دھیان ، گیان اور نروان (قسط دوم)

تحریر :سیدزادہ سخاوت بخاری 
دھیان کی منزل( گزشتہ سے پیوستہ ) 
آپ یقینا سوچ رہے ہونگے کہ اتنی کٹھن منزل کون طے کریگا جس میں گھر بار ، بیوی بچے ، روزگار ، لین دین غرضیکہ پورے کا پورا کاروبار حیات ہی ٹھپ کرنا پڑ جائے ۔ یہی سوال ذھن میں رکھتے ہوئے میں نے دھیان کی اس منزل تک پہنچنے کے لئے دو راستے تجویز کئے ہیں ۔ ایک دائمی یا مکمل سنیاس اور دوسرا موقت یعنی عارضی ۔یاد رکھئیے دائمی سنیاس لینا ہر ایک کے بس کی بات نہیں بلکہ  تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ سنیاسی ، تیاگی اور گیانی  جنہیں عرف عام میں ولی اللہ ، سینٹ (Saint)  یا بھگت کہا جاتا ہے ،  پیدائیشی طور پر اپنے اندر ایک مخصوص روح یا اسپیشل سوفٹ وئر ( Special Soft Ware ) لیکر اس دنیاء میں قدم رکھتے ہیں ۔ بھگتی اور ولائت کسبی نہیں کہ کسی ٹریننگ اسکول سے تربیت اور ڈگری لیکر ، ڈاکٹر اور وکیل کی طرح کوئی بھی شخص  ولی یا بھگت ہونے کا دعوی کردے  بلکہ یہ توعطائے خالق ہے ۔ اس ضمن میں فارسی کا ایک شعر یاد آگیا ، کہتے ہیں ، 
” ایں سعادت بہ زور بازو نیست .  تا نہ بخشد او خدائے بخشندہ ” 
یعنی اس مقام و مرتبے تک رسائی انسان کے بس کی بات نہیں جبتک کہ عطاء کرنے والا ( مالک و خالق ) اسے بخشیش یا انعام کے طور پر از خود عطاء نہ کردے ۔ 
قارئین کرام ،
آگے بڑھنے سے پہلے ایک بات ذھن نشین کرلیں کہ میری اس تحریر کا مقصد ہرگز  تصوف پر لیکچر دینا نہیں ، کیونکہ  ، یہ راہ بہت کٹھن ، پرپیچ ، اتنی عمیق ، دقیق اور پرخطر ہے کہ اگر کہیں ذرہ برابر لغزش ہوئی ، زبان یا قلم کے قدم پھسلے ،   تو انسان راہ راست سے بھٹک کر گمراہی کی بھول بھلیوں میں جا پہنچتا ہے اور یہ کہ ، تصوف پہ گفتگو اور اسے سمجھنا  عام آدمی کے بس کی بات بھی نہیں ۔ 
مضمون کی ابتداء میں لکھا ، زندگی کیا ہے ، کیا کبھی اس بات پر غور کیا  ؟   پیدائیش سے موت یا ماں کی کوکھ سے قبر کی آغوش تک کا سفر ، عجیب سلسلہء واردات ہے  جسے ہم کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پر پٹی باندھ کر گزار دیتے ہیں ۔ زمانہء حال میں جدید مشینوں کی مدد سے کھیتی باڑی کی جاتی ہے اور  آبپاشی کے لئے زیر زمین سے پانی کھینچ کر کھیت تک پہنچانے کے لئے بجلی کی موٹریں اور پمپ ایجاد کر لئے گئے ہیں ۔ ایک چھوٹے سے بٹن کو دبائیں تو پانی خود بہ خود کھچ کر ایک جستی نالی یا پائپ کے ذریعے باہر آجاتا ہے جبکہ کچھ ہی زمانہ پہلے الیکٹرک موٹر اور واٹر پمپ کی بجائے رھٹ میں بیل جوت کر یہ ضرورت پوری کی جاتی تھی ۔ بیل کی آنکھوں پر کھوپے یا پٹی باندھ دیتے تھے  تاکہ وہ دائیں بائیں ، ادھر ادھر  نہ دیکھ سکے ، اسے یہ علم ہی نہ ہو  کہ وہ کس سمت میں سفر کررہا ہے لھذا عالی مرتبت بیل  چار سے چھ گنٹے تک ، اس وہم اور خوشی میں گھومتا  رھتا تھا کہ ایک طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ کسی نئی منزل تک پہنچ جائیگا  لیکن اے کاش ایسا ہوتا ۔ اسے کیا معلوم کہ آنکھوں پر بندھی پٹی اسے احساس تک نہیں ہونے دیتی کہ وہ سیدھی سمت میں سفر کرنے کی بجائے گول گول گھوم رہا ہے ۔ اس کا مالک جب کھیتوں کو سیراب کرنے کے بعد اس کی آنکھوں سے پٹی ھٹاتا ہے تو بیچارہ بیل اپنے آپ کو اسی جگہ کھڑا پاتا ہے جہاں سے اس نے سفر کا آغاذ کیا تھا ۔ یاد رکھیں ” دھیان ” یا غور و فکر کے بغیر بسر کی جانیوالی زندگی بھی  رھٹ کے اس بیل کی حالت جیسی ہے جو دن بھر کی مشقت کے بعد بھی وہیں کا وہیں کھڑا نظر آتا ہے ۔ 
دھیان کی منزل کا تقاضا ہے کہ نہ صرف ہماری آنکھیں کھلی رہیں تاکہ  مشاھدے کی مدد اور رسد سے ہمارا شعور توانا ہو  بلکہ ذھن پر کوئی پٹی بھی نہ بندھی ہو ، کوئی ایسا خول نہ چڑھا ہو کہ جو تاذہ ہوا کے جھونکوں کو اندر آنے سے روکے ۔  اس کے ساتھ ساتھ ،  کچھ پانے ، حاصل کرنے ، سوچنے اور  سمجھنے کی جستجوء بھی موجود ہونی چاھئیے  ۔ اٹھنا ، بیٹھنا ،سونا جاگنا ، چلنا پھرنا ، کھانا پینا اور بچے پیدا کرنا توجبلت  (Instinct) یا خداداد صلاحیت ، اہلیت اور ضرورت ہے اس کا عقل و خرد اور سوچ بچار سے کیا واسطہ ،   یہی سب کچھ تو حیوانات اور چرند پرند بھی کرتے ہیں بلکہ انسانی اور حیوانی زندگی سے ملتی جلتی ،  کئی ایک جبلی  خصوصیات ( Inherited Values ) تو عالم نباتات میں بھی پائی جاتی ییں ۔ مثلا ،  پودے ، پھول ، جڑی بوٹیاں اور درخت سب کے سب پیدا ہوتے ہیں ، جنم لیتے ہیں  ، بیمار پڑتے ہیں ۔ ان پر بھی ،  بچپن ، لڑکپن اور جوانی طاری ہوتی ہے ۔ خوراک اور پانی انہیں بھی درکار ہوتا ہے ۔ یہی نہیں ، بلکہ کھاد کی شکل میں مختلف وٹامنز کے طلب بھی رکھتے ہیں ۔  بیماری ان پر بھی حملہ کرتی ہے . انہیں باقائدہ دواء دارو کی حاجت پیش آتی ہے ۔ پھل ، پھول ، پتوں اور بیج کے نام سے بچوں کو جنم دیتے ہیں اور انہیں بھی موت کا ذائقہ چکھنا پڑتا ہے ۔   آپ جانتے ہونگے کہ عالم نباتات ،  یعنی  درختوں اور پودوں میں بھی انسانوں اور حیوانات کی طرح ،  نر ( Male ) اور مادہ ( Female )کی تخصیص و تفریق موجود ہے ۔ یہ الگ بات کہ نر کم اور مادہ تعداد میں زیادہ ہوتی ہیں اور انہی کے بطن سے پھل ، پھول یا بچہ پیدا ہوتا ہے  ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض گھروں میں موجود پھل دار درخت پھل نہیں دیتے اور بعض کے پھل ابتدائی حالت میں گرجاتے ہیں ۔ پھل بالکل نہ لگنے کی صورت میں جان لینا چاھئیے کہ یہ درخت نر , یعنی (Male Tree ) ہے ۔ اور کچا پھل گرجانے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ قریب میں کوئی نر ، Male درخت موجود نہیں کہ جسکا تولیدی مادہ یا ( Pollen ) اسے درکار ہے ۔  
اس ساری بحث سے مراد اس نکتے کو سمجھنا ہے ،  کہ جبلی طور پر انسان ، حیوان اور نباتات کئی ایک مشترکہ جبلی ( Instinct )  خصوصیات کے حامل ہیں لیکن اس کے باوصف حیوانات  و نباتات اور انسان میں فرق یہ ہے کہ انسان کو خالق کائنات نے عقل کے نام سے ایک اضافی خوبی یا خاصیت عطاء کی ہے ، کہ جس کی مدد سے وہ سوچ اور سمجھ سکتا ہے ۔ حیوانات اور نباتات کے برعکس اپنی ذات کے بارے میں فیصلے کرسکتا ہے جبکہ اول الذکر فقط قانون قدرت کی پابندی سے ،  سوچ و سمجھ اور آذادانہ فیصلے کی قوت سے محروم رہ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ اسی فلسفے کو اقبال نے کیا خوب بیان کیا ہے :
” تقدیر کے پابند نباتات و جماداتمومن فقط احکام الہی کا ہے پابند ” 
اقبال کہتے ہیں تقدیر اور مقدر کی پابندی صرف درختوں ، پودوں ،  پہاڑوں ، چٹانوں ، ٹیلوں اور ان دیگر مخلوقات پر عائد ہوتی ہے کہ جو سوچ اور سمجھ کی صلاحیت نہیں رکھتے اور کسی ایک جگہ پر مقید ہوکر زندگی گزارنے کے پابند ہیں جبکہ انسان مکمل طور پر آذاد ہے اور یہ آذادی اسے اس کی ساخت اور عقل نے عطاء کی ، وہ نباتات کی طرح ایک جگہ رک کر یا جمادات کی طرح بے جان اور ساکن و ساکت رہ کر زندگی گزارنے پر مجبور نہیں بلکہ اس کا جیون احکام الہی کا پابند ہے ۔ 
 دھیان کے اس اسٹاپ تک پہنچنے پر  علم ہوا ،  کہ اگرچہ ، انسان ، حیوان اور نباتات ، جبلی طور پر بعض مشترکہ بنیادی خصوصیات کے حامل ہیں لیکن اس جنکشن یا دوراہے سے انسانی گاڑی ” عقل ” کا انجن لگاکر الگ لائین پر چڑھ جاتی ہے ۔ اس کا راستہ الگ ہوجاتا ہے اور یہیں سے آگے  اس ایکسپریس کو دنیاء نے  ” اشرف المخلوقات “( The Most Honorable Creatures )کے نام سے جانا ، پہچانا اور مانا ۔ 
اس مقام تک آکر ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ، عقل اور ارادہ ، انسان کو حیوانات و نباتات سے ممتاز کرتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوا ،  کیا عقل چند لوگوں کے حصے میں آئی یا ہر انسان کو عطاء کی گئی ۔ جواب یقینا یہی ہوگا کہ تمام بنی آدم اس نعمت خداوندی سے مستفید ہیں ،  الا  وہ محدودے چند افراد ،  کہ جو ذھنی امراض ( Mentle Disorder) کا شکار ہوں ۔  جب ایسا ہی ہے ،  سب انسان عقل کے مالک ہیں ۔ قدرت نے انہیں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں سے یکساں طور پر نوازا ہے تو کاروبار حیات کے رنگ اور روپ  مختلف کیوں ہیں ۔ 
( بحث جاری ہے )

تحریریں

شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

چھِلاں آلے پھَس گئے

پیر دسمبر 7 , 2020
گل ایجوں وے سنگیوں خان ہوراں دسو آ اَسی بی چھِلاں آلے آں نے ، کھکھڑیاں آلے گئے نے نس۔ اس واسے مہربانی کرو اساں غریباں تے کُج رحم چا کرو۔
khakhrian

مزید دلچسپ تحریریں