میرا گاؤں غریب وال – 1

1

غریبوال گاؤں پنڈیگھیب کے جنوب مشرق  میں واقع ہے ۔ پنڈیگھیب سے راولپنڈی جاتے ہوئے تقریبا پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر بالکل سڑک کے کنارے پر یہ گاؤں آج سے تقریبا پانچ سو سال پہلے ہندووں نے آباد کیا تھا جو تقسیم کے بعد انڈیا چلے گئے اور زمینیں اپنے مزارعین کے حوالے کر گئے  ۔ کئی بزرگ تین سو سال پہلے غریبوال کی ابتداء بتاتے ہیں جو اس لیے درست نہیں ہے کہ حضرت رحمت اللہ شاہ بخاری المعروف چھانگلا ولی موج دریا ؒ کی وفات اُچ شریف کے ایک  شجرے میں 1604  لکھی ہوئی ہے اس سے ثابت ہوا کہ حضرت معصوم بادشاہ کی ولادت 1500 سے 1604  کے درمیان میں کہیں ہوئی اور وہ ولادت کے فورا بعد غریبوال بھیجے گئے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ غریبوال 500 سال پہلے آباد ہوا تھا۔1947 کی تقسیم سے پہلے اخلاص گاؤں کے ایک راجپوت گھرانے کے ملک شیر خان اخلاص سے ہجرت کر کے غریبوال میں آ گئے۔ 1889 کے محکمہ مال کے کاغذات میں بھی اس کا نام غریبوال ہی تھا کیونکہ کچھ لوگ اس کو گربال کہتے تھے جو ہنوز جاری ہے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ ڈھلیاں کمپنی میں انگریزوں کی کافی تعداد تھی جو اپنی زبان سے “غ”  کو درست ادا نہیں کر سکتے تھے اور غریب وال کو گریبال کہتے تھے جو رفتہ رفتہ گربال تک کی مسافت طے کر گیا اور کچھ لوگوں کی زبانوں پر اب بھی جاری ہے لیکن اصل نام تو غریبوال ہی ہے ۔اب یہ گاؤں پنڈیگھیب کا ایک محلہ بننے کو ہے کیونکہ پنڈیگھیب کی آبادی غریبوال کی طرف مسلسل بڑھ رہی ہے چونکہ پنڈیگھیب کے شمال میں اخلاص اور شمال مغرب میں شہباز پور اور دندی و نوشہرہ گاؤں ہیں جن کے قریب آبادی جا پہنچی ہے اور اب آگے جانے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ درمیان میں برساتی نالا “سیل ” بھی ہے

غریبوال گاؤں کے مشرق میں ڈھلیاں اور ڈھلیاں چوک ، مغرب میں  ڈھوک کمہار موجودہ ڈھوک اعوان و پڑی گاؤں ، جنوب مغرب میں ڈھوک جٹ اور ڈھلیاں کمپنی سٹاپ نمبر ایک، شمال مشرق میں ڈھوک ناشہ اور ساتھ ہی آگے مگھ (گہری کھائیاں) اور نانگاوالی گاؤں ہے۔ پنڈی روڈ کے تقریبا 300 میٹر کے فاصلے پر ڈھوک ریحان آباد ہے اور مغرب کی طرف پکی سڑک توت اور میرا شریف کی طرف جاتی ہے جو ڈھوک اعوان کے پہلے چھوٹے سے گاؤں کو کراس کرتی ہے۔

شروع میں غریبوال گاؤں میں اکثریت ہندووں کی تھی تقسیم کے بعد اس میں تین خاندان آ کر آباد ہوئے تھے جن میں تَرُڈ موجودہ راجپوت ، تریڑ موجودہ اعوان اور میال شامل تھے میال قوم نَکہ ریحان سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے تھے یہاں کی زیادہ زمین ایک ہندو راجہ چُنی لال کی تھی اور اس کا اٹک آئل کمپنی موجودہ پی او ایل میں ٹرانسپورٹ کا ٹھیکہ تھا جس نے کھوڑ کمپنی اور ڈھلیاں آئل کمپنی میں گاڑیاں لگا رکھی تھیں۔ بعد میں یہ کھڑپہ آئل کمپنی تک کام پھیل گیا ۔جس  میں ملک مظفر خان کسی بڑی پوسٹ پر فائز تھے اور ساتھ ہی ملک مظفر خان چُنی لال کے بزنس پارٹنر بھی تھے ۔ جب پاکستان بنا تو ہندو بھارت میں چلے گئے تو چُنی لال نے ملک مظفر خان کے آباو اجداد سے کہا کہ اگر حالات ٹھیک ہو گئے تو ہم واپس آ جائیں گے اگر واپس نہ آ سکے تو آپ ان زمینوں پر امانت کے طور پر قبضہ کر لینا۔ جس کی وجہ سے اس گاؤں کی زیادہ زمین ملک مظفر خان کے خاندان کے پاس ہی رہی چُنی لال کے مزارعین نے اس زمین کا کیس پشاور ہائی کورٹ میں دائر کیا جس کے مدعیان میں حاجی میاں احمد، نور احمد اور محکم دین تھے لیکن ملک مظفر خان جیت گئے بعد میں اس زمین کو  مختلف بندوں نے خرید کر مکانات بنائے اور کئی افراد کھیتی باڑی کے لیے استعمال کر رہے ہیں

کرہ ارض پر غریبوال کی پوزیشن:۔

Latitude 33.211383 عرض بلد

Longitude 72°18’1. 09” E طول بلد

altitude  410m ارتفاع

سطح سمندر سے بلندی:۔

سطح سمندر سے اس کی بلندی 410 میٹر ہے

مساجد:۔ غریبوال گاؤں میں چھ مساجد ہیں

ا۔ جامع مسجد غوثیہ سب سے پہلی مسجد ہے جس میں پورے گاؤں کے لوگ مل کر نماز پڑھتے تھے اس وقت شیعہ سنی کی تفریق نہیں تھی مسجد کے پہلے پیش نماز قاری میاں جان محمد تھے۔

 جامع مسجد غوثیہ - فوٹوگرافر: تنویر احمد ولد دوست محمد
 جامع مسجد غوثیہ – فوٹوگرافر: تنویر احمد ولد دوست محمد

ب۔ مسجد سیدنا ابوبکر صدیق ؓ

ج۔ مسجد سیدنا عثمان غنیؓ

د۔ مدینہ مسجد جو منظور حسین  المعروف “صاحب” نے بنائی۔

ذ۔ علیؑ مسجد اہل تشیع نے مل کر بنائی جس میں اب محرم الحرام بھی منایا جاتا ہے

ر۔ مسجد معصوم بادشاہ:۔ یہ مسجد” ماسی راجاں” نے بنائی جو کہ زیارت معصوم بادشاہ کی وجہ سے اب اہل تشیع کے پاس ہے۔

  مسجد معصوم بادشاہؒ - فوٹوگرافر: تنویر احمد ولد دوست محمد
  مسجد معصوم بادشاہؒ – فوٹوگرافر: تنویر احمد ولد دوست محمد

بنہیں یا خشک تالاب:۔

گاؤں میں چار بارشی کچے تالاب ہیں اور ایک پکا تالاب ہے۔

ا۔ روڈی بنھ”۔

یہ تالاب بوائز پرائمری سکول کے ساتھ واقع ہے پورا گاؤں اسے پینے کے لیے استعمال کرتا تھا۔ اس کو گاؤں والے ہر سال پانی ختم ہونے پر ٹریکٹر لگا کر صاف کرتے تھے اور جس طرف سے پانی آتا تھا اس زمین میں پیشاب کرنے کی سخت ممانعت تھی جس پر پورا گاؤں سختی سے عمل کرتا تھا

۔

ب۔ میالاں آلی بنھ:۔

گاؤں کے جنوب کی طرف پنڈی روڈ کے بالکل قریب یہ تالاب تھا جس کو نہانے اور کپڑے دھونے کے لیے استعمال کرتے تھے گاؤں کے جوان اس میں جا کر پیراکی کرتے اور اپنے آپ کو صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ صحت مند رہتے کیونکہ پیراکی بہت زبردست ورزش ہے۔

 میالاں آلی بنھ - فوٹوگرافر: تنویر احمد ولد دوست محمد
 میالاں آلی بنھ – فوٹوگرافر: تنویر احمد ولد دوست محمد

ت۔ موچیاں آلی بنھ:۔

گاؤں کے جنوب مغرب میں یہ تالاب واقع ہے جس میں بارش کا پانی اکھٹا ہوتا تو سارا سال لوگ اپنے جانوروں کو یہاں پانی پلاتے۔ عورتیں یہاں کثرت سے کپڑے دھونے کے لیے جاتیں کیونکہ اس طرف مردوں کا بہت کم جانا تھا اور یہ روڈ سے اور گاؤں سے ہٹ کر  ذرا دور واقع تھا۔

 موچیاں آلی بنھ – فوٹوگرافر: تنویر احمد ولد دوست محمد

ج۔ گُستانے آلی بنھ:۔

گاؤں کے مغرب کی طرف بالکل قبرستان کے ساتھ یہ تالاب تھا جو وضو کے لیے استعمال ہوتا گھروں میں بھی کپڑے دھونے کے لیے لوگ اس کا پانی استعمال کرتے تھے گاؤں کی شمال مشرقی آبادی  اس تالاب سے مال مویشیوں کو پانی پلاتے تھے۔ اب بھی یہ خشک تالاب موجود ہے لیکن وضو کے لیے گاؤں کے لوگوں نے ایک نلکا لگوا لیا ہے۔

قبرستان والی بنھ
قبرستان والی بنھ – فوٹوگرافر: تنویر احمد ولد دوست محمد

د۔ تلاء:۔

ملک مظفر خان نے گاؤں کے جنوب میں ملک ارشاد خان کی کوٹھی کے تقریبا ایک فرلانگ کے فاصلے پر ایک پکا تالاب بنوایا تھا جو صرف پینے کے پانی کے لیے استعمال ہوتا تھا اس تالاب کا وجود پورے گاؤں کے لیے رحمت تھا اس کو بھی خشک ہونے پر گاؤں والے مل کر صاف کرتے۔ اس تالاب کی موجودہ حالت خطرے میں ہے کیونکہ اب گھر گھر میں پانی کی سہولت دستیاب ہے اور یہ تالاب ایک تاریخی ورثے کی حیثیت سے قائم ہے اور اس کو قائم رہنا چائیے۔ اس میں نہانا اور کپڑے دھونا سخت ممنوع تھا۔ گاؤں کے سب لوگوں نے اس کو مل کر کھودا تھا۔ گاؤں کی عورتیں دو دو گھڑے سر پر رکھ کر اور ایک ایک کمر پر بازوں میں لے کر یہاں سے پانی بھرتی تھیں جو اب صرف فلموں میں ہی دیکھ سکتے ہیں۔ گاؤں کی یہ خوب صورتی اب صرف یاد ہی کی جا سکتی ہے

Ghreebwal  Pond
تالاب – فوٹوگرافر: تنویر احمد ولد دوست محمد

کنویں:۔

پورے گاؤں میں پکا کنواں نہیں تھا ۔حضرت حاجی امام ؒ کے چشمے کے مشرق میں تقریبا 150 میٹر کے فاصلے پر ہر سال کنویں کھودتے تھے تھوڑی سی زمین کھودنے پر پانی آ جاتا تو لوگ اپنی بانگیوں میں بھر کر گھروں میں لے جاتے۔ سردیوں میں یہ کنویں بند کر دیے جاتے تھے۔ کیونکہ کسی انجان بندے کے گرنے کا احتمال تھا۔

فلاحی تنظیمیں:۔

گاؤں میں فلاحی کاموں کی کمیٹی قاضی محمد بشیر  نے بنائی ہے جس کو لبیک ویلفیئر سوسائٹی کا نام سے پکارا جاتا ہے اس  کے صدر حافظ رمضان جب کہ چیئرمین قاضی محمد بشیر ہیں ۔ اس کی تمام فنڈنگ باہر سے کرتے ہیں جس میں پنڈیگھیب کے کئی نیک سیرت لوگ بھی تعاون کرتے ہیں ۔اس فلاحی تنظیم کے تعاوں سے غریب بچوں میں ہر سال کتابیں،بستے،کاپیاں اور قلم دیے جاتے ہیں ۔اس دفعہ بھی اس تنظیم نے چالیس بچوں کی مدد کی اور گزشتہ رمضان میں پینسٹھ ہزار کا راشن تقسیم کیا گیا۔ قاضی محمد بشیر گاؤں کی ویلفیر کے لیے کوشاں رہنے والے واحد آدمی ہیں ان کے ساتھ اقراء سکول کے سرپرست حافظ رمضان بھی شریک ہیں ۔گاؤں کے کروڑ پتی افراد ابھی تک اس ویلفیر کمیٹی میں شامل نہیں ہوئے۔ لیکن قاضی محمد  بشیر کی مدبرانہ کاوش اس کو جاری رکھے ہوئی ہے۔ یہ ویلفیر کمیٹی رجسٹرڈ نہیں ہے۔ کیونکہ رجسٹرڈ کرانے کے بہت سارے مسائل ہیں۔ جب کبھی ملک میں کوئی سیلاب یا زلزلہ وغیرہ آتا ہے تو حکومت چندہ اکھٹا کرنے کا حکم دے دیتی ہے جو محدود وسائل کی وجہ سے مشکل ہوتا ہے

میلہ:۔ بزرگ سید شاہ گل محمد حضرت معصوم بادشاہ ؒ پر ہر سال خشک سالی کے موقع پر میلے کا انتظام کرتے تھے پورا گاؤں شاہ جی کے ساتھ مل کر چندہ اکھٹا کرتا تھا۔قرآن خوانی کا اہتمام ہوتا تھا شام کو جس وقت میلے کی چیزیں اور برتن سمیٹ رہے ہوتے سخت بارش شروع ہو جاتی۔ اور پورا گاؤں جل تھل ہو جاتا۔ برادری کی نا اتفاقی کی وجہ سے اب سال میں تین میلے  تین مختلف لوگ کراتے ہیں لیکن پہلے والی برکات اب بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں ۔اب بھی اگر لوگ سید عارف حسنین شاہ کے ساتھ مل کر میلہ لگائیں تو سابقہ خیر و برکات واپس آ سکتی ہیں ۔ کیونکہ عارف شاہ  گدی نشین ہے۔

لنک روڈ:۔

 ملک مظفر خان نے جنرل ایوب خان سے ملک ارشاد خان  کی کوٹھی اور اپنے بنگلے  تک منظور کرایا۔باقی گاؤں کے دو مشہور راستے ابھی تک راہ مسیحا دیکھ رہے ہیں۔ جو کہ ملک مظفر خان کی طرح کام کرائے اور بس سٹاپ سے لڑکوں کے سکول اور امام بارگاہ تک اس کے ساتھ ہی بس سٹاپ سے واٹر سپلائی کی ٹینکی تک اور سید عمران شاہ بخاری کے گھر تک روڈ بنوائے۔ تیسرا روڈ جو دو سو سال پرانا راستہ ہے وہ معصوم بادشاہ ؒ کے موڑ سے چوآ حاجی امام ؒتک سڑک بنائے۔ سادات کے محلہ سے قبرستان تک راستہ بھی پکا ہونا چائیے کیونکہ میت لے جاتے وقت بہت مشکل پیش آتی ہے۔

جاری ہے ………..

تصاویر کے لئے ہم  تنویر احمد ولد دوست محمد کے شکر گزار ہیں

۔

حبدار قائم

سیّد حبدار قائم

آف غریب وال

ضلع اٹک

مستقل لکھاری | تحریریں

میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

One thought on “میرا گاؤں غریب وال – 1

Comments are closed.

Next Post

یہ خاک میرے دیس کی ہے کیمیا مجھے

منگل مارچ 23 , 2021
یہ خاک میرے دیس کی ہے کیمیا مجھے
Tehreek-e-PAkistan

مزید دلچسپ تحریریں