میرا گاؤں غریب وال – 2

گاؤں کی گلیاں:۔

گاؤں کی گلیاں82 ۔1981 میں یونیسف ادارے کے تعاون سے بنی تھیں جو کہ اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ووٹ لینے والے وعدہ کرتے رہے ہیں لیکن ووٹ کے بعد گاؤں سے چشم پوشی کرتے ہیں جس کی وجہ سے گاؤں کی گلیاں انتہائی خراب ہیں جن کی مستقبل میں بھی ٹھیک ہونے کی امید نہیں ہے۔ کیوں کہ سیاسی لحاظ سے عوام میں اتفاق نہیں ہے۔

بجلی کی منظوری :۔

 بجلی 1963 میں شکار پر آئے ہوئے جنرل ایوب خان سے ملک مظفر خان نے منظور کرائی تھی گاؤں میں ٹرانسفارمرز ملک صاحبان کے گھروں کے قریب لگائے گئے جس کی وجہ سے لو ولٹیج کا مسئلہ رہا۔ مدینہ مسجد کے تعمیر کنندہ منظور حسین عرف  صاحب نے درخواست دے کر ایک ٹرانسفارمر اپنے محلے میں لگوایا باقی گاؤں میں اب تک لو وولٹیج کا مسئلہ ہے لیکن حل نہیں کیا جا رہا۔

گیس کی منظوری:۔

  گیس کی منظوری  2007 میں ملک سمین خان نے کرا کر دی۔ جو کہ ان کا منفرد کام ہے

واٹر سپلائی:۔

واٹر سپلائی کا کام ملک مظفر خان کے توسط سے ہوا۔ کیونکہ 1981 میں جب میجر اکبر نرگھی ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے تو انہوں نے غریبوال کی واٹر سپلائی کا یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ اس گاؤں میں  چار جُھگیاں ہیں پانی کی ان کو کوئی ضرورت نہیں ہے تو ملک مظفر خان نے لاہور سیکرٹریٹ میں جا کر اس کی منظوری کرا لی اور گاؤں کو پانی سے سیراب کیا۔ جو کچھ عرصہ چل کر خراب ہوگیا اور سیاست گردی کا شکار ہو گیا جو اب ملک عمران نے منظور کرا کر گاؤں کو دوبارہ مہیا کیا۔

قبرستان:

حضرت معصوم بادشاہ ؒ کے مزار کے مغرب کی طرف غیر سادات کا قبرستان جبکہ مزار کے جنوب کے طرف سادات کا قبرستان ہے دونوں کی ٹوٹل لمبائی 116 کنال اور 19 مرلے ہے۔ جن میں لینڈ کمیشن نے 55 کنال اور باقی ملک مظفر خان نے وقف کی ہے ۔لمبائی چوڑائی رجسٹرڈ ہے جس پر کوئی بندہ تعمیر وغیرہ نہیں کرسکتا ۔

مزارات:۔

غریبوال میں مندرجہ ذیل مزارات ہیں ۔

 ا۔ حضرت معصوم بادشاہؒ:۔

حضرت معصوم بادشاہ ؒ ابن چھانگلا ولی موج دریا رحضرت معصوم بادشاہ ؒ ابن چھانگلا ولی موج دریا ؒ کا سلسلہءنسب 26 پشتوں کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔ آپ سلسلہ بخاریہ کے مادر زاد ولی تھے۔ آپ کا مزار تحصیل پنڈی گھیب کے گاؤں غریب وال میں انوار بانٹ رہا ہے۔

حضرت معصوم بادشاہ ؒ ابن چھانگلا ولی موج دریا ؒ
حضرت معصوم بادشاہ ؒ ابن چھانگلا ولی موج دریا ؒ

حضرت رحمت اللہ شاہ بخاری المعروف چھانگلا ولی موج دریا ؒ نے دو شادیاں کیں جن میں ایک سیّد زادی سے جبکہ دوسری شادی  اعوان قوم کی گوت بگدیال سے کی تھی جن سے اولاد نہ ہوئی سیّد زادی سے آپ کو اللہ پاک نے چھ بیٹوں شہزادہ حضرت علی اصغر المعروف معصوم بادشاہ ؒ آنڑاں پیر ، شہزادہ حضرت علی اکبر ؒ المعروف کنج کنوارہ پیر ، حضرت سید حاجی امام ؒ، سید شاہ محمد غوث ؒ ،سید محمد شاہ لہری اور سید جند وڈا ؒ تھے چار بچوں سے اولاد نہیں ہوئی جبکہ حضرت سید شاہ محمد غوث اور حضرت سید حاجی امام ؒ سے موج دریا ؒ     کی نسل چلی۔

حضرت علی اصغر ؒ   جو کہ معصوم بادشاہ کے نام سے مشہور ہیں آپ مادر زاد ولی  متولد ہوئے آپ کو پرانے زمانے کے لوگ ” آنڑاں پیر “کے نام سے پکارتے تھے جبکہ غریبوال تحصیل پنڈی گھیب میں آپ کے روضہ مبارک پر آپ کا نام سیّد غوث شاہ لکھا ہوا ہے آپ حضرت رحمت اللہ شاہ کے ایسے فرزند ہیں جنھوں نے پیدا ہوتے ہی حضرت بی بی مریم علیہ السلام کے بیٹے حضرت عیسی علیہ اسلام کی سنت ادا کی اور کلام فرمایا کیونکہ جب آپ کی ولادت ہوئی تو اس وقت آپ کے والد گھر میں موجود نہیں تھے آپ علیہ رحمہ مریدین میں گئے ہوئے تھے یہ واقعہ میری دادی اماں بی بی ستاراں نے ہمیں اس طرح سنایا ہے ” جب معصوم بادشاہ پیدا ہوئے تو ناڑ کاٹنے کے لیے چھری کی ضرورت پیش آئی تو سارے گھر میں چھری ڈھونڈنے کے باوجود نہ ملی دائی اماں نے جب آپ کی والدہ ماجدہ کو بتایا کہ ناڑ کاٹنے کے لیے چھری نہیں مل رہی تو آپ کی والدہ بھی پریشان ہو گئیں والدہ کی پریشانی دیکھی تو آپ نے فورا کہہ دیا کہ چھری آٹا پیسنے والی چکی کے نیچے پڑی ہے آپ کی والدہ اور دائی جہاں حیران ہوئیں وہاں خوشی کی انتہا نہ رہی کہ بچہ مادر زاد ولی ہے اور کس طرح بول پڑا ہے بہرحال دائی نے چکی کے نیچے دیکھا تو چھری واقعہ ہی وہاں پڑی تھی آپ نے چھری لی اور ناڑ کاٹی اور باقی رسوم بچے کی ادا کیں۔

جب آپ کے والد گھر تشریف لائے تو ان کی زوجہ اور بچے کی دائی نے آپ کو مبارک باد دی آپ نے خیر مبارک کہا اور ساتھ ہی دونوں نے کرامت کا ذکر کیا کہ معصوم بادشاہ نے چھری نہ ملنے پر چھری کی خبر دی ہے۔ آپ کے والد خوش ہوئے اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا برخوردار میرا انتظار بھی نہ کیا اور میری زندگی کے اندر ہی کرامت دکھا ڈالی۔ چونکہ ایک جگہ دو ولی نہیں رہتے اس لیے بتاو کہ اب دائی لو گے یا مائی ۔ دونوں میں سے ایک لے کر غریبوال گاؤں میں جا کر سکونت اختیار کر کے اپنا فیض تقسیم کرو۔ معصوم بادشاہ نے کہا کہ مائی سے ابھی اور بچے دنیا میں آنے ہیں اس لیے مجھے دائی دے دیں میں غریب وال چلا جاتا ہوں ۔

دائی اماں ملنے کے بعد آپ زیارت سے پرواز  کرکے غریبوال آ گئے سب سے پہلے آپ نے جس جگہ قیام کیا  وہ اب میرا گھر ہے اس جگہ قیام کے بعد گاؤں کے دو اور مقام پر رہے اور پھر آخر تک جہاں اب  مزار ہے وہیں پر آپ کا بسیرا رہا”

 ہماری دادی اماں کہتی تھیں کہ گاؤں کے مستری خاندان کے ایک نیک دل شخص کی خواب میں معصوم بادشاہ آئے اور کہا کہ ہماری قبر بنا دو بزرگ اٹھا لیکن بات سمجھ میں نہ آئی دوسرے دن پھر خواب میں آئے  اور  فرمایا میری اور میری دائی اماں کی قبر بنالو صبح اٹھ کر مستری پریشان ہوا لیکن بات سمجھ میں نہ آئی گھر والوں کو خواب سنایا تو انہوں نے کہا کہ آج خواب آے تو پوچھو کہ آپ کون ہیں اور کہاں آپ کی قبر بناوں چنانچہ مستری سویا خواب میں معصوم بادشاہ پھر آئے  اور فرمایا  تیسرے دن سے کہ رہا ہوں کہ ہماری قبر بناو مستری نے پوچھا کہ آپ کون ہیں اور کہاں پر آپ کی قبر بناوں تو آپ نے فرمایا کہ میں چھانگلا ولی موج دریا رحمت اللہ  شاہ بخاری کا بیٹا ہوں اور ساتھ ہی میری دائی اماں ہیں مستری نے پوچھا کہ قبریں کہاں بناوں تو آپ نے فرمایا کہ گاؤں کی مغرب کی طرف جانا سفید رنگ کی زمین میں دو دراڑیں پڑی ہوں گی اور ان میں سے دو کپڑے باہر نکلیں ہوں گے وہاں پر ہمارا مسکن ہے مغرب کی طرف دائی اماں کی اور مشرق کی طرف میری قبر بنانا۔ مستری خواب سے بیدار ہوا تو اس نے گھر والوں کو پورا خواب سنایا ۔خواب سن کر سب گھر والے صبح سویرے گاؤں کی مغرب والی طرف گئے تو دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے زمین میں دو دراڑیں پڑی تھیں جن میں سے دو کپڑے باہر نکلے ہوئے تھے ایک مردانہ کپڑا جبکہ دوسرا زنانہ کپڑا تھا مستری اور اس کے گھر والوں نے مل کر دو قبریں بنا دیں۔ ان قبروں کے ساتھ بعد میں کئی سادات دفن ہوئے جن میں معروف بزرگ بابا دامن شاہ بخاری علیہ رحمہ بھی ہیں۔

حضرت علی اصغر المعروف معصوم بادشاہ ؒ کی ظاہری طور پر تین ہی کرامتیں ہیں جن میں پیدا ہوتے ہی کلام کرنا, دائی اماں سمیت پرواز کرنا اور خواب میں آ کر مستری کو بتا کر زمین سے دو دراڑیں ظاہر کر کے دو کپڑے باہر نکال کر اپنی قبروں کی نشاندہی کرنا

اس کے علاوہ بے شمار کرامات کا اب تک ظہور ہو چکا ہے جس کے سینکڑوں بندے گواہ ہیں ہم چیدہ چیدہ کا ذکر کریں گے تا کہ اولیائے اللہ سے محبت کرنے والوں کا ایمان مزید مضبوط ہو جائے۔

مزار پر اژدھا کا آنااور اپنی دم سے صفائی کرنا

میرا دربار پر چڑیا کو مارنا اور یکمشت ١٠ سے ١۵ منٹ میں تین سانپوں کا دیکھنا جس کے تین گواہ سید مشتاق حسین بخاری اور میرے علاوہ سید نظار حسین شاہ بخاری ہیں۔

مزار کی تعمیر کرتے وقت زمین کا وسیع ہونا اس کے گواہ مستری غلام محمد مرحوم ،میرے بابا جان سید شاہ گل محمد ،میری دائی اماں ماسی راجاں مرحومہ اور چچا امید علی شاہ مرحوم اور میں خود ہوں۔

بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے زیارت پر میلہ لگتا تھا جس میں صرف قرآن خوانی،نعت خوانی اور وسیع لنگر کا اہتمام ہوتا شام کو جب برتن سمیٹ رہے ہوتے تھے بارش کا ہر سال برسنا اس کا پورا گاؤں گواہ ہے۔لیکن آپس کی نا اتفاقی کی وجہ سے اب تین میلے ہوتے ہیں لیکن بارش ندارد۔

حضرت معصوم بادشاہؒ سے فقر و استغنا،زہد و اتقا،رشد و ہدایت اور علم و عمل حاصل کرنے والے کئی لوگ ایسے ہیں جو بتاتے ہیں کہ چلہ کشی میں معصوم بادشاہ ملاقات کرتے ہیں اور آنکھ والا ہی یہ تماشا دیکھ سکتا ہے ایسے لوگ بتاتے ہیں کہ معصوم بادشاہ ملاقات میں زیادہ تر سبز کرتہ اور شلوار قمیض اور سر پر امامہ باندھے ہوئے نظر آتے ہیں اس کے علاوہ کبھی کبھار کالے جوڑے میں بھی زیارت سے مستفید فرما کر سینہ روشن کر دیتے ہیں۔  آپ کے روضہ مبارک پر جنات بھی آتے ہیں اور سلام کرتے ہیں۔ پنجابی کتاب  “اکھیاں وچ زمانے” میں حضرت معصوم بادشاہ سے متعلقہ تقریبا گیارہ واقعات کا ذکر ہے جس میں آپ کی موجودہ زمانے کی ہونے والی زندہ کرامات ہیں اور ایسی بے شمار کرامات لوگوں کے سینوں میں بھی دفن ہیں جن کو اگر اکھٹا کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب ترتیب دی جا سکتی ہے زائرین کے لیے ایک خاص بات لکھ دوں کہ جب بھی کوئی مراد لے کر جائیں تو دعا مانگتے وقت یہ کہیں کہ اے اللہ کے ولی اگر میری یہ مراد پوری ہو جائے تو میں آپ کے مزار پہ آنے والی چڑیوں کو میٹھی چوگ (چینی) ڈالوں گا یا آپ کے لیے جھولا لے کر آوں گا آپ اللہ کی بارگاہ سے میرا یہ کام کروا دیں تو مراد بہت جلد پوری ہو گی۔

حضرت علی اصغر المعروف معصوم بادشاہ ابن چھانگلا ولی موجِ دریا حضرت رحمت اللہ شاہ بخاری ؒ  کی  سب سے زیادہ مشہور زیارت ہے۔ جو گاؤں کے مغرب کی طرف قبرستاں کے پاس موجود ہے ان کا تذکرہ میری پنجابی کتاب “اکھیاں وچ زمانے” میں پڑھا جا سکتا ہے۔

ب۔ مزار  بابا شہیداں آلا:۔

گاؤں کے مشرق میں پنڈی روڈ کے ساتھ مزار  ہے جس کے گرد چاردیواری ہے ابھی مزار تعمیر نہیں ہوا۔ کسی دور میں ایک میٹھی بیری کا درخت اس کے ساتھ ہوتا تھا جس سے پورے گاؤں کے بچے اور بڑے تک بیر کھاتے تھے جو کہ “شہیداں آلا بروٹہ” کے نام سے مشہور تھا جس کی اب باقیات کم رہ گئی ہیں۔

بی بی تُرُت مراد کا ڈیرہ:۔

امام بارگاہ سے دس پندرہ قدم آگے جنوب کی طرف بی بی تُرُت مراد کا ڈیرہ ہے جس پر لوگ مرادیں مانگتے تو اللہ تعالیٰ فورا دعاوں کو قبول کر لیتا۔ ان کے بارے میں کسی کو زیادہ معلومات نہیں ہیں ۔تاہم اس پر اب بھی چراغ روشن ہوتا ہے اور پرانے لوگ دعائیں مانگتے ہیں ولی کے وسیلے سے دعائیں اب بھی مستجاب ہوتی ہیں۔

حضرت حاجی امام کا چشمہ المعروف بابا چوآ :۔

حضرت حاجی امام ؒ ابن چھانگلا ولی موج دریا حضرت رحمت اللہ بخاری ؒ ابن چھانگلا ولی موج دریا رح کا سلسلہءنسب 26 پشتوں کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔ آپ سلسلہ بخاریہ کے مادر زاد ولی تھے۔ آپ کا مزار تحصیل جنڈ کے گاؤں زیارت میں انوار بانٹ رہا ہے

حضرت حاجی امام کا چشمہ المعروف بابا چوآ
حضرت حاجی امام کا چشمہ المعروف بابا چوآ –فوٹوگرافر: تنویر احمد ولد دوست محمد

حضرت رحمت اللہ شاہ بخاری المعروف چھانگلا ولی موج دریا ؒ نے دو شادیاں کیں جن میں ایک سیّد زادی سے جبکہ دوسری شادی  اعوان قوم کی گوت بگدیال سے کی تھی جن سے اولاد نہ ہوئی سیّد زادی سے آپ کو اللہ پاک نے چھ بیٹوں شہزادہ حضرت علی اصغر المعروف معصوم بادشاہ ؒ آنڑاں پیر ، شہزادہ حضرت علی اکبر ؒ المعروف کنج کنوارہ پیر ، حضرت سید حاجی امام ؒ، سید شاہ محمد غوث ؒ ،سید محمد شاہ لہری اور سید جند وڈا ؒ تھے چار بچوں سے اولاد نہیں ہوئی جبکہ دو بیٹوں حضرت شاہ محمد غوث رح اور سید حاجی امام ؒ سے موج دریا ؒ کی نسل چلی۔

میری دادی اماں سیدہ ستاراں بی بی زوجہ سید فضل حسین شای بخاری نے ہمیں بتایا کہ پرانے زمانے میں لوگ قافلوں کی صورت میں سفر کرتے تھے ایک دن بابا چھانگلا ولی موج دریا نے ایک شادی کے قافلے کی کمان اپنے بیٹے حضرت حاجی امام رح کو دی آپ نے بارات کو سفر کی ہدایات دے کر سواریاں لیں اور اپنے گاؤں زیارت سے چل پڑے موجودہ غریبوال کے بالکل شمال مشرق پر قافلہ رک گیا کیونکہ مشکیزوں والا سارا پانی ختم ہو گیا تھا اور دور دور تک پانی کا کوئی نشاں نہ تھا عورتیں اور بچے سخت گرمی میں بلکنے لگے ایک عورت نے آپ سے کہا کہ آپ ولی کی اولاد ہیں یہاں پانی کا چشمہ نکالیں ورنہ قافلہ یہاں ہی ٹھہرے گا۔ عورت کی ضد پر آپ زمین پر ایک بڑی چادر اوڑھ کر بیٹھ گئے ۔کافی دیر جب آپ نہ اٹھے تو عورت نے آپ کو آوازیں دینا شروع کردیں تو آپ نے کہا ذرا ٹھہرو دودھ کا چشمہ نکال رہا ہوں تو عورت نے فورا کہا کہ ہمیں پانی کی ضرورت ہے دودھ کی نہیں  اور ساتھ ہی آپ کی چادر کھینچی تو آپ نے اپنا سر ایک چھوٹے سے گڑھے سے اٹھایا تو نیچے سے ایک ٹھنڈا پانی کا چشمہ نکل پڑا جس پر آپ نے حکم دیا کہ سارے قافلے والے پانی پی لیں اور اپنی مشکیزے بھی پانی سے بھر لیں۔چناں چہ لوگوں نے پانی پی کر ساتھ ہی مشکیزے بھرے اور منزلِ مقصود کی طرف چل پڑے۔  اس چشمے کو گاؤں والے اب تک بابا چوآ کہتے ہیں آپ نے فرمایا تھا کہ یہ چشمہ آب شفا ہے اس سے ہر کوئی استفادہ کرے گا۔ مجھے یاد ہے کہ جن کے بچوں کو دانے پھوڑے پھنسیاں وغیرہ نکل آتیں تو وہ عورتیں اس بابرکت چشمے سے پانی بھر کر ساتھ ہی غسل کراتیں اور پینے کا پانی گھر لے جاتیں تو بچے ٹھیک ہو جاتے۔ سخت گرمیوں میں ہر طرف جب پانی خشک ہو جاتا تو تب بھی یہ چشمہ گاؤں والوں کو پیاسا نہ رہنے دیتا۔ ملک میجر طارق نے جب ڈیم بنایا تو یہ چشمہ پانی کے اندر آ گیا لوگوں کی شکایت پر ملک طارق نے چشمے کے گرد چار دیواری بنوا دی لیکن وہ لذت اور وہ پہلے والا کراماتی حسنِ کرم نہ رہا۔ چشمہ اب بھی باقی ہے اور لوگوں کو اولیاء کی کرامات یاد دلاتا ہے ۔حضرت حاجی امام ؒ کا مزار مبارک زیارت گاؤں میں بابا چھانگلا ولی موج دریا ؒ کے احاطے کے اندر ہی واقع ہے۔

جاری ہے …..

تصاویر کے لئے ہم  تنویر احمد ولد دوست محمد کے شکر گزار ہیں

حبدار قائم

مستقل لکھاری | تحریریں

میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اٹک میں پنجابی مشاعرہ

جمعرات اپریل 8 , 2021
کاروان قلم اٹک کے زیر اہتمام "حبدار ادبی بیٹھک” پر پنجابی زبان کے کیمبلپوری لہجے میں 21 مارچ کو ایک محفل مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا
Punjabi poetry session in Attock

مزید دلچسپ تحریریں