کوہ قاف کی ڈائری

( سفرنامہء آذر بائیجان )

تحریر :

سیدزادہ سخاوت بخاری

مقیم : باکو شہر ، آزر بائیجان

جمعرات 29 اگست 2019ء

کسی بادشاہ کی حسین و جمیل بیٹی اپنے محل کی چھت پر گھوم رہی تھی کہ ایک ” دیو ” اسے اٹھاکر کوہ قاف لے گیا ۔ بادشاہ کو اس واقعے کی خبر ملی تو اس نے آس پاس کے شہزادوں کوجمع کرکے اعلان کیا کہ جو میری بیٹی کو بہ حفاظت اس دیو کی قید سے چھڑا کر واپس لائیگا ، میں اپنی بیٹی کی شادی اس شہزادے سے کردونگا ۔

پیشکش تو بڑی دلکش اور انمول تھی لیکن مہم ، جان لیوا ہوسکتی تھی ، کیونکہ ایک تو سلسلہءکوہ قاف ، موسمی اعتبار سے انتہائی یخ بستہ اور دشوار گزار علاقہ ہے ، اور پھر ایک دیو سے ٹکر ، کام آسان نہ تھا ، تاہم ایک نیک دل شہزادہ اس مہم جوئی کے لئے تیار ہوکر نکل پڑا. راستے میں اس کی ملاقات ایک بزرگ سے ہوئی ، جنھوں نے شہزادے کو بطور تحفہ جادوئی انگوٹھی عطاء کی تاکہ اس کا سفر بہ خیر و خوبی طے ہو اور وہ اپنے مشن میں کامیابی حاصل کرے ۔ ایک مدت تک پا پیادہ چلنے کے بعد بالآخر شہزادے نے دیو کے غار تک رسائی حاصل کرکے شہزادی کو اس کی قید سے رہائی دلائی اور ساتھ لیکر بادشاہ کے دربار میں پہنچا ۔ بادشاہ اپنی بیٹی کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس کی شادی ،  حسب وعدہ ، اس شہزادے سے طے کردی ، لیکن شہزادی نے ایسا کرنے سے انکار کردیا ۔

Princess
Image by Alexandr Ivanov from Pixabay

کہانی بڑی دلچسپ ہے لیکن اسے یہیں چھوڑنا پڑے گا کیونکہ کوہ قاف کے دیس سے جڑی ایسی بیسیوں کہانیاں ، برصغیر پاک وہند میں مشہور ہیں ۔

بڑی بوڑھی نانیاں اور دادیاں ہمیں کوہ قاف کی پریوں کی کہانیاں ہمیشہ سے سناتی آئی ہیں ۔ اردو ادب میں تو اس پر باقائدہ ،  کئی چھوٹی بڑی کتابیں لکھی گئیں ۔ ان ہی قصے اور کہانیوں کی بنیاد پر ہمارے ہاں بعض آرٹسٹوں نے پریوں کی شکلوں پر مبنی پوسٹر تک چھاپ دئیے ، جس میں ایک نہائت خوبرو لڑکی اپنے سنہری پروں کے ساتھ اڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ یہ تصور اتنا پرانا اور پختہ ہوچکا ہے کہ ہمارے ھاں لوگ اس مخلوق (پری )کے موجود ہونے پر یقین رکھتے ہیں ۔  اسی پری کی حقیقت جاننے اور اسے دیکھنے کی حسرت مجھے دوسری مرتبہ کوہ قاف کے دیس میں لے آئی ۔

2016ء میں پہلی مرتبہ وادی کوہ قاف کی ریاست جورجیا Georgia کو دیکھنے کا موقع ملا  اور اب اس سے ملحق ، آذاد اسلامی ملک ، جمھوریہ آذربائیجان Republic of Azarbaijanکے دارالحکومت باکو Bakuمیں موجود ہوں ۔

اس سے پہلے کہ آذر بائیجان کے بارے میں کچھ بتاوں ، یہ جان لیں کہ کوہ قاف جسے عرب قفقاذ اور انگریز Cacasus کہ کر پکارتے ہیں ، یہ پہاڑی سلسلہ ،  روس ، چیچنیا ، جورجیا ، آرمینیا ، ترکی اور آذر بائیجان تک پھیلا ہوا ہے ۔ اس کی چوٹیاں اگر برف کی سفید چادریں اوڑھے رکھتی ہیں تو اس کا دامن انواع و اقسام کے لذیذ اور شیریں پھلوں سے بھرا رہتا ہے ۔ ہمارے ھاں سڑک کے کنارے پہلے شیشم ( ٹاہلی) کے درخت ہوا کرتے تھے اب اس کی جگہ سفیدے نے لے لی ہے جبکہ ان ممالک میں اخروٹ ، سیب ، آلوچہ ، خوبانی اور انجیر کے درخت سڑک کی دونوں اطراف بہ کثرت  موجود ہیں ۔ دودھ ، مکھن اور شھد اگر اصلی حالت میں بغیر ملاوٹ کے نوش جان کرنا ہو تو وہ صرف یہاں ملتا ہے ۔ ان ہی خوبیوں اور نعمتوں سے مالا مال یہ ملک جمہوریہ آذربائیجان ، یورپ اور ایشیاء کے سنگم پر واقع ہے ۔

اس کے شمال میں روسی داغستان ، جنوب مغرب میں آرمینیاء اور ترکی ، مشرق میں بحیرہ کیسپئین اور ایران ، اور شمال مغرب میں جورجیا کی ریاستیں واقع ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی آبادی ایک کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے جس میں 90 لاکھ کے قریب آذری یا اذیری نسل کے لوگ ہیں ۔ باقی اقوام میں آرمینیائی ، ترکی ، ایرانی اور روسی وغیرہ ہیں ۔ اکثریتی طبقے کا تعلق اسلام اثناء عشری سے ہے ۔ ان کے علاوہ مسیحی ، زرتشتی یعنی آگ کی پوجا کرنے والے اورکچھ دیگر لوگ آباد ہیں ۔

یہاں مختصرا یہ بتاتا چلوں کہ بحیرہ کیسپئین اور بحیرہ اسود

Caspian Sea & Black Sea

کے درمیان واقع یہ پورا خطہ جس میں آذربائیجان ، جورجیا ، آرمینیا اور کئی دیگر چھوٹے چھوٹے ملک واقع ہیں ، ایک زمانے تک ، روسی ، عثمانی اور صفوی سلطنتوں کے درمیان جنگوں اور تسلط کی کشمکش کا میدان رھا ہے ۔ کبھی ایک آیا تو کبھی دوسرا قابض ہوگیا ۔

زار روس کی 80 سالہ بادشاہت سے نکلنے کے بعد پورا آذر بائیجان یعنی موجودہ اور ایرانی آذربائیجان ایک آذاد ملک بنا اور اس کا دارالحکومت ایرانی آزر بائیجان کا شہر تبریز تھا ۔ 1920ء میں سوویت یونین نے دوبارہ اسے ہڑپ کرلیا اور 1991ء تک یہ سوویت یونین کا حصہ رھا ۔

آذر بائیجان کا کل رقبہ 86600 سکوائر کلو میٹر ، آبادی تقریبا ایک کروڑ ، کرنسی منات MANAT  اورایک منات پاکستانی 95 روپے کے برابر ہے ۔

یہاں کے صدارتی سیاسی نظام میں ایک سے زیادہ پارٹیاں ہیں لیکن ایک ایوانی سسٹم یعنی صرف قومی اسمبلی ہے ۔ صدر کے ساتھ وزیراعظم بھی ہے لیکن صدر بااختیار ہے ۔  الہام علیوف موجودہ صدر ہیں ۔ اکثریت فقہ جعفریہ کی پیروکار ہے لیکن سنی مسلمان بھی مکمل آزادی اور تحفظ کے ساتھ ملکی امورمیں برابر کے شریک ہیں ۔

تیل ، گیس اور دیگر معدنیات کی دولت سے مالا مال یہ اسلامی ملک 1991 ء میں کمیونسٹ تسلط سے چھٹکارے کے بعد اب پہلی مرتبہ ٹیک آف کے موڈ میں ہے ۔ جس منظم طریقے سے یہاں پر ترقیاتی کام ہورہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا یے کہ آئیندہ چند برسوں میں یہ ملک کوہ قاف کا دبئی اور قطر ثابت ہوگا ۔

آذر بائیجان کی تاریخ قبل مسیح تک جاتی ہے ۔ پارسی یا آتش پرست مذہب کا بانی زرتشت اسی ملک کے شہر جنجا Ganga میں پیدا ہوا اور اسی کی تعلیمات سے ایران قبل از اسلام تک آتش کدہ کہلاتا تھا کیونکہ وہاں زرتشتی مذہب کی حکومت تھی ۔ اسی تاریخ کو لیکر اقبال اپنی نظم شکوہ میں کہتے ہیں ،

” کس نے ٹھنڈا کیا آتش کدہء ایراں کو “

باکو شہر -Image by Faik Nagiyev from Pixabay

باکو شہر ، جہاں اس وقت میں مقیم ہوں ،  کے قریب ایسا پہاڑی علاقہ ہے جہاں سردی کے موسم میں زمین سے آگ نکلتی ہے ، جا بجاء شعلے لپکتے نظر آتے ہیں اور حیرت کی بات یہ کہ بارش بھی اس آگ کو بجھا نہیں سکتی ۔ وھاں کے لوگ اسے نعمت خداوندی سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ سخت سردی میں انہیں پالے سے بچاتی ہے اور وہ لوگ اس آگ پر کھانا تک پکا لیتے ہیں ۔ گرمی آتے ہی یہ آگ بجھ جاتی ہے ۔ ہزاروں سیاح سردی کے موسم میں اس آگ کے نظارے سے لطف اندوز ہونے کے لئے ان پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں ۔

باکو شہر بحیرہ کیسپئین کے کنارے واقع ہے ۔ کمال کی نقشہ نویسی اور عمارتیں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ ساحل سے ملحق پرانا باکو Old City ہے ۔ لاہور کے پرانے شہرکی طرح اس کے گرد بھی پتھر سے بنی فصیل ہے ۔ ہم نے تو لاہور اور دیگر پرانے Walled Cities کا حلیہ بگاڑ دیا ہے لیکن شاباش ہے آذربائیجان والوں کو ، کہ انہوں نے اسے جوں کا توں برقرار رکھا ہوا ہے ۔ فصیل شہر سے لیکراندرون شہر کی عمارات تک کہیں ایک اینٹ بھی ہلنے نہیں دی انہوں نے ۔ وہی پتھر کے بنے گھر ، تنگ گلیاں ، ڈیوڑیاں ، چوب دار  کوکوں والے دروازے ، جھروکے اور کھڑکیاں ، کسی پرانی فلم کا نظارہ پیش کرتی ہیں ۔

جب سے اس حکومت نے ویزے کے حصول میں نرمی کی ہے ، سیاحوں کا سیلاب امڈ آیا ہے ۔ پاکستان ، خلیجی ریاستیں ، ترکی ، روس ، ملحقہ ممالک اور یورپ سے لوگ ٹولیوں کی شکل میں آرہے ہیں ۔ سیاحوں کے قیام و طعام کے لئے ہوٹل اور ریسٹوران بھی وافر تعداد میں موجود ہیں ۔ ہر معیار کا ہوٹل اور ریسٹورینٹ مل جاتا ہے ۔ مسلمان ملک ہونے کے ناطے ہر جگہ حلال کھانا دستیاب ہے ۔ ہر محلے اور علاقے میں قدیم و جدید مساجد سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ۔ یورپی و غیر مسلم سیاحوں کے لئے مشروبات و لوازمات پہ کوئی پابندی نہیں ۔

یہاں کے مشہور شاعر اور قصہ لیلی مجنوں کے خالق نظامی گنجوی کے نام سے منسوب علاقہ نظامی اسٹریٹ رات دن سیاحوں سے بھرا رہتا ہے۔ درمیان میں ایک وسیع باغ ، چاروں اطراف ریستوران اور فیشن ایبل دکانیں ، ان پہ منڈلاتے سیاح  اور مقامی لوگوں کا جھمگٹا ، میلے کا سا سماں پیدا کردیتا یے ۔ اگرچہ مقامی آبادی کی غالب اکثریت مسلمان ہے لیکن کمیونسٹوں کے زیر اثر پروان چڑھنے والی نسل مکمل یوروپیئن لباس استعمال کرتی ہے ۔ کہیں کہیں کوئی بوڑھی خاتوں سر پر دوپٹہ یا اسکارف اوڑھے نظر آتی ہے ۔

نظامی گنجوی – تصویر بشکریہ ویکیپیڈیا

اگرچہ ان کی بود و باش یوروپین طرز پر ہے مگر اسلام سے محبت میں کمی واقع نہیں ہوئی ، مساجد اورمقابرکا مکمل احترام اور تقدیس موجود ہے ۔

باکو شہر سے چند کلو میٹر کی دوری پر  بی بی ہیبت کی مسجد ہے ۔ بحیرہء کیسپین کے کنارے پہاڑ پر بی بی فاطمہ حکیمہ بنت امام موسی کاظم علیہ السلام  اور ان کی تین بہنوں کا مزار ہے ۔ امام موسی کاظم علیہ السلام  کی ۹ میں سے چار بیٹیاں یہاں دفن ہیں ۔ باہر سے  مسجد نظر آتی ہے لیکن اندر جائیں تو ایک طرف بی بی کی ضریح مبارک ہے اور دوسری جانب مسجد کا ہال واقع ہے ۔ رات دن زائرین کا تانتا بندھا رھتا ہے ۔ سوویت یونین کے زمانے میں دیگر مذھبی مقامات کی طرح بی بی کے اس مزار کو بھی مسمار کردیا گیا تھا لیکن آذربائیجان کی آذادی کے بعد ان کے بانی صدر حیدر علیوف نے سب سے پہلے اس ضریح اور مسجد کی بحالی کا حکم دیا ۔

آذر بائیجان اسلامی تاریخ کا خزانہ ہے ۔ باکو میں اگر امام موسی کاظم علیہ السلام  کی بیٹیاں دفن ہیں توجنجا شہر میں امام محمد باقر علیہ السلام کے دو بیٹے اسماعیلؑ اور ابراھیمؑ کے مزارہیں ۔ صوبہ نیخچوان میں اصحاب کہف کی غار ہے ۔ اس کے علاوہ بھی بیشمار تاریخی مقامات ہیں ۔

پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے اس قوم کے دل میں ایک خاص جذبہ محبت ہے ۔ پاکستانیوں کودیکھ کر خوش ہوتے ہیں ، محبت کا اظہارکرتے ہیں ۔ مجھے دنیاء کے چند ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا لیکن گرین پاسپورٹ کی جو قدر ، عزت اور احترام اس ملک میں دیکھا ، وہ کہیں اور نظر نہیں آتا ۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بہت سارے پاکستانی یہاں تلاش معاش کے سلسلے میں دھڑا دھڑ چلے آرہے ہیں لیکن اس ملک میں ملازمت کے مواقع بالکل ناپید ہیں ۔ البتہ انویسٹمنٹ اور سیروسیاحت کے لئے آنیوالوں کے لئے بہت کچھ ہے

سیّدزادہ سخاوت بخاری

باکو، آذر بائیجان

تحریریں

شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

دیوالیے

منگل جولائی 20 , 2021
سوامی جی نے آگے کہا:جس طرح چاند، سورج اور زمین گول ہے ٹھیک اسی طرح بھگوان زمین پر اوتار لیتے ہیں۔
sadhu

مزید دلچسپ تحریریں