کتب خانہ مولانا محمد علی ؒ مکھڈی

          محمد سا جد نظا می

           مولانا محمد علی ؒ مکھڈی کے نا م سے منسوب کتب خانہ مکھڈشریف میں وا قع ہے۔ ضلع اٹک کی تحصیل جنڈ میں وا قع یہ تا ریخی قصبہ جہا ں اپنے اند ر کئی خو بیا ں رکھتا ہے وہیں اس کی شہر ت کتب خانہ کے با عث علمی حلقوں میں مو جو د ہے۔ اس کتب خانہ کی بنیا د حضرت مولا نا محمد علی ؒ مکھڈی نے رکھی۔ آپؒ بٹا لہ(امر تسر)1164ھ مطا بق 1750ء میں پیدا ہو ئے۔ بچپن میں ہی والدین وصال فر ما گئے۔ بعد ازاں آپ ؒ کی پر ورش کی ذمہ دا ری اُن کے بڑے بھا ئی مولا نا عبد الرسو ل ؒ نے اُٹھا ئی۔ ابتدا ئی تعلیم اپنے آبا ئی وطن میں حاصل کی۔ پھر بڑے بھا ئی کی اجا زت سے حصول ِ علم کے لیے گھر سے ساما نِ سفر با ند ھا۔ بہا ولپو ر، جسیا ل (تلہ گنگ) سے ہو تے ہو ئے مکھڈ شریف تشریف لا ئے۔ اس وقت یہا ں کی در س گا ہ میں مولا نا محکم الدین ؒ در س دیا کر تے۔ مولا نا کے حلقہ ئ در س میں بیٹھنے کے بعد پھر کسی اور مدرس یا درس گا ہ کی خو ا ہش نہ رہی۔ دِل جمی کے سا تھ تحصیلِ علم میں مشغول ہو گئے۔ کچھ عر صہ کے بعد مولا نا محکم الدین ؒ کسی اور مقا م پر درس وتدریس کے لیے تشریف لے گئے۔مولا نا محمد علی ؒمکھڈی بھی آپ کے ہمر اہ ہو لیے۔ مولانا محکم الدین ؒ کا وہیں وصال ہو گیا۔ تجہیز و تد فین کے بعد مولا نا محمد علی ؒمکھڈی، مکھڈشریف تشریف لائے تاکہ سامانِ سفر لے کر کسی اور درس گا ہ کی طر ف نکلیں۔ جب یہ خبر اہلِ قریہ تک پہنچی تو سبھی آپ کی خدمت میں حا ضر ہو ئے اور عر ض کی؛ کہ مولا نا محکم الدین ؒ تو اب اس دنیا سے پر دہ فر ما گئے، اُن کی جلا ئی گئی علم کی شمع کو بھجنے نہیں دینا؛ سو آپ اس درس گا ہ میں تعلیم و تعلم کے سلسلے کو جا ری رکھیں تاکہ علم کی رو شنیا ں یو نہی بکھر تی رہیں۔ جب مولا نا ؒنے در س کا سلسلہ شرو ع کیا تو پھر آپ کے حلقہ ئ در س میں مولانا شمس الدین سیا لو ی ؒ، مولا نا حافظ عا بد جی مہا روی ؒاور مولانا زین الحق والدین جیسے نا بغہ ئ روزگا ر شا گر د آکر بیٹھے۔ جن میں سے ہر ایک سے ایک عالَم منو ر ہو ا۔

          حضرت مولا نا ؒقر یباًاٹھا رویں صدیں کی نویں دہا ئی میں مکھڈ شریف تشریف لا چکےتھے۔ کتب خانہ ابتدا میں آپ کے نا م سے منسو ب مسجد (مسجد حضرت مولا نا محمد علی ؒمکھڈی)شہر کے عین وسط میں واقع تھی (یہ مسجد اب بھی اُس دو ر کی عظمتِ رفتہ کو یا د دلا تی ہے) کے کسی حجرہ میں موجو د تھا۔ مولا نا ؒ کے وصال29 رمضا ن المبا رک۔ 1253ھ مطا بق1837ء کے بعد کتب خانہ بھی درس گا ہ ( با رہ دری ) سے منسلک ایک کمرہ میں منتقل ہو ا۔ حضرت مولا نا محمد علی ؒ مکھڈی کے وصال کے بعد اُن کے خلفا نے در س گا ہ کی تر ویج میں شب و روز مختص کیے۔ مولا نا حا فظ عا بد جی ؒ مہاروی 1662ھ/1845ء، مولا نا زین الحق والدین ؒمکھڈی(1295ھ/1878ء، مو لانا غلا م محی الدین ؒ مکھڈی1338ھ/1920ء،مولانا محمد احمد الدینؒ مکھڈی1389ھ/1969ء، مولا نا محمد فضل الدین ؒ مکھڈی1429ھ/2008ء اور مولانا فتح الدین مدظلہ العالی(پ۔1942)ء ان سب حضرات نے اپنے اپنے ادوار میں کتب خانہ کی حفا ظت،کتب کے اضافہ اور دیگر امور کی انجا م دہی میں اپنی خدما ت پیش کیں۔

          مرو ر ِ ایا م کی بدو لت یہ علمی سر ما یہ بھی متا ثر ہو ا، مختلف علو م پر کچھ کتا بیں علما کے ذوق ِ مطالعہ کی نذر ہو ئیں۔اور یہ کو ئی انھو نی نہ تھی۔بر صغیر پا ک و ہند کے ہر کتب خانہ کو ایسے با ذوق علما ملے جنھو ں نے اس کا ر ِ خیر میں حصہ لیا۔استادِ محتر م جنا ب نذر صا بر ی ؒ (م۔13 دسمبر 1913ء) نے اٹک کے ایک ایسے پر و فیسر کی دا ستان بھی مجھے سنا ئی تھی کہ جو ظا لم مولا نا ؒ کے کتب خانہ سے ”ہیر“ کا ایک خطی نسخہ اپنے ذہنی اپچ کے با عث چرا کر غالبا ً پنجا ب یو نیو رسٹی کی لا ئبر یری میں جمع کر وا آیا۔ جنا ب کا خیال تھا کہ”مولوی ہیر کو کیا جانیں“ اوریہ مصر ع بھی جناب نذر صا بر ی ؒ کے سا منے موصوف پر و فیسر نے خود گنگنا یا تھا۔ کفِ افسو س مل کے رہ گیا حضرت کی علمی فرا ست پر،آج وہ محفوظ ہا تھ بھی غیر محفو ظ ہو گئے۔ یونیورسٹی لا ئبر یر یو ں کے خطی نسخو ں کے سا تھ کیا ہو تا ہے اس پر بحث نہیں، مطبو عہ نسخے ڈھو نڈ نے سے نہیں ملتے۔

          اس وقت کتب خانہ میں مو جو د کل کتب 19000سے زا ئد ہیں۔ خطی نسخے1200 سے زائدہیں، جن میں عربی، فارسی اور پنجابی کے نسخے شا مل ہیں۔عربی کتب 4000، فا رسی 3000، ۱ردو8270،پنجا بی1250،پشتو 330، انگریزی 1675،سندھی اور ہند ی زبا ن میں بھی چند کتب موجو د ہیں۔ ابتدا ئی فہر ست سا زی پر کا م کا مکمل ریکا رڈ محفو ظ نہیں۔ شا ید اس پر کام نہیں کیا گیا۔کام ہو ا ہے تو دست بر د ِ زما نہ کی نذر ہو ا۔ابتدا ئی فہر ستو ں میں ایک نا مکمل سی فہر ست (خطی) رجسٹر ڈ میں محفو ظ ہے۔ با قا عدہ فہر ست سا زی پر کا م گو ر نمنٹ پو سٹ گر یجو ئیٹ کا لج، اٹک کے کتابد ا ر جنا ب نذ ر صا بر ی ؒ نے شرو ع کیا۔ اس کام کا آغا ز 1966 ء میں ہوا۔ صا بر ی صا حب کئی بار مکھڈ شریف تشریف لا ئے۔ اُن کے سا تھ ان کے رفیق ِ کا ر تشریف لاتے؛جو علم و فن کے دلدادہ ہو تے۔ فہرست سا زی کے لیے بڑی تقطیع کا رجسٹرڈ پر نٹ کر وا یا گیا۔ جنا ب نذر صا بر ی نے اس کام کے بارے میں پہلے صفحہ پرتحریر کچھ یو ں لکھی۔

 ”فہر ست ِ مسلسل کتب خا نہ مولا نا محمد علی ؒ،مکھڈشریف 

مر تبہ:نذر صا بری

سیدرفیق بخا ری(شریک دو ر ہئ اول و سو م)

کنورخا لد محمو د (شریک دو رہئ اول و دوم)

افضال علی خان(شریک دو ر ہئ دو م)“

          فہر ست سا زی کے کام کی نو عیت اور مختصر تعا رف جنا ب نذر صا بری نے ان الفا ظ میں کر ا یا ہے۔

بسم اللہ الرحمٰن الر حیم

مو سم ِ گر ما 1966ء میں ڈپٹی کمشنر کی ایک چھٹی ہما رے پر نسپل چو ہدری ظہو ر احمد ایم اے کے نا م آئی جس میں انھوں نے اپنے دو رہئ مکھڈ کا ذکر کیا اور کتب خانہ مولا نا محمد علی ؒ کے نوا درا ت کی تعر یف کی، اور ان سے یہ فر ما ئش کی کہ وہ اپنی در س گا ہ کے لا ئبریر ین کو اس کتب خانہ کی تر تیبِ نَو کے لیے مکھڈ روانہ کر یں۔میں نے اس کتب خانہ کو 1963ء میں سر سری نظر سے دیکھا تھا۔اور جدید پیما نو ں پر اس کی تر تیب ِ نَو کی اشد ضر و رت کو محسو س کیا تھا۔ اپنی اس دبی ہو ئی آرزو کے پو را ہو نے کا مو قع فر ا ہم ہو تا دیکھ کر میں نے فو را ً آمادگی کا اظہا ر کر دیا اور جو لا ئی 1966ء میں سید رفیق بخا ری اور کنو ر خا لد کے سا تھ کتب خانہ کو امعانِ نظر سے دیکھا، اس کی ضرو ریا ت کا جا ئزہ لیا،کچھ کام اربا ب ِ بسط و کشا د کو سو نپے اور کچھ اپنے ذمہ لیے۔اس دو رہ میں ہم نے 786کتا بیں اس رجسٹر پر چڑھائیں (یہ رجسٹر اور پا نچ ہزا ر چھپی ہو ئی چٹیں (Book plates)ہماری فر ما ئش پر سر کا ری خر چ پر تیا ر ہوئیں)اور واپسی پر پرنسپل صا حب کی معر فت ڈپٹی کمشنر کو تحریر ا ً اپنی کا ر گزا ری اور تجا ویز سے آگا ہ کیا۔ اپنے دو سرے دورے میں  (دسمبر 1966) 1651تک کی کتا بیں درج کیں اور ان سب درج شدہ کتابوں پر (Numberin Machine)سے عددِ مسلسل ثبت کیے۔ ان ہی خطو ط پر کام کر تے ہو ئے اہلِ کتب خانہ نے ایک رَف رجسٹر پر 3584نمبر تک کتا بیں در ج کر کے یہ رجسٹر ہمیں کیمبل پور(اٹک) بھیج دیا۔ تا کہ ان کو اصل پر چڑھا دیا جا ئے۔ ان کے اس تعا ون سے جو در اصل ان کا اپنا ہی کا م تھا ہمیں ایک گو نہ خو شی ہو ئی۔ اب اس رجسٹر پر کتب خانہ کی تما م مو جو د مطبو عہ کتا بیں درج ہو چکی تھیں۔ اس کے بعد ڈپٹی کمشنر مو صو ف کا تبا دلہ ہو گیا اور سا تھ ہی سر کا ری امداد کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ تا ھم اگست 1968میں سید رفیق بخا ری اور را قم الحروف، مو لا نا فتح الدین کے اصر ا ر پر ان کے سا تھ دو روز کیلئے مکھڈ گئے۔ تما م فا رسی مخطو طا ت کو جو 3584نمبر سے 3894تک دیکھی جا سکتی ہیں با تفصیل در ج کیا۔“

          جنا ب نذر صا بری صا حب کا ذوق اور لگن اس کام کو بڑھا وا دیتے رہے۔ انھو ں نے 234 کتب کی مختصر فہر ست پر ایک کتا بچہ”مختصر فہر ست ِ مخطو طا ت ِ فا ر سی کتب خانہ مو لا نا محمد علی مکھڈی“ کے عنوان سے مجلس ِ نو ا درات ِ علمیہ“اٹک سے شا ئع کیا۔ اگر چہ یہ فار سی مخطو طات کی مکمل فہر ست نہ تھی۔ بہت سے مخطو طا ت ابھی با قی تھے۔ اس فہر ست کے بعد اسلا می یونیو رسٹی، اسلا م آبا د کے اسکا لر خطیب رحما نی نے 1975ء میں فا ر سی، عر بی اور پنجا بی مخطو طا ت کی فہر ست تیار کی جس میں کتب خانہ کے 631 مخطو طات شامل کیے گیے۔کتب خانہ مولاناؒ کے سا تھ اس فہرست میں کتب خانہ خا نقا ہ سر ا جیہ مجد دیہ، کندیا ں (میانوالی)کے 150 مخطو طا ت،کتب خانہ مولانا محمدالدین ؒ مکھڈی(م۔1975ء)جسے خطیب رحما نی نے ”کتب خانہ ثانی مولا نا محمد الدین صا حب مکھڈی مد ظلہ چشتی“ کے عنوان سے مو سو م کیا،کے 480 مخطو طا ت،کتب خانہ مدر سہ محمودیہ،خانقا ہ تو نسہ شریف، ضلع ڈیر ہ غا زی خا ن کے421 مخطو طا ت، حضر ت سید مصر ی شا ہ رضوی لا ئبریر ی، نصر پور، سند ھ کے 226مخطوطات،جامعہ الرا شدیہ،پیر گو ٹھ، در گا ہ شریف پیر پگارو صاحب، خیر پو ر، سند ھ366 مخطوطات، قا ضی محمد عبداللہ صا حب، مانسہر ہ (ہر ی پور ہزا رہ)20 مخطوطا ت اور کتب خانہ کا ظمیہ،ٹھینگر، مظفر آباد (آزاد کشمیر) کے مخطو طا ت شا مل ہیں۔

          1977ء میں معر و ف ایر انی اسکا لر اور مخطو طہ شنا س جنا ب محمد حسین تسبیحی نے ”کتاب خانہ ہا ئے پا کستان “جلد اوّل میں کتب خانہ مولا نا ؒ کے 42،اہم خطی نسخو ں کا تعار ف کر ایا۔ ربیع الاول 1410ھ مطا بق دسمبر 1978ء میں جنا ب نذر صا بر ی نے کتب خانہ مو لا نا ؒ کے ایک اہم فار سی خطی نسخہ ”غایتہ الامکا ن فی معر فتہ الزما ن و المکا ن“ کومبسو ط مقدمہ کے سا تھ ”مجلس ِ نو ا درا ت ِ علمیہ،اٹک کے زیر اہتما م شا ئع کیا۔ یہ نسخہ شیخ تا ج الدین محمو د بن خدا داد اشنو ی کی تحریر تھی۔ 1418ھ مطا بق 1997ء ڈا کٹر احمد خان نے ”فہر س المخطوطات العر بیہ الا سلا میہ فی با کستان“ جز  الاول میں اس کتب خانہ کے اہم عر بی مخطو طات کو شامل کیا۔ انھو ں نے( مکتبۃ المد رسہ العالیۃ للمولوی محمد علی (احمد الدین) بمکھد، باکستان )کے نا م سے 26 مخطو طات،] مکتبۃ المد رسہ العا لیۃ للمولوی محمد علی (محمد الد ین) بمکھد، باکستان ) کے28 مخطوطات) مکتبۃ المولوی محمد علی  مکھدی(مولوی زین الدین) ترک(ترگ) مقا طعۃ میا نوالی، باکستان)کے2،مخطوطات شا مل کیے ہیں۔

          ملک ریا ض الدین اعوان نے ”مکھڈشریف“ کے عنوان سے ”اٹک فیسٹیو ل“ اٹک، ضلع کو نسل،1992ء میں بھی کتب خانہ کا مختصر تعا رف شامل کیا۔ 2007 ء میں ”زیارت لائبریر ی مکھڈشریف کے چند فا رسی مخطو طا ت“ کے عنوان سے راقم کی تحریر ”دریا فت،نیشنل یو نیو رسٹی آف ماڈرن لینگو یجز، اسلا م آبا د میں شا ئع ہوئی۔جنا ب نذر صا بر ی نے 2012ء میں کتب خانہ کے ایک اور اہم فارسی مخطو طہ ”منہج الر شا د لنفع العباد“ کو مر تب کیا،جو مجلسِ نوادرات ِ علمیہ۔اٹک سے شائع کیا گیا۔ یہ شیخ زین الدین الخوافی ہروی سہروردی ؒ  کا تحریر کر دہ رسالہ ہے۔ جس کا ایک قدیمی نسخہ کتب خانہ کی زینت ہے۔ 838ھ کا مکتو بہ یہ خطی نسخہ دنیا بھر میں مو جود اِس کتا ب کے دستیا ب نسخوں پر زمانی تقدم رکھتا ہے’’کتب خانہ مولا نا محمد علی مکھڈی کے پنجا بی خطی نسخے“ کے عنو ان سے ڈاکٹر ارشد محمو د نا شا د نے 27 پنجا بی خطی نسخو ں کی مفصل فہر ست تیار کی،جو الخیر یو نیو رسٹی کے تحقیقی مجلہ ”تحقیقی زاویے“ شماہ:4 جولائی۔دسمبر 2014ء“ میں شا ئع ہو ا۔ ”کتب خانہ مولانا محمد علی مکھڈی، کی اُ ردو علمی و ادبی کتب کی تو ضیحی فہر ست ( مطبو عہ قبل اگست 1947ء)کے عنو ان سے نادرن یو نیو ر سٹی، نوشہر ہ سے ایم۔ فل سطح کا مقا لہ لکھا گیا۔ ا س میں 340 مطبو عہ اُردو کتب کو شا مل کیا گیا۔ اس کے مقا لہ نگا ر، ذوالفقار حسین شا ہ ہیں اور نگر ان ِ مقا لہ ڈ اکٹر سید اشفا ق حسین بخاری تھے۔

          خانقاہ معلی حضرت مولانا مکھڈی سے ”قندیلِ سلیمان“ سے نام سے سہ ماہی سلسلہ کا   اجرا جولائی 2013ء میں کیا گیا۔جو بعد ازاں ششماہی مجلے صورت شائع ہو تا ہے۔ اب تک اس کے 21 شمارے منظرِعام پرآ چکے ہیں۔اس کے شما رہ 19 سے فہرست ِ مخطوطات ِ فارسی جس کو فارسی ادب و تحقیق کے نامور محقق ونقاد ڈاکٹر عارف نو شاہی مرتب کر رہے ہیں۔اب تک تین شماروں میں 90 فارسی مخطوطات کی فہرست شائع ہو چکی ہے۔  اہل ِ ذوق کے لیے یہ با ت دلچسپی سے خالی نہ ہو گی۔کہ اس دور افتا دہ ایک چھوٹی سی بستی میں اتنا عظیم اور اہم علمی ذخیر ہ کیسے جمع ہو ا۔ جب ہم کتب خانہ کی تا ریخ و روا یت پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ جس دور میں حضرت مولا نا ؒ نے اس درس گا ہ کی از سرِ نو تنظیم فرما ئی تو آپ کی علمی شہر ت دور و نزدیک سے علم کے متلا شیو ں کو کشا ں کشا ں مکھڈشریف آنے پر مجبو ر کر رہی تھی۔ علا وہ ازیں چونکہ یہ زما نہ بر صغیر پا ک و ہند میں انگریز مشنر ی کے تسلط کا ابتد ا ئی زمانہ ہے اور اس دور میں ملک انتہا ئی بد نظمی و ا بتر ی کا شکا ر تھا، تو ایسے حا لا ت میں علمی در سگا ہیں ان علا قوں میں زیا دہ پنپ رہی تھیں۔ جہا ں شورشو ں کا گزر کم تھا۔ مکھڈشریف کا قصبہ بھی ایک ایسا ہی مقام تھا جہاں یہ علمی درسگاہ سجتی تھی۔ سو مولا نا ؒ  کی محنت اور علم کے سا تھ ان کی وابستگی و محبت نے اس در س گا ہ کو جلد شہر ت ِدو ا م عطا کیا۔ اٹھا رویں صدی کے آخری دو عشروں اور انیسو یں صدی کی ابتدا ئی چا ر دہا ئیو ں میں اس درس گا ہ کو مولا نا ؒ جیسا عالم بے بدل اور منتظم اعلیٰ میسر رہا۔ مولا نا ؒ کے وصال 1837ء کے بعد 9 سال تک خلیفہئ اول مولانا حا فظ عا بد جی مہا رویؒنے اس درس گا ہ اور کتب خانہ کی خدمت کی۔ 1845ء سے 1878ء تک کے 33 سال حضرت مولا نا محمد علی ؒ کے خلیفہ ثانی حضر ت مولا نا زین الحق والدین ؒ مکھڈی کی سر پر ستی اس درس گا ہ کو حا صل تھی،جو کتا ب کے ساتھ ایک خا ص محبت رکھتے۔ ہند و ستا ن بھر کے اشا عتی اداروں سے کتا بیں، کتب خانہ کے لیے منگو ائی جا تیں۔ مختلف مو ضو عا ت پر در س گا ہ کے ذہین اور محنتی طلبا سے مقا لہ جا ت لکھوائے جاتے۔چونکہ اس زما نے کے طلبا اچھے کا تب بھی ہو تے۔ سو کسی ایک مو ضو ع پر ایک خو ش خط مخطوطہ کتب خانہ کی زینت بنتا۔ پھر علمی مرا کز سمر قند و بخا را سے طلبا اپنے ساتھ کتب لاتے،جو حضرت زین الحق والدین ؒ  کو تحفتہً پیش کیے جا تے۔ مکھڈ کی پرا چہ فیملی جو تجا رت کے سا تھ منسلک تھی جس علا قہ میں بھی تجا رت کی عر ض سے جاتے کو ئی نہ کو ئی مطبو عہ یا خطی نسخہ اپنے مربی کو نذر کرتے۔ حضرت زین الحق والدین ؒ کے احو ال میں ہمیں کئی ایسے وا قعا ت ملتے ہیں، جن میں کتاب کے سا تھ آپ کی وابستگی و محبت کا عجب رنگ نظر آتا ہے۔ تو نسہ مقدسہ میں عر س مبا رک حضرت پیر پٹھا ن شا ہ محمد سلیما ن تو نسوی ؒپر تشریف لے جا تے تو وہاں پر آئے ہو ئے کتب فرو ش آپ کے قیا م تک خا نقا ہ میں ہی ٹھہر ے رہتے۔ آپؒ واپسی پر تما م کتب خرید فر ما لیتے۔علا وہ ازیں اگر آپ کسی سے نا راض ہو تے تو آپ کو کتا ب پیش کر کے یا رانے کی صو ر ت نکل سکتی۔ حضرت زین الحق والدین ؒ کے وصال 1878ء کے بعد آپ ؒ کے نو اسے حضرت غلا م محی الدین احمد ؒ سجا دہ نشین ہو ئے۔ 1878ء سے1920ء تک کا 42 سالہ یہ دور، درس گا ہ و کتب خانہ کا زریں دور ہے۔ حضرت جہا ں خود علم و فضل میں بلند مقام پر فا ئز تھے وہیں ایک اچھے کا تب بھی تھے۔ اپنے ذوق کی تشفی کے لیے کتا بت کرتے۔ کتب خانہ میں سرا جی (علم ِ میر ا ث) کا نسخہ آپ کی کتابت کیا ہو ا محفوظ ہے۔

book lot
Photo by Abene Sebei on Pexels.com

          حضرت مولا نا محمد علی ؒ اور آپ کے خانوا دہ سے منسلک علما نے ہمیشہ اپنے خاندا ن کو وصیت کی،کہ ہما رے وصال کے بعد تما م کتب کو مولا نا ؒ کے کتب خانہ میں محفو ظ کر وا دیا جا ئے۔ اب بھی کتب کی آمد کا یہ سلسلہ جا ری ہے۔ حضرت مولا نا کے خلفا نے بعض علما کی اولا د سے کتب اس وعدہ پر بھی کتب خانہ میں منتقل کیں کہ اگر آپ کی اولا د میں سے کو ئی بچہ عالم ہوا۔جو،اِن کتب کا حقیقی وارث ہو گا تو اسے یہ کتب ذوق کی بنا پر واپس دے دی جا ئیں گی۔ مولا نا عبد الرو ف ؒ انجروی کی اولا د کو ان کی کتب اس معا ہدے کے تحت واپس کر دی گئیں۔ کتب کی بہتر حفا ظت کا یہ ایک بہترین طر یقہ تھا جو خلفا ئے مولا ناؒ نے اختیا ر کیا۔ 

          حضرت مولانا غلام محی الدین احمد ؒ  (م۔ 1920ء) کے تین صا حبزا دے تھے۔

حضرت مولا نا محمد احمد الدین ؒ مکھڈی (م۔1969ء)             

حضرت مولا نا محمد الدین ؒمکھڈی (م۔1975ء)          

          حضر ت مولا نا غلا م زین الدین ؒمکھڈی ثم تر گو ی (م۔1978ء)

          تینوں حضرات علم و فضل میں یگا نہ ئ رو زگا ر تھے۔ بعض احبا ب نے (1920ء) کے بعد کتب خانہ مولا نا ؒکے با رے میں لکھا کہ اسے با قا عدہ ان بھا ئیو ں میں تقسیم کیا گیا۔ایسا ہر گز نہیں  ہوا۔چونکہ حضرت غلا م محی الدین احمد ؒ کے وصال(1920ء)کے وقت حضرت خواجہ محمو د غریب نو از تونسوی ؒ،سجا دہ نشین خانقا ہ محمو دیہ سلیمانیہ، تو نسہ شریف (ڈیر ہ غا زیخان)مکھڈشریف تشریف لائے تھے۔ آپ ؒ نے بھی کتب خانہ کی حفا ظت اور اسے ایک ہی مقام پر رکھنے کی تا کید فر ما ئی تھی۔ کتب خانہ اپنی سا بقہ عما رت متصل خانقاہ حضرت مولا نا ؒ میں ہی قا ئم رہا۔الحمد اللہ اب بھی وہیں موجو د ہے۔ البتہ حضرت مولا نا محمد الدین ؒ اور حضر ت مولا نا زین الدین ؒ نے اپنے ذوق ِ مطا لعہ کے جو کتا بیں کتب خانہ سے لیں۔اُن میں سے کچھ کتا بیں وا پس نہ ہوئیں،اور نہ ہی واپسی کا تقا ضا کیا گیا۔ پھر انھیں صا حبان نے اپنے ہاں نجی کتب خا نو ں کی بنیا د رکھی، جن میں یہ کتا بیں اور کچھ دیگر کتب جو بعد ازاں ان صا حبان نے خود خرید فرما ئیں تھیں،اِن نجی کتب خانو ں میں جمع ہوئیں۔اب ان نسخہ جا ت اور مطبو عہ کتب کو ان کتب خانو ں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ کتب خانہ مولا نا ؒکی کتب الحمد اللہ محفو ظ ہیں۔ان شاء اللہ جلد مخظو طا ت او ر مطبو عات کی فہر ست شا ئع کر دی جا ئے گی۔ اسکا لر کے لیے کسی بھی کتب کی سی۔ ڈیزیا کتا ب کا عکس مہیا کیا جا تا ہے۔ ”قندیل ِ سلیماں“ کے نا م سے ایک سہ ما ہی کتا بی سلسلہ جس کی اب ششماہی مجلہ کے صورت اشاعت ہوتی ہے۔ اپنی ۱۲، اشا عتیں مکمل کر چکا ہے۔ کتب کا اضا فہ بھی رو ز بہ رو زہو رہا ہے۔ کتب خانہ میں گو شہ ئ  نظا مؒ کے تحت سلسلہ چشتیہ نظامیہ و صا بریہ کی کتب کا ذخیر ہ جمع کیا گیا ہے۔ جبکہ گو شہ ئ  نذر صا بری میں اٹک کے اہل ِ قلم کی کتب کو محفو ظ کیا گیا ہے۔ گو شہئ ڈا کٹر عبدالعزیز سا حر، اور گو شہئ ڈاکٹرارشد محمود ناشا د میں ان صاحبان کی طرف سے کتب خا نہ مولا نا ؒ کو عطیہ کیے گئے ذخیر ہئ کتب کو جمع کیا گیا ہے۔گوشہئ افتخار احمدحافظ قادری اور گو شہئ عبدالروف قادری میں بھی علمی و ادبی کتب کا ایک عظیم ذخیرہ محفو ظ ہے۔ جو علم کے متلاشیو ں کے لیے را حت کا سا ما ں لیے ہوئے ہیں۔

تحریریں

ایم فل
پروفیسر اردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اٹک

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

صحابی رسولؐ کے مزار پر

پیر فروری 8 , 2021
سلطنت عمان جسے پاکستان میں اس کے دارالحکومت ، مسقط ، کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے
iattock

مزید دلچسپ تحریریں