمیشن “تسلیم کرے۔”شعور و ادارک”کے”حیدر قریشی: گولڈن جوبلی نمبر”کا مطالعہ کر کے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ محمد یوسف وحید اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

shaoor o idraak haidar qureshi number

حیدر قریشی صاحب سے میری دوستی سات آٹھ سال پرانی ہے۔میں ان کی تمام کتب کا مطالعہ کر چکا ہوں۔میں انھیں ان ادیبوں میں شمار کرتا ہوں جو حق سچ بیان کرنے میں پس و پیش نہیں کرتے ۔”ماہیا “کے حوالےسے ان کا کام بہت وقیع ہےجس کا اعتراف “شعور وادراک”کی انتظامیہ نے بھی کیا ہے۔مندرجہ بالا سطور میں میں نے کہیں لکھا تھا کہ مدیر کو تخلیقی،تنقیدی اور تحقیقی موضوعات کے انتخاب کا شعور ہونا چاہیے؛”شعورواداراک”میں شامل موضوعات مدیر کے باشعور ہونے کی دلیل ہیں۔مشمولہ انتخاب نہ صرف حیدر قریشی کی ادبی حیثیت کا اعتراف ہے بلکہ ادب کی دیگر اصناف پر کام کرنے والوں کے لیے بھی بہت مفید ہے۔مثلاََ:دیار غیر میں اردو پر تحقیق کرنے والوں کے لیے ڈاکٹر انورسدید کا مضمون “جرمنی میں پاکستان کا ادبی اور تہذیبی سفیر:حیدر قریشی”بہت کار آمد ہو گا۔روداد نویسی،نظم نگاری اور انشائیہ جیسے موضوعات پر لکھنے والوں کے لیے بھی اس شمارہ میں بہت کچھ ہے۔”اردو ادب اور الیکٹرونک میڈیا”ایسا مضمون ہے جس کی اہمیت اور افادیت میں کبھی کمی نہیں آئے گی کیونکہ اس میں ادب کے اس ارتقا کے متعلق وہ گفتگو کی گئی ہے،جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کی۔

حیدر قریشی کے خطوط کے حوالے سے تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔”بنام حیدر قریشی”: محمود ہاشمی کا اپنا خط ہے،اس سے حیدر قریشی کے فن، شخصیت  اور اسلوب  کا کوئی تعلق نہیں۔رسالے میں انٹرویو منتشر صورت میں ہیں۔بہتر ہوتا اگرانٹرویو کا باب قائم کر کے تمام مکالموں کو اس باب میں رکھا جاتا ؛بہر حال محمدیوسف وحیدداد کے مستحق ہیں کیونکہ  مدیر ایک ہوتا ہے اور پڑھنے والے سیکڑوں ہوتے ہیں،ہر ایک کی خواہشات کی تکمیل مدیر کے لیے ممکن ہی نہیں ہوتی۔

تحریریں

ایم فل
پروفیسر اردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اٹک

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

امریکی ڈالر کے نشان $ کی اصل

ہفتہ مئی 22 , 2021
امریکی کرنسی پر یہ علامت نہیں چھاپی جاتی شاید آپ نے کبھی غور کیا ہو
heap of different nominal per dollars

مزید دلچسپ تحریریں