السّلام علیکم کی تاریخ ، مقصد اور فائدے

تحریر :

سیدزادہ سخاوت بخاری

یہ بات ہر مسلمان جانتا اور مانتا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہء حیات اور پیدائیش سے موت تک ،  انسان کی پوری زندگی کے ہر ہر گوشے کے لئے راھنمائی فراہم کرتا ہے ۔ نہ صرف موت تک ،  بلکہ ، عالم برزخ یعنی قبر میں قیام سے لیکر یوم حساب تک ، اور وھاں سے ،  جنت و جہنم کی منزلوں کا پتہ بھی  دیتا ہے ، یہ الگ بات کہ ہم اسلام کو سمجھے ہی نہیں ۔

میری بات آپ کے لئے حیرانی کا باعث ہوگی کہ ” ہم اسلام کو سمجھے ہی نہیں ”  جی ھاں ، بالکل ، آج کا مسلمان ، سوچ سمجھ اور جان پہچان کر مسلمان نہیں ہوا  بلکہ مسلمان ماں باپ کے گھر پیدا ہوجانے سے مسلمان کہلاتا ہے ۔ مسلمان تو وہ تھے جنہیں دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہوا ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے دور میں پیدا ہوئے ، تابعین اور تبع تابعین کا زمانہ دیکھا ۔

پریشان مت ہوں ، مجھے آپ کے ایمان پر شک نہیں البتہ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے ،  کہ ، میں ، آپ اور ہم سب نسلی ، خاندانی  یا حادثاتی طور پر  مسلمان کہلاتے ہیں ۔ یقین نہ آئے تو غور کرکے دیکھ لیں ۔ اگر مسلمان کی جگہ کسی ھندو ، سکھ یا کسی بھی غیر مسلم ماں باپ کے ھاں جنم لیتے تو کیا ہم مسلمان کہلاتے ؟  اگرچہ یہ اس مالک و خالق کی مہربانی اور فضل ہے کہ کسی مشرک یا کافر کے گھر پیدا نہیں کیا لیکن اس میں ہمارا کیا کمال ۔ ہم نے کونسا تیر مارا جو اتنے فخر سے مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں ۔ ہمیں تو پکی پکائی روٹی مل گئی ۔ مزہ تو جب ہے کہ اب ہم اس نعمت خداوندی کا شکر ادا کرتے ہوئے ،  اسلام کو سمحھ کر اپنی زندگی اس کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق گزاریں ۔ یہی ایک طریقہ ہے کہ جس سے ہم اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرسکتے ہیں ورنہ ڈالڈے کے ڈبے پر خالص دیسی گھی کے لیبل سے زیادہ ہماری کوئی حیثیت نہیں ۔

اوپر بیان کرآیا ہوں کہ اسلام ایک ایسا دین اور مذھب ہے جو پیدائیش سے موت تک انسان کے حق میں مفید اور راھنماء اصول فراھم کرتا ہے ۔ یہ الگ بات کہ ہم نے کبھی ان پر غور نہیں کیا ۔ اس ضمن میں کہنے اور سننے کو بہت کچھ ہے مگر میرا آج کا موضوع اسلام کا فقط ایک حکم اور اصطلاح ہے جسے ہم سب

” السّلام علیکم ”  کی شکل و صورت میں کہتے ، سنتے ، لکھتے اور پڑھتے ہیں ۔

اس سے پہلے کہ بات کو آگے بڑھاوں یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ یہ اصطلاح نئی نہیں  بلکہ جب حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا گیا تو اللہ نے انہیں حکم دیا کہ جاو فرشتوں کو سلام کرو لھذا انہوں نے ایسا ہی کیا اور فرشتوں نے جواب میں وعلیک السلام و رحمة اللہ و برکاتہ کہا ۔ یہاں اس بات کی طرف بھی توجہ مبذول کرادوں کہ اسلام کو آئے چودہ یا پندرہ صدیاں نہیں ہوئیں بلکہ اس کی ابتداء حضرت آدم علیہ سے ہوئی ، وہ پہلے ، اور حضرت محمد مصطفے ص , اسلام کے آخری نبی تھے ۔ ہم اپنے نبی علیہ السلام کو آخری نبی اور خاتم النبیین اسی لئے مانتے ہیں کہ جس نبوت اور دین اسلام  کی ابتداء حضرت آدم علیہ سے ہوئی اس کی تکمیل ہمارے نبی کے آنے سے ہوگئی ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے  قرآن میں واضع طور پر کہ دیا ،

” الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا “

( سورة المائدہ 3 )

آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا ۔

اس آیت مبارکہ سے علم ہوا کہ ہمارے آقا و مولا ص پہ آکر دین اسلام مکمل ہوا لیکن یہ بھی جان لینا چاھئیے کہ اسلام کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور جتنے بھی انبیاء کرام حضرت آدم اور محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان آئے وہ سب اسلام کے داعی تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے لئے تمام نبیوں اور آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ اور یہ بھی سمجھ لیں کہ نماذ ، روزہ ، حج ، ذکواة اور دین کے جملہ احکام تمام پچھلی امتوں پر یکساں نافذ کئے گئے ۔ اسی لئے جب روزے یا صوم کا حکم آیا تو کہا گیا ، اے ایمان والو تم پر رمضان کے روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر فرض تھے ۔

اس ساری بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ

مسلمان معاشرے میں جو ایک دوسرے کو سلام کہنے کی روائت ہے ، یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ اس کی ابتداء ابوالبشر حضرت آدم سے ہوئی اور اس کا حکم خود اللہ نے دیا اس لئے اسے عام بات نہ سمجھا جائے ۔ اس کے اندر حکمت پوشیدہ ہے ۔ اس کا ایک فلسفہ ہے ۔ یہی نہیں بلکہ میں تو اسے عبادت سمجھتا ہوں ۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ دنیاء بھر میں مختلف مذاھب کے ماننے والے ، حتی کہ دہریے یا خدا کے منکر بھی جب ایک دوسرے سے ملیں تو اس موقع پر چند مخصوص الفاظ ادا کرتے ہیں ۔ مثلا ، انگریز گڈ مارننگ اور گڈ ایوننگ  کہتے ہیں ۔ ھندووں کے ھاں ” نمستے ” یا

“جے رام جی کی ”  کہنے کا رواج ہے ۔ سکھ آپس میں ملیں تو

” ست سری اکال ” کے لفظ ادا کرتے ہیں جبکہ عربوں کے ھاں صباح الخیر اور مساء الخیر کی اصطلاحات مروج ہیں ۔ ان تمام الفاظ اور اصطلاحات پر غور کریں ، ان میں سے کہیں بھی آپ کو دعائیہ مفہوم نہیں ملیگا ۔ مثلا ھندو اپنے بھگوان رام جی کی “جے ” یا بڑائی کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں ۔ سکھ اپنے اکال یا دھرم کو ست یا سچا ثابت کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ انگریز صبح یا شام کو اچھا کہتے ہیں ۔ اسی طرح عرب ، قبل از اسلام کی اصطلاح صباح الخیر یعنی خیر والی صبح کا پیغام دیتے ہیں جبکہ یہ صرف اسلام ہے جس نے ایک دوسرے کے لئے دعاء کرنے کی تلقین کی اور دعاء یقینا عبادت کا حصہ ہے ۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا ، ہم کسی سوچ ، سمجھ اور اختیار سے مسلمان نہیں بنے اور یہی وجہ ہے کہ اپنے دین اور اس کے احکامات و اصطلاحات کو بھی رواج اور رسم سمجھ کر ادا کرتے چلے جارہے ہیں ۔ کبھی غور کیا کہ السّلام علیکم کا مطلب اور فائدہ کیا ہے ۔

سلام ، عربی میں امن اور سلامتی کو کہتے ہیں لھذا جب ہم یہ الفاظ اداکرتے ہیں تو اس کا واضع مطلب یہ ہوتا ہے کہ تمہیں امن اور سلامتی نصیب ہو ۔ کیا یہ دعاء نہیں ؟ اور جب آپ کسی کو یہ دعاء دیتے ہیں تو سامنے والا جوابا وعلیکم السلام کہ کر آپ کے لئے بھی امن اور سلامتی کی دعاء کرتا ہے ۔ سبحان اللہ کتنا عظیم مذھب ہے جس نے دعاء کا ایک ایسا آٹومیٹک نظام وضع کردیا جو دن رات مسلسل حرکت میں رھتا ہے ۔ اندازہ کریں دنیاء بھر میں بسنے والے کروڑوں مسلمان صبح سے شام اور شام سے صبح تک کتنی بار یہ دعاء پڑھتے ہیں ۔ تمہیں امن نصیب ہو ، تمہیں سلامتی نصیب ہو ۔ ہر ایک ، دوسرے کے لئے امن و سلامتی کی دعاء کرتا چلا جا رھاہے ۔

سلام کے خدائی حکم ہونے کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ یہودی اور مسیحی برادری بھی ، ھندووں اور سکھوں کے برعکس ایک دوسرے کے لئے سلام کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں ۔ مسیحیت کے ماننے والے عندالملاقات  ” آپ پر سلامتی ہو ” کے الفاظ استعمال کرتے ہیں  جبکہ یہودی ” شلوم ” کہتے ہیں جو سلام کا عبرانی تلفظ ہے ۔ اور یہ اس لئے کہ توریت ، انجیل اور زبور خدا کا کلام ہے اور خدائی احکام سب امتوں پر ایک جیسے ناذل ہوئے ۔

امید کرتا ہوں کہ یہاں تک آکر سلام کی اہمیت واضع ہوگئی ہوگی لھذا اب یہ بھی بیان کردوں کہ اسلام نے عبادات اور دعاء کے لئے کچھ اصول اور قوانین وضع کئے ہیں جن کی پابندی لازم ہے ۔ مثلا ،

1. ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو السلام علیکم کہنا اگر سنت رسول ص ہے تو اس کا جواب دینا واجب ہوجاتا ہے یعنی جواب ضرور دیا جائے اور اس میں اگر رحمةاللہ و برکاتہ کا اضافہ کردیں تو ثواب دوگنا ملیگا ۔

2. سلام کے آداب

الف :  باھر سے آنیوالا گھر یا محفل میں موجود افراد کو سلام دے ۔

ب : چلتا ہوا شخص کھڑے یا بیٹھے شخص / اشخاص کو سلام کہے ۔

ج : گھوڑے ، گدھے ، موٹر کار ، سائیکل ، موٹر سائیکل یا کسی بھی سواری پر سوار شخص پیدل چلنے والوں کو سلام کہے ۔

د :  نماذ یا رفع حاجت میں مشغول شخص کو سلام دینا اور اس کی طرف سے جواب ممنوع ہے ۔

ح : کم عمر بچہ اپنے سے بڑوں کو سلام دے ۔

خ : اگر چلتا ہوا ، سوار یا باھر سے آنیوالا شخص کسی محفل میں موجودکثیر تعداد کو سلام کہے تو ان میں سے کسی ایک کی طرف سے جوابا وعلیکم السلام کہ دینا کافی ہوگا ۔

آج کے اس آرٹیکل کا مقصد یہ ہے کہ ہم سلامتی کی اس دعاء کو سوچ سمحھ کر عام کریں تاکہ تمام مسلمانوں کو امن و سلامتی نصیب ہو اور بھائی چارے کا مضبوط کیا جا سکے ۔ والحمد للہ رب العالمین

سیّدزادہ سخاوت بخاری
سیّدزادہ سخاوت بخاری سرپرست اعلی، اٹک ویب میگزین
تحریریں

شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اٹک نلہ

منگل جنوری 19 , 2021
جہاں تک زمین کا تعلق ہے تو باقی ماندہ کی تمام زمین ایک ہی قسم کی ہے ہلکی چکنی مٹی ہے جس میں زمین کے اندر کی ریتلی چٹانوں کی خاصیت پائی جاتی ہے۔
iattock

مزید دلچسپ تحریریں