قطب بہرائچ سیّد امیر ماہ بہرائچیؒ

سیّد افضل الدین ابو جعفر امیر ماہ بہرائچیؒ کو بہرائچ میں سیّد سالار مسعود غازیؒ کے بعد سب سے زیادہ مقبولیت وشہرت حاصل ہوئی۔آپ کی پیدائش بہرائچ میں ہوئی ۔آپ کی سن ولادت کسی کتاب میں نہیں ملتی ۔
پروفیسر خلیق احمد نظامی(علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) لکھتے ہیں :
میر سیّد امیر ماہ ؒبہرائچ کے مشہور ومعروف مشائخ طریقت میں تھے۔ سیّد علاء الدین المعروف بہ علی جاوریؒ سے بیعت تھی۔آپ نے وحدت الوجود کے مختلف مسائل پر رسالہ ’’المطلوب فی العشق المحبوب ‘‘لکھا تھا ۔فیروز شاہ جب بہرائچ گیا تھا توان کی خدمت میں بھی حاضر ہوا اور ’’بسیار صحبت نیک دگرم برآمد‘‘۔فیروز شاہ کے ذہن میں مزار (حضرت سیّد سالار مسعود غازیؒ ) سے متعلق کچھ شبہات بھی تھے ،جن کو سیّد امیر ماہ ؒنے رفع کیا ۔ عبد الرحمن چشتیؒ (مصنف مرأۃ الاسرار) کا بیان ہے کہ اس ملاقات کے بعد فیروز شاہ کا دل دنیا کی طرف سے سرد پڑگیا تھا، اور اس نے باقی عمر یاد الٰہی میں کاٹ دی۔ (سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات ص ۴۱۴)

amir mah bahrachi
( تصویر جنید احمد نور 2017ء)درگاہ حضرت سیّد امیر ماہ بہرائچی


مولانا حکیم عبدالحئ ندویؒ ’’نزھتہ الخواطر ‘‘میں لکھتے ہیں :
شیخ محمد بن نظام الدین بن حسام الدین بن فخرالدین بن یحییٰ بن ابی طالب بن محمود بن علی بن یحییٰ بن فخرالدین بن حمزہ بن حسن بن عباس بن محمد بن علی بن محمد بن اسماعیل بن جعفر حسینی(امام جعفر صادقؒ)۔ابو جعفر کنیت امیرماہؒ کے نام سے مشہور بڑے مشائخ میں سے تھے۔طریقئہ سلوک شیخ علاء الدین حسینی جیوری سے طے کیا اور انھیں سے خرقہ فقیری پہنا۔اور شیخ کوجمال الدین کوئلی کی صحبت اختیار کی اور ان سے بھی راہِ طریقت اختیار کیا ۔آپ کی تصنیف کردہ کتابوں میں سے’’ المحبوب فی عشق المطلوب معارف ‘‘فارسی زبان میں ہے۔اسکی تصنیف فیروز شاہ (تغلق) کے زمانے میں کی تھی۔جبکہ فیروز شاہ تغلق نے آپ سے شہر بہرائچ میں ملاقات کی اور فیض بھی حاصل ۔سیّد اشرف جہانگیر سمنانی ؒ بھی اسی شہر میں آپ سے ملے اور انکے فضل و کمال کے معترف ہوئے جیسا کہ ’’مرآۃ اسرار ‘‘میں موجو دہے ۔ مہر جہاں تاب میں لکھا ہے کہ وہ (امیرماہؒ)فیروز شاہ کے زمانے میں وفات پاگئے تھے۔ (نزھتہ الخواطر ،جلد ۳،ص۲۰۳)
مخدوم سیّد معین الحق جھونسوی ؒ لکھتے ہیں :
حضرت امام جعفر صادقؑ کے بڑے صاحبزادے سیّد اسمٰعیل اعرج تھے۔جو والد ماجد کی حیات میں ہی وفات کر گئے ۔سیّد اسمٰعیلؒ کے دو صاحبزادے تھے ۔۱۔سیّد علی اکبر جن کی اولادوں میں مخدوم سیّد اشرف جہانگیر سمنانی ؒ بن سلطان ابراہیمؒ آتے ہیں۔ اور میر سیّد علاء الدین ہیں جن کی قبر اطہر اودھ میں ہے ۔ان دونوں بزرگوں کا سلسلئہ نسب میر سیّد علی اکبر بن میر سیّد اسمٰعیل بن حضرت امام جعفر صادقؒ منتہی ہوتا ہے۔ حضرت میر اسمٰعیل اعرج کے دوسرے صاحبزادے میر سیّد محمد ہیں ۔جن کی نسل سے حضرت سیّد ابوجعفر امیرماہؒ بہرائچی ہیں۔آپ سلسلئہ کبرویہ سہروردیہ میں حضرت میر سیّد علاء الدین جیوری ؒ کے مرید و خلیفہ تھے۔حضرت سیّد ابوجعفر امیرماہؒ کا نسب بھی اس طور سے حضرت میر سیّد اسمٰعیل اعرج تک پہنچتا ہے۔(منبع الالنساب ،جھونسوی، ۲۰۱۰ء،ص ۳۴۸)
صاحب ’’مراۃ اسرار‘‘ عبد الرحمن چشتی لکھتے ہیں کہ سیّد اشرف جہا نگیر سمنانیؒ نے جس کتاب میں ہندستان کے تمام سادات کا ذکر کیا ہے ۔اس میں لکھتے ہیں :
سادات خطۂ بہرائچ کا نسب بہت مشہور ہے ،سادات بہرائچ میں سیّد ابو جعفر امیر ماہ ؒ کو میں نے دیکھا ہے ،وادی تفاوت میں بے نظیر تھے،سیّد شہید مسعود غازیؒ کے مزار کی حاضری کے موقع پر میں اور سیّد ابوجعفر امیرماہؒ اور حضرت خضر ؑساتھ ساتھ تھےان کی مشیخت کےاکثرحالات کےلئےمیں نےحضرت خضرؑکی روح سےاستفادہ کیاہے۔سیّدامیرماہ ؒمزارکازیارت گاہ خلق ہے۔ (مرأۃ الاسرار ۱۹۹۳ء، ص ۹۲۹)

masjid
مسجد درگاہ امیر ماہ بہرائچی رحمہ اللہ


صاحب مرأۃ الاسرار عبد الرحمن چشتیؒ نے حضرت سیّد امیر ماہ رحمۃ اللہ علیہ کے تفصیل سے حالات لکھے ہیں:
’’عارف پیشوائے یقین مقتدائے وقت میر سیّد امیر ماہ بن سیّد نظام الدین قدس سرہ،آپ کا شمار کاملین ِروزگار وبزرگان صاحب اسرارمیں ہوتا ہے۔آپ شانِ عظیم وکرامات، وافر وحالِ قوی وہمت بلند کے مالک تھےآپ کے والد میر سیّد نظام الدین شہر کے عالی نسب سادات میں سے تھےاورحادثٔہ ہلاکو خاں کے وقت ہندوستان تشریف لائے۔آپ بہرائچ میں مقیم ہوئےاور اسی جگہ وصال پایا۔‘‘
سیّد امیر ماہ ظاہری علوم حاصل کرنے کے بعد میر سیّد علاؤالدین جاوری کی خدمت میں جاکر مرید ہو گئے اور کمالات ظاہری و باطنی سے بہرہ مند ہوئے۔کچھ عرصہ بعد سلسلۂ سہروردیہ کا خرقٔہ خلافت حاصل کیا اور مسند ارشاد پر متکمن ہوئے۔قطب اولیا شیخ نظام الدین الو المویدؒ جن کا مزار قصبہ کولی میں واقع ہے کے پسرزادے شیخ جمال بھی ان کے مرید تھے۔میر سیّد علاؤالدین جاوریؒ ،شیخ شہاب الدین عمر سہروردیؒ کے اکمل خلفاء میں تھے ،اور بڑے صاحبِ کمال تھے۔آپ سلطان المشائخ کے ہم عصر تھے اور آپ کی عمر دراز تھی۔آپ کا مزار موضع جاور میں ہے جو دہلی کے قریب ہے۔سیّد امیر ماہؒ ظاہری و باطنی سفر کے بعد بہرائچ میں مسندِ ارشاد پربیٹھے اور خلقِ خدا کو فیض پہنچایا۔
شیخ عین الدین قتال بن شیخ سعد اللہ کیسہ دار کنتوریؒ نے بھی سیّد امیر ماہ ؒ سے تربیت حاصل کی تھی۔
آپ کیتصانیف کے سلسلہ میں صرف ایک کتاب ’’المطلوب فی عشق المحبوب‘‘ نامی رسالہ کا ذکر ملتا ہے جو بعہد سلطان فیروز شاہ تغلق کی ہے۔ اس رسالہ کے پہلے باب در بیان عشق کا کچھ حصہ مصنف مرأۃ الاسرار نے نقل کیا ہے اور کچھ حصہ حضرت مولانا شاہ نعیم اللہ بہرائچیؒ نے اپنی کتاب ’’معمولات مظہریہ ‘‘میں نقل کر کے سالک کے کچھ درجے اور مقامات بتائے ہیں۔
مصنف مرأۃ الاسرار نے نقل کیا ہے کہ ’’اے عزیز آدمؑ کو سلطان ِ عشق نے اس دن منہ دکھایا جب وہ بہشت سے باہر لائے گئے اور دنیا میں تنہا چھوڑ دیا ۔نوحؑ کوسلطان ِ عشق نے طوفان کے اندر کشتی میں منہ دکھایا۔یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ میں ۔ابراہیمؑ کو آگ میں پھینکتے وقت۔یعقوبؑ کو اس وقت جب یوسفؑ ان سے جدا ہوئے۔یوسفؑ کو اس وقت جب وہ بازارِ مصر میں سترہ درہم کے عوض فروخت ہوئے۔موسیٰ ؑ کو اس وقت جب وہ مصر سے باہر نکلے اور فرعون ان کے پیچھے دوڑرہا تھا۔سلیمانؑ کو اس وقت جب ان کی انگوٹھی گر گئی اوران کے ملک سے باہر جا پڑی۔زکریاؑ کو اس وقت جب ان کے سرپر آرہ چلایا گیا اور حضرت محمد رسولﷺ کو اس روز سلطانِ عشق نے منہ دیکھا جب آپ ؐنے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔حسین بن منصور کو اس روز جب انہیں دار پر چڑھایا گیا۔عند القضاۃ ہمدانی کو اس وقت جب بوریا میں لپیٹ کر آگ میں پھینکا گیا اور اس رسالہ کو جمع کرنے والے کو(یعنی مصنف کو) اس روز سلطانِ عشق نے منہ دیکھا جب خطۂ بہرائچ میں جو اس فقیر کی جائے پیدائش ہے ،سپہ سالار سعد الدین مسعود غازیؒ کے پائنتی کتاب فرحت العاشقین کے مطالعہ میں مشغول تھا ۔اسی وقت خواجہ حضرت خضرؑ کی زیارت ہوئی،آپ نے ایک عالم کی صورت میں ہوا میں کھڑے ہو کر فرمایا :
اے فرزند ہوشیار ہو جاؤ لشکرِ عشق دوڑا ہوا آرہا ہے۔اسی ہفتہ کے اندر کفار کے لشکر نے جمع ہو کر بہرائچ پر حملہ کا اور گھروں کو جلا دیا۔خانقاہ میں بھی چند آدمی شہید ہوگئے اور اس فقیر کو بھی زد وکوب کیا ۔بلکہ عشق کی ضربیں منہ پر پڑیں جیسے کہ چاند کے منہ پر ہیں۔میں شکر بجا لایاکہ عشق نے اس فقیر کو منہ دکھایا ۔اس وجہ سے وہاں سے ترک سکونت کر کے اودھ چلاگیا۔ کیونکہ یہ عشق بازی ہے بلکہ جاں بازی ہے۔اس رسالے میں آپ نے اکثر اولیا اکرام کے حالات و مقالات بیان فرمائے ہیں۔ صاحب مراۃ الاسرار مزید لکھتے ہیں کہ آپ کے کمالات کا اس بات سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ سیّد امیر ماہ کا مزار بہرائچ کے خطہ میں زیارت گاہِ خلق ہے اور آپ کی اولاد اب تک وہاں آباد ہے۔ان میں سے میر سیّد احمد کو اس فقیر (مصنف کتاب مراۃ الاسرار) نے بادشاہ جہانگیر کے عہد میں دوسری مرتبہ دیکھا ۔بڑے نیک آدمی تھے۔اس وقت میر سیّد علاؤالدین اخلاقِ محمدی سے متصف ہیں اور اپنے اجداد کی مسند پر متکمن ہیں۔(مراۃ الاسرار ص ۹۲۵-۹۲۶)
معین احمد علوی کاکوروی اپنے رسالے ’’ میر سیّد امیر ماہ بہرائچیؒ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آپ کا زمانہ حضرت نصیر الدین محمود ؒ ’’چراغ دہلی‘‘ (متوفی ۷۵۷ھ) زمانے سے لیکر حضرت میر سیّد اشرف جہانگیر ؒ (متوفی۸۰۸ھ)تک ہے۔(میر سیّد امیر ماہ مطبوعہ ثانی ۲۰۱۵ء ص ۸)
پروفیسر اقبال مجددی (پاکستان)لکھتے ہیں کہ شیخ عبدالرحمٰن چشتی ؒ کے ایک بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ امیر ماہ ؒ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔لیکن انہوں نے ان کے صرف ایک رسالے ’’المطلوب فی عشق المحبوب‘‘کا ہی ذکر کیا ہے۔آپ کے اس رسالہ’’ المطلوب فی عشق المحبوب ‘‘کا ہندستان میں صرف ایک نسخہ موجود ہے۔جیسا کہ پروفیسر خلیق احمد نظامی نے اپنی کتاب ’’سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس کا ایک قلمی نسخہ میرے ذاتی کتب خانے میں ہے۔
پروفیسر اقبال مجددی نے اپنی تصنیف تذکرہ علماءو مشائخ پاکستان وہند (جلد اول)کے صفحہ ۶۴۳پر لکھتے ہیں :
اس رسالہ کے تین قلمی نسخے کتب خانہ داتا گنج بخش ؒ میں اور کوئٹہ میں سلطان الطاف علی کے کتب خانہ میں ایک قلمی نسخہ موجود ہیں ۔کوئٹہ میں موجود قلمی نسخہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امیرماہ ؒنے یہ رسالہ سلطان فیروز شاہ تغلق کے لیے تالیف کیا تھا۔لیکن اس رسالے کے دیگر خطی نسخوں سے یہ جملہ حذف ہو چکا ہے۔
تاریخ فرشتہ نے فیروز شاہ کے سفر بہرائچ کے تذکرہ میں امیر ماہؒ کا تذکرہ کیا ہے ، فیروز شاہ آپ کی بزرگی سے متاثر ہو کر آپ ہی کے ساتھ سیّد سالار مسعود غازیؒ کے مزار پر حاضر ہواتھا، راستہ میں سیّد صاحب سے حضرت سیّد سالار مسعود غازیؒ کی بزرگی وکرامات کے واقعات پوچھنے لگا، آپ نے فرمایا کہ’’ یہی کرامت کیا کم ہے کہ آپ کا ایسا بادشاہ اور میراایسا فقیر دونوں ان کی دربانی کر رہے ہیں ‘‘اس جواب پر بادشاہ جس کے دل میں عشق کی چاشنی تھی بہت محظوظ ہوا۔
حکیم مولوی محمد فاروق نقشبندی مجددی بہرائچیؒ آپ کی کرامت کے بارے میں لکھتے ہیں:
امیر ماہ بہرائچیؒ کی کرامتیں اہل بہرائچ میں میں بہت کچھ مشہور ہیں عوام ہنود و اہل اسلام کو خدا کی جھوٹی قسم کھانے میں باک نہیں مگر آپ کی چھوٹی قسم کھانے سے بہت ڈرتے ہیں۔موجودہ وقت میں بھی لوگ یہاں جھوٹی قسمیں نہیں کھاتے ہیں۔(سوانح سیّد سالار مسعود غازیؒ ص ۳)
اولاد کے سلسلہ میں صرف دو صاحبزادوں کاتذکرہ ملتا ہے ،جن سے خاندان پھیلا۔
(۱) حضرت سعید ماہ عرف چاند ماہ (۲) حضرت تاج ماہ۔
حضرت سعید ماہ کی زوجہ اولیٰ مدنی تھیں،ان کے چار بیٹے ہوئے ، سیّد علی ماہ ،سیّد جان ماہ ، سیّد عالم ماہ ،سیّد بڑے ماہ۔ دوسرے بیٹے حضرت تاج ماہ کا تذکرہ متعدد کتابوں میں ملتا ہے ۔آپ سب کی اولاد یں آج بھی شہر اورنگرور میں آباد ہیں۔
مرأۃ الاسرار کے مصنف نے بھی میر ماہ کے ایک صاحبزادہ سیّد تاج ماہ کا تذکرہ کیا ہے جو عمر میں سب سے چھوٹے تھے ، لکھتے ہیں:
’’عجب حالے قوی داشت ،دائم الخمر بود بطریق ملامتیہ رفتے وجمال ولایت خود رااز نظر اغیار پوشیدہ داشتے‘‘
اس کے بعد یہ واقعہ نقل کرتے ہیں کہ’’کسی زمانہ میں سیّد امیر ماہ بیمار پڑے تو بیٹے نے والد کی زندگی سے ناامید ہو کر بیماری سلب کر کے اپنے اوپر اوڑھ لی اور ’’جان در مشاہدۂ حق تسلیم کرد‘‘ میر محمد ماہ صاحب کو تو صحت ہوگئی ،مگر غمگین باپ کو لڑکے کی استعداد باطنی کا احساس ہوا اور فکر مند رہنے لگے ، اتفاقاً ایک دن ان کی قبر پر گئے تو دیکھا کہ ایک مجاور کی ہتھیلی پر ’’بخط سبز‘‘ یہ شعر لکھا تھا ، جب تک وہ زندہ رہا مٹا نہیں۔


بگو اے مرغ زیرک حمد مولیٰ
کہ جانِ تاج مہ بر عرش بروند

dargah

ترجمہ: اے داناپرندے خدا کی حمد کرو اور ان کو بتاؤ کہ تاج ماہ کی جان عرش پر لے گئے۔
تاریخ آئینہ ٔاودھ کے مصنف مولانا شاہ ابوالحسن قطبی والحسامی مانکپوری نے افسران کمشنری کے ساتھ اپنی ملازمت کے دوران سفر کیا ،خود۱۸۷۵ءمیں بہرائچ آئے اور یہاں کے لوگوں سے مل کر تحقیقات کر کے ایک پورے باب میں اس کی تفصیلات لکھی ہے ۔لکھتے ہیں:
ہلاکو خاں کے ہنگامۂ بغداد سے پریشان ہو کر ۶۵۷ھ مطابق ۱۳۵۸ء میں سیّد حسام الدین جد سیّد افضل الدین ابو جعفر امیر ماہ بہرائچی بغداد شریف سے جلا وطن ہو کر براہ غزنی لاہور آئے ، بعد قیام چند ے لاہور سے دہلی آئے ، اس وقت بادشاہ دہلی سلطان غیاث الدین بلبن تھا، اس نے آناآپ کا باعث یُمن سمجھ کر وظیفہ مقرر کردیا ،۷۴۳ھ میں جب محمد شاہ تغلق نے دہلی کو ویران کر کے دیو گڑھ دولت آباد دکن لیجانا چاہا اس وقت سیّد نظام الدین والد ماجد حضرت کے وہاں نہ گئےاور جانب اودھ متو جہ ہوئے ۷۴۴ھ میں سواد مقام بہرائچ پسند مزاج ہوا، اور طرح اقامت ڈالی۔ ۷۵۴ھ مطابق۱۳۵۳ء میں جب فیروز شاہ تغلق سفر بنگالہ سے وارد بہرائچ ہوا تو سیّد افضل الدین ابو جعفر امیر ماہ کا معتقد ہو کر چنددیہات واسطے صرف خانقاہ کے عطا ومعاف کئے، ان کے بیٹے سیّد تاج الدین ان کے سیّد مسعود ان کے سیّد احمد اللہ ،ان کے سیّد محمود ،ان کے سیّد مبارک ، ان کے سیّد ناصر الدین ، انکے سیّد نظام الدین ،ان کے سیّد رکن الدین ، ان کے سیّد علی الدین ، انکے سیّد غلام حسین ، ان کے سیّد غلام رسول ، اس وقت تک سب لوگ محی سنت آبائی کے رہ کر طریقۂ رشد وارشاد جاری رکھتے تھے۔اور اہتمام اعراس کا کرتے رہے ، جب ان کے بیٹے سیّد غلام حسین ثانی ہوئے ، ان کو ویسا فضل وکمال حاصل نہ تھا ، وہ طریقہ آبائی رشدو ارشاد ضعیف ہوگیا ، ان کے دو پسر غلام محمد وغلام رسول ثانی ۔ یہ معاصر تھے، نواب شجاع الدولہ بہادر کے ، بعد صلح بکسر کے جب صلح نامہ گورنمنٹ انگلشیہ سے ہوا تونواب ممدوح الذکر نے حکم ضبطی کل معافیات صوبۂ اودھ کا صادر کیا ، یہ دونوںبھائی بطمع بحالی معافی بہ تبدیل مذہب آبائی پابند مذہب امامیہ ہوگئے ، اس قدر فائدہ تبدیل مذہب سے ہوا کہ نصف معافی بحال اور نصف ضبط ہوگئی ،اس وقت سے بجائے اعراس کے تعزیہ داری کرنے لگے۔(آئینہ اودھ ص ۱۵۴-۱۵۵)
امیر ماہؒ بہرائچی کی وفات ۱۴؍ جون ۱۳۷۱ءمطابق۲۹؍ ذی القعدہ ۷۷۲ھ کوبہرائچ میں ہوئی تھی۔’’خزینۃ الاصفیاء‘‘میں معارج الولایت کے حوالہ سے لکھا ہے کہ میرسیّد امیرماہؒ نے۷۷۲ھ میں انتقال کیا ، ان کا مزار پر انوار محلہ وزیر باغ / چاندپورہ میں نزد نانپارہ بس اسٹینڈ شہر بہرائچ میں واقع ہے۔یہ علاقہ عرف عام میں امیرماہ ؒکے نام سے مشہور ہے۔آپ کی مزار بہرائچ میں خلق کی زیارت گاہ ہے۔آپ کی خانقاہ میں ایک عالیشان مسجد بھی ہے۔خزینتہُ الأ صفِیا ء میں مصنف نے یہ قطعہ وفات لکھی ہے
چوں شد میر مہ در بہشت بلند
بہ ترحیل آن شاہ روشن یقین

’’ یکی پیر مہتاب سیّد بگو‘‘
دگر کن رقم ’’ماہ روشن یقین‘‘

772ھ

معین احمد علوی کاکوروی صاحب نے اپنی تصنیف ’’ میر سیّد امیرماہ بہرائچی ‘‘میں آپ کی تاریخ وفات پر یہ قطعہ نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مولوی احمد کبیر صاحب حیرت ؔ وکیل عدالت ساکن قصبہ پھلواری ولد حاجی مولوی فرید کی ایک کتاب میں جس میں تمام مشاہیر کی تاریخہائے وفات کے قطعات ہیں مندرجہ ذیل قطعہ نظر سے گذرا ۔
ایں میرماہ عارف بداختر شہادت
بیں نام والد او حضرت نظام دین بود

بغداد بود اصلش بہرائچ ست مسکن
علم دوکون حاصل از اہل دردبنمود

بعد از وصال آں مہ حورے ہمیں دعارا
بادایں جناں منور از میر ماہ فرسود

772ھ

(میر سیّد امیر ماہ بہرائچیؒ مطبوعہ ثانی ۲۰۱۵ء ص ۱۷)
آئینۂ اودھ کا بیان ہے کہ’’ مزار شریف آپ کا جانب اتر کنارے آبادی بہرائچ اندر گنبد خشتی واقع ہے ،حوالی اس کے چاردیواری پختہ ہے، اور چار دیواری کے دروازہ پر ایک چھوٹی سی مسجد ہے انوارو برکات مزار شریف سے اس وقت تک پائی جاتی ہیں ،اور اہل باطن مالا مال فیضنسبت سے ہوتے ہیں‘‘
موجودہ زمانہ میں بھی زیارت گاہ خلق ہے ،محلہ کا نام بھی عرف عام میں امیر ماہ کے نام سے مشہور ہے ،اب یہ جگہ قلب شہر بن گئی ہے ،بازار مزار شریف تک پھیل گیا ہے ، چاروں طرف آبادی ہی آبادی ہے ،شمال مشرق جانب پرانے سر کاری اسپتال کی عمارتیں ہیں۔ جنوب ودکھن سے شمال کو ایک سڑک جاتی ہوئی پچھم جانب سرحد بناتی ہے ۔
موجودہ احاطہ کے اندر قدیم مسجد ہے جو موجودہ وقت میں توسع ہو کر ۳ منزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔اس کے علاوہ آپ کے مقبرہ کی بھی توسع ہوئی ہے اور اب نیاشاندار گنبد تعمیر کیا گیا ہے۔
آپ کاعرس ۲۹؍ماہ ذیقعدہ کو ہو تاہے ، صبح قرآن خوانی کے بعد قل ہوتا ہے ، شام کو قوالی کی محفل ہوتی ہے اور مغرب کے قریب گاگر اٹھا کر مزار پر نذرانہ عقیدت پیش کیا جاتا ہے ، دوپہر سےدیررات تک میلہ لگتا ہے ۔

Juned

جنید احمد نور

بہرائچ، اتر پردیش

تحریریں

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

حج ، کرونا ، خدشات اور وبائی تاریخ

پیر جولائی 12 , 2021
آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا حج کی اب تک کی تاریخ میں کبھی حج موقوف بھی ہوا؟
kaaba

مزید دلچسپ تحریریں