سیاسی پاگل خانہ

تجزیہ :

سیدزادہ سخاوت بخاری

سیاست تو پوری دنیاء میں کی جاتی ہے ۔ سیاست دان حصول اقتدار کے لئے آپس میں لڑتے جھگڑتے بھی ہیں اور الزام تراشیاں بھی کی جاتی ہیں لیکن پاکستانی سیاست نے جو رنگ اور ڈھنگ اختیار کیا ہے اس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔ ہمارے بعض  ساستدانوں اور ان کے ہم نواء یا زرخرید صحافی نماء مراثیوں نے ایسا اودھم مچا رکھا ہے کہ عوام کچھ بھی سمجھ نہیں پارہے کہ آخر ہو کیا رہا ہے ۔ کون سچا کون جھوٹا ۔ کس پہ اعتبار کریں کس کی بات کو جھٹلایا جائے ۔ گزرے ہوئے کل کچھ کہا گیا تو آج کچھ کہا جارہاہے ۔ جو کل سچ تھا آج مکمل جھوٹ اور آج کہی جانیوالی بات نہ جانے کل سچ مانی جائیگی یا نہیں ۔ اس بے ہنگم رقص میں افراد ہی نہیں ، اب تو کچھ ادارے بھی شامل ہوگئے ہیں ۔

سیاسی پاگل خانہ
Photo by Anete Lusina on Pexels.com

اللہ خیر کرے نہ جانے ہمیں کیا ہوگیا ہے ۔ سچ اور جھوٹ کو ملاکر ایسا حلیم تیار کیا جارہا ہے کہ جو بہ یک وقت ویجیٹیرین اور نان ویجیٹیرین ذائقہ دے رہا ہے کچھ سمجھ نہیں آرہی ، کھا کیا رہے ہیں اور ذائقہ کس چیز کا آرہا ہے

 مثال کے طور پر ،

رات کا کہا جاتا ہے ،

ایسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوگئی ہے

صبح کا بھاشن آتا ہے

ایسٹیبلشمنٹ کے بغیر یہ کام ہو ہی نہیں سکتا ۔

ایک صاحب کہتے ہیں

عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہے

تو

پڑوس سے آواز آتی ہے

جب تک عدلیہ کا احتساب نہیں ہوگا انصاف کا حصول ناممکن ہے ۔

وزیراعظم صاحب کہتے ہیں

سینیٹ الیکشن میں پیسہ چلا

مریم صاحبہ کہتی ہیں

پیسہ نہیں بھائی صاحب

ن لیگ کی ٹکٹ چلی

جبکہ زرداری صاحب اس بات پر ناراض ہیں کہ

گیلانی صاحب کو صرف 5 ووٹ ہی کیوں زیادہ ملے

ہم تو 20 پچیس کی امید رکھتے تھے ۔

الیکشن کمیشن کہتاہے

ہم پہ دباؤ مت ڈالیں

اس سے بہتر الیکشن ہو نہیں سکتا ۔

وزیراعظم جوابا فرماتےہیں

اگر یہ بہترین ہےتو

 نہ جانے برا کیسا ہوگا ۔

اپوزیشن اسمبلی کا بائیکاٹ کرتی ہے لیکن

ن لیگ کے کچھ لوگ اسمبلی کے باہر جاکر پریس کانفرنس شروع کردیتےہیں ۔ بات نعرے بازی سے آگے بڑھ کر لاتوں ، مکوں ، گالی گلوچ اور جوتے پر جاکر ختم ہوتی ہے ۔

لاھور سے ایک ممبر قومی اسمبلی خالص لاھوری لہجے میں نپی تلی گالیاں سناتے ہیں

ایک سابق وزیراعظم فرماتے ہیں

مرد ہو تو سامنے آؤ

اسٹریچر پر نہ بھیجوں

تو گلہ کرنا

عجیب تماشا ہے

سیاست ہورہی ہے

یا گلی محلے میں

گلی ڈنڈا کھیلا جارہاہے

ایسا محسوس ہوتا ہے کسی

پاگل خانے میں آگئے ہیں ۔

بڑا ہی مشکل مرحلہ ہے

قوم خانوں اور گروھوں میں بٹ کر ھجوم کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔

اس سے قبل بھی اپنے مضامین میں لکھ چکا ہوں کہ

پرانی قوموں کی تاریخ پڑھیں

اس سے سبق حاصل کریں

جب ہلاکو خان بغداد میں

داخل ہوا تو وہاں کے مسلمانوں کا یہی حال تھا

اور اسی کم زوری سے فائدہ اٹھاکر

اس نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی ۔

ہلاکو کی بات تو بہت پرانی ہے

ابھی چند برس قبل اس دور کے چنگیز خان نے جب دیکھا کہ عرب و عجم آپس میں گتھم گتھا ہیں تو

وہ شام و عراق پر چڑھ دوڑا اور آج ان ملکوں اور قوموں کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں  ۔ لھذا ہماری سلامتی اور بقاء اسی میں ہے کہ

پاکستان کو

سیاسی پاگل خانہ نہ بنایا جائے ۔

Syedzada Sakhawat Bukhari

سیّدزادہ سخاوت بخاری

سرپرست اعلی

اٹک ویب میگزین

تحریریں

شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ہُوں گُھگِھی ہُوں

اتوار مارچ 7 , 2021
گُھگھی(فاختہ) دو قسم نیں پکھیروآں آکھنن ہِک بالکل کلبوترے نے جُسے نے برابر ہونی تے اس نے گلے اتے کالے رنگے نی گانی ہون
gray dove perching on tree branch

مزید دلچسپ تحریریں