انٹرویو- دردانہ نوشین خان

انٹرویو- دردانہ نوشین خان

سوالات:سید نصرت بخاری

جوابات:دردانہ نوشین:

دردانہ نوشین خان کا تعلق مظفر گڑھ سے ہے،یہی شہر ان کا جائے پیدایش ہے؛ان کے والد کا نام غلام محمد خان ہے۔ان کی تاریخ پیدائش معلوم نہ ہو سکی۔معروف افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ان کے افسانےاور تنقیدی خطوط ملک کے ممتاز رسائل میں شایع ہوتے ہیں ۔ایم۔اے انگلش ہیں۔ایس ۔ایس۔ٹی کی حیثیت سےملازمت کا آغاز ہوا ۔بعد ازآںسینئر سبجیکٹ سپیشلسٹ(S.S.S)کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں۔

مطبوعات:پہلا زینہ،اندرجال،ریت میں نائو،ریگ ماہی،ریت کے بھوت،پھولوں کی رفو گری،صفہ۔

ث سوال1:ایک قلم کار خاتون کو معاشرے میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

جواب:

 قلم کا ر خاتون خواہ وہ روایتی ماحول سے وابستہ ہو یا بڑے شہروں کی رہایش پذیر اس کو مرد کی نسبت دوگنا مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل کو دو پہلو سے جانچا جا سکتا ہے۔:پہلی بات :ادبی تقاریب میں شمولیت ، ادبی کارکردگی پہ تجزیہ و تحسین کا حصول اور گفتگو کے مواقع ، دوسری طرف خود نسائی قلم کو توازن و اعتدال کی ضرورت ہے۔ عام طور پہ دیکھا گیا ہے کہ عورت کا قلم زندگی کی چھپی جہات جسمانی مسائل ،نفسیاتی گرہ بندیوں کو اول تو چھیڑتا ہی نہیں، اگر چھیڑے تو اسے پھر اس کے نتائج کا بھی سامنا کرنے کو تیار رہنا پڑتا ہے ۔ مردانہ معاشرے میں کہا تو یہ جاتا ہے کہ عورت اپنے عورت ہونے کی رعایت و نمبر لے جاتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عورت کا شا ہ کار ناول مرد کے شاہ کار ناول سے کمتر عورت کا شاہ کار سفر نامہ مرد کے اسی لیول کے سفر نامے سے نیچے اور عورت کی شاعری تو مرد کی شاعری سے کبھی سبقت یافتہ قرار دی ہی نہیں جاتی۔ عورت کو مرد کی طرح وقت، مواقع برائے مشاہدہ، ذہنی یکسوئی ، تجرباتی امکانات، جستجو کے راستے، مسافرت کی سہولتیں، حتی کہ جذباتی اظہار کی شاہ راہ میسر نہیںہے۔اور وہ سب جو عورت کو مہیا نہیں مرد کو کوئی عورت ہی مہیا کرتی ہے جبکہ قلم کار عورت کو اگر گھر کے مرد کی طرف سے تا ئید حاصل بھی ہو تو وہ اتنی ہی ہوگی کہ بی بی جو مرضی کرو میری پابندی نہیںمگر وہ ماحول سجا کے پیش نہیں کرے گا۔

durdana

انٹرویو- دردانہ نوشین خان
دردانہ نوشین خان

ث سوال 2:بعض خواتین کے شعر اور افسانہ میں مرد بے زاری بہت نمایاں ہے۔کیا یہ رویہ درست ہے؟مرد بے زاری کے اسباب کیا ہو سکتے ہیں؟

جواب: لکھنا اظہار ذات ہےہر لکھاری کی لکھاوٹ میں اس کی زندگی کے حاوی تاثرات کا عکس ہوتا ہے۔ جن خواتین رائڑز کی تحریروں میں مرد بے زاری نمایاں ہے تو یہ ان کا مشاہدہ بھی ہو سکتا ہے اور تجربہ بھی۔ پروین شاکر کی شاعری میں بے وفائی کا گلہ ہے، شاعری میں اس کا رنگ زیادہ واضح ہوتا ہے۔ نثر میں کہانی کا رنگ دینا پڑتا ہے اور بار بار ایک کہانی نہیں لکھی جا سکتی ۔میں اس سوال سے متفق نہیںہوں کیونکہ یہ خال خال ہی ہے۔ میرا تعلق وسیب سے ہے ۔یہاں کے پسماندہ دیہی علاقہ جات میں مردانہ حاکمیت کی ان گنت کہانیاں ہیں۔ یہاں فیملی گیدرنگ میں بھی مرد الگ بیٹھتے ہیں۔ مردوں کو بہتر نشست، بہتر کھانا، بہتر بستر، اور احترامی رویہ دیا جاتا ہے خواہ وہ جس بھی رشتے کی شکل میں ہو۔ صدیوں کے اس رویے نے مرد کی نفسیات میں جہاں برتری بھر دی ہے ،وہاں اس کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دبی ہوئی عورت ادھیڑ عمر میں پر پرزے نکال لیتی ھے ۔اس لیے یہاں ساس ظالم ھوتی ہے۔ وہ عورت نہ صرف بیٹے پہ حق جما کے دوسری عورت کو دباتی ہے بلکہ شوہر کو بھی دبانے کے گر سیکھ لیتی ہے؛ خیر یہ ایک الگ بحث ہے ۔یہاں کی لکھاری عورت کے قلم میں مرد سے بے زاری یا شکایتی رنگ ہو سکتا ہے ۔یہی حال سندھ اور بلوچستان کا بھی ہے ۔ جغرافیہ کو ادب سے الگ کیا ہی نہیں جا سکتا۔

ث سوال 3:بعض ناقدین کا خیال ہے کہ امرتا پریتم،قرۃ العین حیدر،عصمت چغتائی،پروین شاکر،کشور ناہیدوغیرہ جیسی خواتین کی شہرت خواتین ہونے کی وجہ سے ہے۔

کس قدر ظالمانہ سوال ہے۔ نام ایسے کہ جن کے بنا کتب خانے ویران اور لائبریریاں نا مکمل ہیں ۔ اگر خاتون لکھاری کو عورت ہونے کے بنا پہ شہرت ملے جیسا کہ یہ بھی ہو جاتا ہے تو وہ شہرت عارضی اور مذکورہ خاتون کی حیات تک ہوتی ہے ۔گلیمر تعلق داری دکھاوا چند برسوں تک بہار دکھا سکتے ہیں۔ نسل در نسل نہیں۔ قرت العین حیدر، امرتا پریتم، عصمت چغتائی و دیگر ہم پلہ ادیب و شاعرات کی شہرت سرحد پھلانگ گئی۔ ان پہ دیگر زبانوں پہ تبصرے تجزیے ہوئے اور ان کا مطالعہ کیا گیا ۔ ان تبصرہ نگاروں یا قارئین کو اس سےکیا فرق پڑتا تھا کہ لکھنے والی عورت ہے یا مرد ۔البتہ عورت ادیب کی تحریر میں ایک سماجی کشش ایک تہذیبی ذائقہ اور زندگی کا رس ہوتا ہے۔ شاید وہی رنگ و آہنگ فطری تحفہ ہے جو انگلیوں سے قلم میں منتقل ہوتا ہے ۔ خواتین کی شہرت کا سبب خاتون ہونا اگرہو سکتا ہے تو مرد قلم کار کا شہرت کمانے میں مرد ہونے کا ہاتھ بھی ہو سکتا ھے۔ مرد آسانی سے سفر کر سکتا ہے، دوستی، خوشامد کے تعلق گانٹھ سکتا ہے،ہوٹلوں میں مطلوب شخصیات کی دعوتیں کر سکتا ہے،کاسہ لیسی سے جگہ بنا سکتا ہے لیکن ایسی شہرت مرد ادیب کی دائمی ہوتی ہے نہ عورت ادیبہ کی۔

ثسوال4:بنائو سنگھار کی روایت عورت کی ذات سے مخصوص ہے۔مزاج کا حصہ ہونے کی وجہ سےکیا خواتین کے شعر و افسانہ وغیرہ میں خواتین کا یہ ہنریا ذوق بھی کارفرما ہوتا ہے؟

جواب: ڈا ئجسٹ رائیٹرز کے ہاں تو بنائو سنگھار لباس میں، رنگوں کی میچنگ، زیورات اور جوتوں کے بعد ہاتھ پائوں کا حسن نفاست سے بیان کیا جاتا ہے لیکن یہ صرف ڈائجسٹ میں لکھنے والی خواتین تک محدود نہیں، جوں جوں ماضی کی قلم کار خواتین کی کتب کی ورق گردانی کریں اس کا اظہار مل جاتا ہے۔ واجدہ تبسم کے ہاں کپڑوں کی اتنی قسمیں اورپاجاموں دوپٹوں کے کام ،کڑھائی کی اتنی قسمیںہیں کہ بوتیک کھل جاتا ہے ۔ “جامے دار بنارسی کتان زری تاش کم خواب ۔۔” (آسمان )۔ عصمت چغتائی نے بھی نسائی سنگھار کی منظر کشی کی ہے مگر وہ منظر کشی ماحول کی شدت و حدت کو بیان کرنے کے لئے ہے مثلا: افسانہ ’’ڈائن‘‘: ’’سر شام ہی انہوں نے صنوبر کو نہلا دھلا کر  صاف ستھرا پیازی جوڑا پہنایا، مہندی توڑ کر پسوائی ،خوب رچی تھی۔ہاتھوں پیروں میں خوشبو دار تیل ڈال کر چوٹی گوندی، جس میں ٹول کا موباف ڈالا، شمامتہ العنبر سر سے پیر تک بسیایا۔ “بانو قدسیہ بنائو سنگھار سے واجبی دلچسپی لیتی نظر آتی ھیں۔راجہ گدھ کی ایک مثال یاد آ رہی ہے: ” سارے جگنو مقیش لگے دوپٹے کی طرح چمک رہے تھے۔  بشری رحمن کےہاں سنگھار تہذیب کو اجاگر کرنے کے لیےہے۔ کشور ناہید اس تام جھام سے آزاد نظر آتی ہیں؛ اور امرتا پریتم کا بھی یہی حال ہے۔ وہاں فلسفہ زیادہ ہے، منظر نگاری ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ قرۃ العین حیدر ملبوس کو شخصیت نگاری کے لیےاستعمال کرتی ہیں۔ شاعری میں عورت بنائو سنگھار کو کس حد تک لاتی ہے، اس کا کبھی جائزہ نہیں لیا؛ اندازہ ہے کہ وہاں اس کا دخل نثر سے کم ہی ہو گا۔ عورت کی زندگی کا بڑا عملی حصہ بنائو سنگھار کی کسی نہ کسی صورت سے رہتا ہے۔ خود کا نہ ہو تو اولاد اور بچیوں کا خیال۔ یہی حال باورچی خانے کی ہے، تو عورت ادیب ان کو واضح نہ سہی استعارے تشبیہ میں لاتی ہے۔

ثسوال5:شعروادب میں بعض مرد وں کے ہاں خالص زنانہ مسائل اورجذبات کا اظہار بھی دکھائی دیتا ہے،کیا مرد عورت کے جذبات کی مکمل عکاسی کر سکتا ہے؟

جواب: بعض مردوں کے ہاںنہیں،ہر بڑے ادیب کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اس موضوع پہ ان کی گرفت ہونا لازم ہے۔ ممتاز مفتی ، ابدال بیلا کے نام تو عصر حاضر کے ہیں لیکن کیا منٹو کوہم زنانہ جذبات سے نابلد کہ سکتے ہیں؟ کہانی کار جب کہانی لکھتا ہے تو مردانہ کالج یا دفتر تک محدودنہیں رہ سکتا۔ یہی صورت حال عورت لکھاری کے ساتھ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مرد عورت کے جذبات کی سچی عکاسی کر سکتا ہے؟ میرے خیال میں وہ اپنے کردار کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ کردار طوائف کا بھی ہو سکتا ہے، معمر استانی کا بھی، منفی یا مقدس بھی ۔ بس کام تو چلا لیا جاتا ہے مگر سو فیصد کامیابی نا ممکن ہے۔مرد ادبا نے بڑی جرأت اور بولڈ نس کے ساتھ عورت کے نفسیاتی اور جذباتی احساسات کو رقم کیا ہے۔ اس کا انحصار گہرے مشاہدے پر ہوتا ہے۔ ادیب ہر تجربے سے خود نہیں گزرتا، نہ گزر سکتا ہے؛ مگر وہ اسے خود پہ گزرتا خیال کر کے قلم پہ لاتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ مرد ادیب کا زنانہ مسائل پہ لکھا ہوا پیرایہ صنف مخالف رد کر دے مگر قلم کار اپنا دفاع یوں کرسکتا ہے کہ دنیا میں مختلف الخیال عورتیں ہیں۔ سب کی اپنی سوچ اور اپنا اندازہو سکتا ہے تاہم باریک بینی سے اس معاملے کو لیا جائے تو مرد کا عورت کے باطن کو جاننے کا دعوی مضحکہ خیز ہے۔ دوسری طرف مسئلہ یہ ہے کہ عورت قلم کار ایک حد کے بعد رک جاتی ہے۔عموماََ یہ ایک عمومی ادبی چلن ہے۔ میانوالی کی ایک شاعرہ شاہدہ نیازی کی نظم “اندر کی عورت” کے یہ اشعار بر محل ہیں:

 عورت کے اندر کا جہاں

 حسرت خواہش اور ارماں

رسم ورواج کی مٹی کے نیچے

پھیلا ہے اک قبرستاں

ثسوال6: تعلیمی نصاب میں خواتین کی نمائندگی بہت کم ہے مثلا اگر چودہ اسباق ہیں توتیرہ مردوں کے اور ایک عورت کا لکھا ہوا،یہی حال منظومات میں بھی ہے۔ کیا عورت کی حق تلفی ہے یا خواتین کا ادب میں کردار اسی تناسب سے ہے؟

جواب:تعلیمی نصاب کے مشمولات کے انتخاب کا اپنا طریق کار ہے اور پاکستان میں کوئی بھی طریق کار کرپشن سے خالی نہیں؛ البتہ اس کی مقدار کہیں کم کہیں زیادہ ہو سکتی ہے تو عورت کی تحریر کم ہونے کا ایک سبب تو یہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت مردوں جتنی سرگرم تعلق دار نہیںہے، دوسری وجہ یقینا مرد کی نسبت عورت لکھاری کی تعداد کم ہے بلکہ بہت کم ہے ان کم لکھنے والیوں میں معیاری لکھنے والی خواتین کا تناسب مزید کم ہے۔ لہذا جو باقی بچتی ہیں، ان میں سے انتخاب ہوتا ہے ۔ آج آپ نے یہ سوال کیا ہے تو اس سے متعلقہ جواب بھی دے دوں میں 2005 سے ادبی جراید میں لکھ رہی ہوں۔ یہ 14 سال بنتے ہیں جبکہ اس سے قبل 85 سے اخبارات و ڈائجسٹ میں بہترین معیار کا لکھ رہی ہوں، بہترین معیا ریوں کہہ سکتی ہوں کہ سال کے بہترین افسانہ کے چنائو میں، میں نےلگ بھگ 20 یا 25 انعامات لیے ۔ میرے بہت بعد آنے والے جونیئر مرد شعرا اور ادبا پہ متعدد ایم۔ اے، ایم۔ فل کے مقالہ جات لکھے جا چکے، میرے کام پہ ایک مقالہ ایم۔ اے ، دوسرا نامکمل خبر کی حد تک ہواکس لیے؟اس لیے کہ میں نے چاپلوسی ،سفارش یا دوسرے ذرایع تلاش نہیں کیے۔ اس طرح سے ریشو بنتے ہیں ۔ اس طرح گم نام شہید گم نام ہی رہتے ہیں۔

ثسوال7:آزادیِ نسواں جیسی تنظیمیں بنائی گئیں،’’میرا جسم میری مرضی ‘‘وغیرہ جیسے نعرے بھی سرعام دیکھے سنے،اس موضوع پر بالخصوص روشن خیال خواتین نے افسانے لکھے،شعر کہے لیکن خواتین کا ایک بڑا طبقہ اس بے باکی کے خلاف بھی ہے،لیکن مخالفت کے باوجود اس بے باکی کے خلاف قابل ذکر ادب نہیں لکھا گیا۔اس کی وجہ؟

جواب:اصل میں یہ دونوں سوچیں دو انتہائیں ہیں ۔ آزادی نسواں کی این۔جی۔ اوز میں ایسے مرد ملازم بھی موجودہیں جو بیوی کو مارتے اور گالی گلوچ کرتے ہیں۔ یہ میں ایسے ہی نہیں کہہ رھی، یہ میرا مشاہدہ ہے۔ میں نے اس موضوع پہ ایک طویل افسانہ “میں ایک عورت ہوں ”  لکھا تھا۔ یہ این۔ جی۔ اوز ہوں یا تنظیمیں، یہ محض کمائی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ان کے وسیلے سے کثیر فنڈز حاصل کیے جاتے ہیں۔ اس کی مثال پولیس کی ہے۔ جس کا ماٹو “مدد اپ کی” ہے مگر وہ عملا اس کے خلاف کارفرما نظر آتی ہے۔ ان کے نعروں اور جلسوں جلوسوں کا پسماندہ مظلوم عورت سے کو ئی تعلق نہیں ہے ۔ میں جانتی ہوں عورت کی حالت بہت جگہ اچھی ہے۔ بیٹی کو بیٹے کے برابر محبت اور حقوق دیے جاتے ہیں۔ جہاں اچھی سوچ ہے وہ میرا موصوع سخن نہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ عورت کی مظلومیت پہ تو کافی لکھا گیا ہے ۔نہ صرف عورت نے بلکہ مرد رائٹرز نے بھی لکھا ہے۔ آج کے ڈراموں میں سے 50%  کا موضوع یہی ہے ۔ڈرامہ رائیڑ نے تو اس لیے یہ موضوع  اپنا رکھا ہے کہ وہ عورت کی ٹریجڈی سے مقبولیت اور رٹینگ حاصل کرتے ہیں۔ ان کا کوئی سنجیدہ مقصد کم ہی ہوتا ہے۔ تاہم اپ کا سوال یہ ہے کہ جو لوگ آزادی کے بے باک نعروں اور دلیلوں کے خلاف ہیں وہ کیوں نہیں لکھ رہے ۔انہیں یہ بتانا چاہیے کہ عورت کو ایک حد تک آزادی مطلوب ہے، اس سے آگے کی آزادی خود اس کا تما شا ھے۔یہ پیغام بھی لکھا جا رہا ہے کہ پاپولر ادب میں ایسی کہانیاں اور ایسی نسائی کردار پسند کیے جاتے ہیں جو با سلیقہ، مہذب، سگھڑ، نیک ہوں۔ ان تحریروں کو ہم پرچارک تو کہ سکتے مگر وہ دل پہ گہرا نقش نہیں چھوڑتیں ۔ہر لکھاری اپنیے گرد ونواح سے سچائیاںسینچتا ہے۔ہماری جاگیردارانہ معاشرت میں عورت دوسرے نمبر کا شہری ہے اور قلم گھوم پھر کے اس سچ پہ آ جاتا ہے کہ جس طرح ہمارے ہاں معاشی طور پر دو واضح گروپ وجود میں آگئے ہیں: امیر اور غریب اور تیسرا ہے مڈل طبقہ بعینہ اسی طرح سوچ کے دو گروپ ہیں :موڈرن، تنگ دماغ اور تیسرا درمیانہ۔ درمیانے میں دونوں کی خامیاں دونوں کی خوبیاں ہوتی ہیں۔دیہی طرز سوچ میں عورت کچھ کر لے مرد کے ظلم سے آزاد نہیں ہو سکتی۔ اصل راز یہ ہے کہ یہ نام نہاد تنظیمیں جن مقاصد کو بنیاد بنا کے بڑھی ہیں وہ ہی واضح نہیں ہیں۔ ایک دفعہ ایک پڑھی لکھی لڑکی نے کسی ویمن راٹس ایسوسی ایشن کی بک لٹ پڑھنے کے بعد کہا تھا: اس کو پڑھ کے تو دل کرتا ہے گھر جا کے ابا اور بھائی کے خلاف نعرے لگائوں، بینر لکھوں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ مرد کے خلاف محاذ جنگ نہیں کھولنا، نہ ہی ہر مرد اس کا نشانہ ہےنشانہ تو ناپسندیدہ اقدار، اندھا دھند فالو کی جانے والی رسوم، لاشعور میں جم کے بیٹھے گھسے پٹے فلسفے ، ٹابوز اور سماجی یقین ہیں ۔ مرد برا نہیں ہے، اس کے منہ نکلنے والی دشنام بری ہے۔ اس کے نا حق اٹھنے والے ہاتھ کی فرعونیت بری ہے۔ اس کا خود کو خدا سمجھنے کا تکبر برا ہے۔ اس کی انا پرستی بری ہے۔ اپنی عزت کی خاطر عورت کی عزت کو پاوں تلے روندڈالنا براہے ۔ چنانچہ لکھنے والے کوقلم مشاقی اور سمجھداری سے اٹھانا ہو گا ۔ کردار سازی تو لازم ہے۔ نفرت کردار سے نہیں، بد اعمالیوں سے ہو اور منفی سوچ سے ہو تو قلم کی کامرانی ہے۔جہاں تک ادب کا یہ پہلو ہے کہ اصلاح اس کے ذمے نہیں، اس نے تو پردے کے پیچھے دکھانا ہے، میز پوش کے نیچے دکھانا ہے ۔ آئینہ چمکا کے آنا ہے نہ کہ منظر چمکا کے، تو اس لحاظ سے مرد زد میں آتا  تو ہے۔

ثسوال8:خواتین کے ہاں جو ادب تخلیق ہو رہا ہے اس میں گھر کی سلطنت سے فرار اور بغاوت نمایاں ہے ؛کیا یہ رویہ درست ہے؟عورت کو آفس کی ذمہ داری سونپی جائے تو اسے اعزاز سمجھتی ہے لیکن گھر کی ذمہ داری کو غلامی سمجھا جانے لگا ہے۔کیا واقعی آفس کی اہمیت اوروقار گھر سے زیادہ ہے؟

جواب:میرا خیال ہے آپ کے اس سوال کا تعلق معاشرہ اور رویہ جات سے زیادہ ہے ادب سے نہیں کیونکہ خواتین کے ہاں جو ادب تخلیق ہو رہا ہے اس میں گھر سے فرار کا پہلو کچھ ایسا نمایاں نظرنہیں آتا۔ خود میرے افسانے زندگی کے گرد گھومتے ہیں تو زندگی گھر کے اندر بھی ہے اور باہر بھی۔ میں بڑی افسانہ نگار خواتین کے نام ذہن میں لائوں تو ان کے ہاں بھی انسان یا عورت کو موضوع بنایا گیاہے۔ دفتر کی عورت کے مسائل بھی زیر موضوع ہو رہے ہیں بلکہ جدید افسانوں میں عورت یا مرد کی نفسیات کو پرکھا اور لکھا جا رہا ہے ۔عورت اگر دُہری ذمہ داری نبھا رہی ہے تو اس صورت میں مسائل تفکرات اور خوشی کی نوعیت الگ ہو گی۔چار دیواری میں موجود عورت کی ڈپریشن باہر کی عورت سے مختلف وجوہات پہ ہو گی۔ ماضی کی لکھاری خواتین نے زیادہ تر اس کو موضوع بنایا۔ واجدہ تبسم، خدیجہ مستور، وحیدہ نسیم،ہاجرہ مسرور،عصمت چغتائی کے ہاں بھی گھریلو عورت کی نفیسات ہے، لیکن بانو قدسیہ، قرۃ العین حیدر، بشری رحمن، فہمیدہ ریاض، فاطمہ حسن ، طاہرہ اقبال اور عصر حاصر کی اکثریت خواتین چونکہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں ملازمت کر رہی ہیں یا بیرونی زندگی کا تجربہ رہا ہے چنانچہ ان کے قلم سے عورت کی گھبیر اور پیچیدہ تصویر آ رہی ہے ۔اس عورت کا مقابلہ بازی، حسد، کڑھن، گھٹن، آرزو، امید، خوشی کے میعارات،چاردیواری والی عورت سے جدا ہیں۔ رہی یہ بات کہ عورت گھر کی ذمہ داری کو اعزاز کیوں نہیں گردانتی،ا س لیے کہ یہ ذمہ داری اسے اعزاز کے انداز میں دی ہی نہیں گئی ۔ سارا دن آرام کرنے ،روٹیاں توڑنے ،دنیا سے نابلدہونے، چھوٹا دماغ ہونے، کھا نے کھلانے تک محدود مرد نے سوچی اور سوچوائی ہے۔ گھر کے بھی جو اہم اور مرکزی فرائض ہوتےہیں ،اُن کا فیصلہ مرد کرتا ہے:مکان بنوانا،اولاد کی شادی بیاہ کے فیصلے،تعلیم کا انتخاب یہ عام  طور پہ صاحب خانہ فیصلہ کرتا ہے یا صدیوں سے کرتا چلا آ رہا ہے، اب عورت کے پاس باقی سلطنت پہ حاکمیت کیا بچتی ھے بچہ پالنا، اس کے لئے جاگنا، کھانا بنانا، گھر صاف رکھنا ۔ نہ وہ اس سلطنت کی صدر نہ وزیر اعظم نہ بادشاہ نہ ملکہ۔ عورت کے سامنے بھی اب زندگی کی نئی جہات ہیں۔ ایک زندگی چاردیواری کے اندر ہے ،جہاں خونی رشتوں کے علاوہ رشتہ داریاں ،سسرال، سمدھنیں، داماد، بہو کے ناتے ہیں ان میں مرد کردار بھی ہیں اور رنگا رنگ عورتیں بھی ۔ یہ ڈائجسٹ رائٹر کا پسندیدہ میدان ہے اور اس کے قاری کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ وہی قاری ان پہ بننے والے ڈراموں کے ناظرین ہیں۔ مقبولیت میں یہ موضوع سدا بہارہے اور رٹینگ میں سب سے آگے ہے ۔ دوسری جہت کمانے کے لئے گھر سے نکلنے والی عورت کے آگے پھیلی دنیا ہے۔ یہ دنیا صرف عزت شفقت احترام اور اخلاق کی نہیںہے بلکہ یہ خوبیاں تو اس میں بہت کم ہیں۔ یہاں عورت کے کمانے کے روپ بھی ایک سی نہیں۔ وہ بھٹہ مزدور بھی ہے ،کسان بھی ہے، دکاندار، تاجر، رکشہ ڈرائیور ، باورچن، پھر استقبال گر، میزبان سفر،  ہوٹل ریسپسنسٹ،انجینئر، ڈاکٹر، پولیس ،فوج،استانی، کلرک اور بازار حسن کی بیوپاری بن کے بھی روزی کما رہی ہے ۔ اس کو گھورنے والی آنکھ، اس پہ دشنام طراز زبان کے ہتھ کنڈے جدا جداہیں۔ یہاں سے جیت کے نکلنا اس کو اعتماد بخشتا ہے۔اور کما کے لانا اس کو اپنے مفید ہونے کا احساس دلاتا ہے ۔ وہ فائدہ مند سمجھے جانے کے لئے اور روپے کمانے کے لئے اس سلطنت کواعتماد کے ساتھ اپنا کمال سمجھنے لگتی ہے۔ یا یو ں کہا جا سکتا ہے وہ اس کو کمال نہ بھی سمجھے مگر معاشی مجبوری اسے جاری رکھنے پہ اکساتی ہے۔ دوسری طرف اس کو انسانوں کی پر کھ پہچان حاصل ہوتی ہے۔ وہ شخصیتوں کے دہُرے میعارات کا مشاھدہ کرتے کرتے خود اس کا حصہ بن جاتی ہے۔ اسے اس منفی سلوک کا طریقہ بھی آ جاتا ہے جو گھر بیٹھ کے نہ آتا، یا تو وہ نیل میں ڈوب کے نیلو نیل ہو جاتی ہےیامرغ بچوںمیں بطخ بنی ٹھونگے کھاتی رہتی ہے ۔ گھر کی ذمہ داری تو پتھر کے دور سے عورت کی طرف منتقل ہے۔ مرد کے دست و بازو مضبوط تھے۔ وہ لکڑ کاٹھ توڑ لیتا، ایندھن جمع کر لاتا، شکار پکڑ لاتا، عورت آگ جلاتی،  اس کو پکاتی، پکانا ،اچھا بنا کے پکانا، پھر پیش کرنا جہاں باہمی محبت کا وسیلہ بنا وہاں ایک کام حکم کا دوسرا تابعداری کا ہوتا چلا گیا۔ ایک فیصلے کا ،دوسرا عمل درآمد کا۔ یہ صدیوں کا سلسلہ عورت کی سلطنت تو نہ بنا عورت کا فرض ٹھہر گیا۔

ثسوال9:بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے کی عورت کی ذہنی وسعت محدود ہونے کی وجہ اس کی معاشرتی زندگی کا محدود ہونا ہے۔جس کی وجہ سے اکثر خواتین بڑا ادب تخلیق کرنے سے قاصر ہیں۔آپ کی رائے کیا ہے؟

جواب: سوال کڑوا ہے ۔ جواب بھی تلخ ہے اور طویل بھی ۔ دنیا کی پہلی عورت کی تخلیق دنیا کے پہلے مرد کی تخلیق سے یکسر مختلف تھی ۔مرد کو مٹی سے بنایا گیا۔ عورت کو کن کے حکم سے مرد کی پسلی سے وجود دے دیا گیا۔ دونوں کے جسمانی عوارض، بھوک ،پیاس اور موت زندگی کو دیکھ کے یہ سادہ سا فیصلہ نہ کیا جائے کہ دونوں ایک سا سوچتے ہیں۔ میں تو اسلام کو لے کے ہی ہر بات کی سیکالوجیکل وضاحت کروں گی ۔مرد کی جنت کی خصوصیات گن کے بتا دی گئیں؛ کیونکہ مرد کی سیدھی سیدھی طلب ہے اشتہا کا  سیراب ہونا ۔کسی بھی جہت میں اس میں منظر کی رعنائی دلربا عورت لذیذ کھانے وغیرہ ہیں مگر عورت کی طلب سیدھی نہیں ہے۔ اس کو یہ چیزیں خوش کر بھی سکتی ہیں اور نہیںبھی ۔ سو اس دنیا میں عورت کی سوچ کی اپروچ ٹیڑھی ہے ۔ یہ تو ہوئی ایک نفسیاتی وجہ۔ عورت کو صدیوں سے جو سماجی مقام بلکہ جگہ ملی ہوئی ہے، اس پر تو نظر ڈالیے ،اس پر اگر ایک بھی اور ذمہ داری نہ ہو؛ اولاد کو پیدا کرنا تو اس پہ ہے ہی، وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے اولاد کو پالا نہیں ہو گا، ملازمین نے پالا ہو گا مگر نو ماہ پیٹ میں رکھنے کا بوجھ تکلیف اور معاشرے میں چھپنے والی حالت سے تو گزرنا پڑا، یہ تو ایک حکمران عورت کی بات ہے، باقی ہر عورت اس سے کہیں زیادہ مسائل کو فیس کرتی ہے۔ عورت علامہ اقبال سی شاعرہ بنی نہ بن سکتی ہے۔ علامہ کے معمولات تو دیکھیے۔ دانشوروں کی محفل لگی ہے۔ ایک جاتا ہے، دوسرا عالم فاضل آ جاتاہے، ملازم حقہ تازہ کر رہا ہے۔غالب کے پایہ کی شاعرہ ۔۔توبہ توبہ کبھی ہو ہی نہیں سکتی۔غالب کے معمولات دیکھیے ۔ لکھ رہےہیں ،گنگنا رہے ہیں۔ غم زمانہ اپنی جگہ مگر چولھا چوکی نہیں کرنا، جھاڑ پونچھ، دھلائی رنگائی بیسوئوں بکھیڑے عورت کے دم سےہیں۔ یہ جو آپ حضرات کو مشاعروں اور ادبی شاموں میں سنوری، ستھری خواتین نظر آتی ہیں؛ یہاں تک آ کے بیٹھنے سے پہلے سینکڑوں گھریلو بکھیڑے نمٹا کے آئی ہو تی ہیں جبکہ مرد صبح سے اپنی تقریر کو سوچ رہا ہو گا؛ شاعری کو درست کر رہا ہوگا،اس کا دماغ پر سکون اور یک سو ہو گا۔یہی سہولت مرد کو روزگار میں عطا ہے۔ کام کر کے آتا ہے تو سینت سنبھال کے پوجا جاتا ہے کہ تھکا ہارا آیا ہے،اس کا خیال رکھو۔ اگر اسے کچھ گھر میں آ کے کرنا بھی ہے تو اس کی حثیت ثانوی ہے ۔وہ اس کی جان کامسئلہ نہیں ۔میںمجموعی صورتحال کی بات کر رہی ہوں ۔یہ مت حوالہ دیا جائے کہ فلاں فلاں یوں کرتا ہے۔ اب اگر اس کی جگہ عورت عالم فاضل ہے، اعلیٰ ملازمت بھی مل گئی، شاعرہ بھی ہے، دماغ و دل تو پرواز کر رہے ہیں مگر چار دیواری کے اندر ہے یا باہر، دونوں طرف بھاری سماجی ذمہ داریاں ہیں۔ کیا کبھی ملازم شاعرہ بہو کو سسرال بخش دیتا ہے کہ لین دین ،ملنا جلنا نہ کرے۔ اسے ہر رشتے کے تقاضے کو پورا نبھانا ہوتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ انسان کبھی ہر شعبۂ حیات میں پورے نمبر لینے والا ،سبقت پہ رہنے والا نہیں ہو پاتا ۔ بڑے بڑے ادبا دانشور تک کی زندگی دیکھ لیجئے ۔پھر مشہور ،مقام رسا، عورت کے ساتھ اس سے بھی بڑھ کے یہ دشواری ہے کہ عورت وہی اعلیٰ لکھے گی جو ازدواجی زندگی سے ناکام ہو گی یا ہو جائے گی جیسے پروین شاکر، قرۃ العین حیدر نے شادی نہ کی ۔

ثسوال: قومی سطح کی ادبی تنظیموں کے سربراہ عموماََ مرد ہوتے ہیں۔اس حوالے سے عورت بہت پیچھے ہے۔ایسا کیوں ہے۔یہ تو ذاتی ذمےداری اور شوق کی بات ہے،مرد کا اس میں کیا قصور؟

جواب: مجھے ہنسی بھی آ رہی ہے کہ جتنے بھی سوال ہیں ان میں مجھے یہ دہرانا پڑا ہے کہ اچھی عورت کو ہمارے معاشرے میں کن شرائط پہ اچھی قرار دیا جاتا ہے۔ عورت ادبی تنظیموں کی سربراہ کیوںنہیںہے۔ ذرا سا بھی غور کروں تو یہی کہوں گی اس بے چاری کو آزادی ،ماحول اور فرصت کہاں؟ ابھی پچھلے دنوں میں ایک ٹی وی ڈرامے کا سین دیکھ رہی تھی جس میں عورت جاب سے دیر سے آرہی ہے؛ مرد باورچی خانے میں بیٹے کو انڈا فرائی کر کے دے رہا ہے، وہ اس میں بہت پریشان ہے ۔دیر کر رہا ہے اور مظلوم کر کے دکھایا جا رہا ہے۔ حالانکہ اس میں مظلومیت کا کوئی پہلو نہیں مگر ناظرین اس طرح نہیں سوچ رہے ہوں گے ۔یہ ہے ہمارا معاشرتی رویہ اور سوچ۔ میرےشہر کے معروف سینئر شاعر تھے رضا توانہ صاحب مرحوم؛ انہوں نے مجھے پیش کش کی کہ وہ ادبی جریدہ نکالتے ہیں میں اُس کی مدیر بن جائوں۔ اُن کی ادبی تنظیم کی شریک سربراہ بن جائوں۔ میں نے معذرت کر دی اس لیے کہ بقول ایک خاتون رائٹر آپ کی بیٹیاں بھی ہیں۔ مبادا کل کو اُن کے مستقبل میں مشکلات پیدا ہوں ۔ تاہم کچھ خواتین یہ کام کر رہی ہیں۔ پنجابی ادبی تنظیم کے حوالے سےصغرا صدف صاحبہ ہیں۔ جو بی بیاں مینج  کر رہی ہیں وقت نکال رہی ہیں، وہ بھی درست کر رہی ہیں ۔جو صرف تخلیقی کام پہ توجہ دے رہی ہیں وہ بھی درست کر رہی ہیں۔ ادبی رسالہ نکالنا یاتنظیم بنانا اور چلانا سراسر  سوشل متحرک رہنے کا کام ہے۔ اس میں اپنی شہرت بھی بہت جلد ہو تی ہے۔ہم لوگ مدیران کو جانتے ہیں۔ہر لکھنے والے کو نہیں ۔ اس میں مل بیٹھ کے علمی گفتگو کرنے کا مزہ بھی ہے۔ذہنی ارتقاہوتا ہے۔ معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے ۔

ثسوال12:ادبی گروہ بندیوں میں جکڑے ادبی معاشرے میںعورت الگ تھلگ کھڑی ہے؛اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟

جواب:جہاں تک ادبی گروہ بندیوں اور تنظیموں کا تعلق ہے،عام طور پر عورت ان کی سربراہ یا اہم رکن نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ ان کے عروج وزوال سے کم متاثر ہوتی ہے۔ ادبی نظریاتی گروہ بندی مثلا ترقی پسند / روایتی / جدید / مابعد جدیدیت کے رحجانات کا خاتون ادیب کے قلم پہ کچھ حد تک اثرہو سکتا ہے۔ شاعرات میں اس کو دیکھا جا سکتا ہے لیکن جس طرح مرد حضرات میں ایک جھنڈے کا گروپ دوسرے پہ خشت باری کرتا ہے اورہر رسالے میں مشکیں کس کے تیار رہتا ہے وہ عورت کی طرف نہیں ہے۔ اس کی ایک نفسیاتی وجہ ہے ۔ عورت ہمیشہ عورت سے محاذ آراہوتی ہے ،اگر یہ تنظیمیں یکسر عورتوں پر مشتمل ہوتیں تو ان کی جدل دیکھنے والی ہوتی، میرے اس پاس کے چھوٹے سے شہروںمیں ایک خاتون ایک ادبی انجمن بناتی ہے تو چند اجلاسوں کے بعد اس کی ممبر اپنی الگ ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا لیتی ہیں کیونکہ سب کو صدر بننے کا اشتیاق اور عمر میں کم مگر لکھت میں سبقت کا دعوی رہتا ہے۔ یہ ایک دلچسپ نفسیات ہے ۔ عورت میں عورت کے سامنے برداشت کم ہے۔ عورت ہی عورت کی نفسیات کو جانتی ہے۔ تنائو کا ماحول سرعت سے پیدا ہو جاتا ہے لیکن اگر ادبی تنظیم کسی مرد لکھاری کے زیر انصرام ہو تو عورت بہترین معاون کی حیثیت سے کام کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ادبی جرائد بھی زیادہ تر مرد نکالتے ہیں۔ تاہم حجاب عباسی کا ادب عالیہ، صدیقہ بیگم کا ادب لطیف (جسے تمامتر ناصر زیدی چلا رہےہیں ) شبہ طراز کا تجدید نو (جو بندہو چکا ہے) میرے علم میں ہیں۔ اب اس ضمن میں میرا ذاتی تجربہ سن لیجئے ملتان کی ایک شاعرہ سے ملنا جلنا تھا ۔ہم نے سوچا کہ خواتین کے لئے ایک ادبی پلیٹ فارم بنائیں۔ہم فون پر گھنٹوں اس پر ڈسکس کرتے، اس نے کہا آپ نام سوچیں، میں نے ناموں کی فہرست سوچی ،اس میں سے’’ ادبی آنگن ہمیں‘‘ پسند آیا۔ اس نے اپنی والدہ کو بھی میرے دیے گئے نام دکھا کے مشورہ لیا۔ انہوں نے بھی مذکورہ نام پسند کیا ۔ادبی آنگن کی وہ صدر بنی میں سیکرٹری ۔ ملتان میں ادبی یا نیم ادبی عورتیں میرے شہر مظفرگڑھ کی نسبت بہر حال زیادہ ہوتیں۔ لہذا اکثر تقاریب وہیں رکھ لیتے۔ میں مہنگی ڈشیں بنا کے لے جاتی ۔گاڑی کا پٹرول ڈرائیوروغیرہ میرا، میزبانی کا سہرا وہ باندھ لیتیں۔ہر تقریب میں ایک گھنٹا کسی لڑکی سے وہ اپنی تعریف کا مضمون پڑھواتیں ۔سینئر رائٹر میں تھی۔ میں نے مظفرگڑھ ڈگری گرلز کالج میں ادبی آنگن کا بڑا پرو گرام کرایا۔ جب تنظیم نے قدم جما لیے تو اس نے کہا آپ الگ ہو جائیں،یہ میری تنظیم ہے ۔میری ماں نے اس کانام رکھا؛یعنی میں میں اور میں۔فطرتاََ میں اپنی تعریف کر نہیں سکتی ،زبانی محاذ آرائی سے مجھے خارہے ۔ میں الگ ہو گئی ۔ ممکن ہے میر ا تجربہ سب کا نہ ہو ۔لیکن میرا مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ جہاں خواتین کا بس چلااور انھیں جگہ مل گئی وہ بھی وہاںادبی گروہ بندیوں کا شکار ہو گئیں۔

ثسوال:ایک خاتون کے ناتے کیاآپ ادبی تقریبات میں مرد ادیبوں کے رویے سے مطمئن ہیں؟

پہلے تو مجموعی مردانہ رویہ کی بات ہو جائے ۔ بھئی مرد نے عورت کے ساتھ خوب ہاتھ کیا۔ صدیوں کا مردانہ معاشرہ عورت کو اندر تک دبا گیا۔ مسخ کر گیا۔ عورت نے خود کو نمایاں کرنے یا اپنی طرف توجہ لینے کے لیے محبوبیت کا سہارا لیا۔ عورت کی ذہنی رسائی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کے پنجرے کو آسمان قرار دے گئی۔ عورت عورت کے خلاف پھنکارنے لگی۔ اس لئے کہ اس کا تحت الشعور کسی جگہ خود تسلیمی چاہتا تھا۔ کیا رکاوٹ ہے عورت کو اگر وہ رات کے بارہ بجے اپنے بچے کو اپنے سائیکل پہ بٹھا کے ہسپتال چلی جاے ؟ کیا رکاوٹ ہے عورت کو اگر وہ ماں کے گھر سے سسرال رات کو اکیلی آئے ؟ کیا رکاوٹ ہے عورت کو اگر وہ چکی پہ آٹا پسوانے دے آئے کہ اس کے گھرکو بھی روٹی چاہیے۔ مرد نے باہر رکاوٹیں کھڑی کیں۔ اندر آ کے عورت کو دھمکایا، جتایا، دبایا، سنایا اور اب ادبی تقریبات میں مرد کا رویہ کا جواب: مرد کا رویہ بہ حیثیت مرد تو وہی ہوتا ہے جو سماج میں ہے۔ تاہم وسیع دماغ با علم حضرات کا رویہ احترام اور عزت کا ہوتاہے۔ مین تو ادبی تقاریب کم ہی اٹنڈ کرتی ھوں ۔ جونیئر یا کم مشہور شعرا کا   دیکھنا، بولنا ابھی تربیت مانگتا ہے۔  بہرحال یہ مجموعی طور پہ مناسب ہے۔

ثسوال: بعض ادیبوں نے زنانہ نام سے لکھا ہے،فوری طور پر مینا ناز کا نام یاد آ رہا ہے،اس کی کیا وجہ ہے؟کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے ؟

جواب:اس سوال دو دلچسپ پہلو ہیں۔ ایک طرف مرد ادیبوں نے زنانہ ناموں سے لکھا ہے تو دوسری طرف خود عورت ادیب نے اپنا نام بدل کر یعنی چھپا کے لکھا ہے۔ اول الذکر کی مجبوری نسائی رسالوں کا پیٹ بھرنا یا مقبولیت حاصل کرنا تھا، مگر عورت کا اپنا نام پوشیدہ رکھ کر لکھنے کے پس منظرمیں روایات سماج اور پابندیاں رہیں۔ کچھ تو نام ہی مردانہ ٹائپ ہوتے تھے جیسے اختر جمال، رشید جہاں ،یہ خواتین ادیب تھیں ،کچھ خود کو بنت فلاں، بیگم فلاں لکھواتیں ۔دور کیوں جائیے۔ میری بڑی آپا نے 70 کی دہائی میں افسانے لکھے ۔انعام بھی پایا۔ اُن کے اصلی نام کی بجائے’’عائشہ صدیقہ‘‘لکھا جاتا تھا اور میں کالج کی عمر میں رسالہ پا ک جموریت میں ندرت خانم کے نام سے خوب شعلہ افشانی کرتی۔ ایک تو اصلی بندی ٹریس ہونے کا خدشہ نہیںہوتا دوسرے دل کھول کے بلا جھجک لکھا جا سکتا ہے مگر جیسے جیسے گھریلو ماحول سے والدین اور شوہر کی طرف سے عورت کو لکھنے پہ حوصلہ افزائی ملی یا کم از کم باز پرس کم ہوئی تو عورت ادبی نام کو ہٹا کے سامنے آ گئی ۔ آپ کے سوال کا دوسرا جزو یہ ہے کہ کیا یہ  طریقہ ٹھیک ھے؟ غلط کیونکر ہو سکتا ہے ،میں تو ویسے بھی اس نظریہ کے حق میں ہوں کہ مت دیکھو کون لکھ رہا ہے،یہ دیکھو کیا لکھ رہا ہے۔ لکھنے والے کے حالات زندگی جان کر اس کی تحریر کو پڑھنا اس کا حدود اربعہ طے کر دینا اس کے علم پہ شبہ کی نگاہ ڈالنا ہے، اسے میزان کا تول بنانا ہے، اس کی لمٹس مقرر کرنا ہے ۔

ثسوال:بیوی،بیٹی اور ماں کے شاعر ادیب ہونے سے ان کی گھریلو زندگی متاثر ہو سکتی ہے؟

جواب:سوال کی تفسیر یہ ہے کہ عورت کے شاعر یا ادیب ہونے سے اس کی گھریلو زندگی متاثر ہو سکتی ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ مرد اگر ان مقامات پہ ہو تو اس کی بیوی بیٹی ماں کی زندگی متاثر ہو سکتی ھے۔ چلو دونوں صورتیں ہی دیکھ لیتے ہیں۔ عورت کے شاعرہونے سے یا ادیب ہونے سے چنداں فرق نہیں پڑتا۔ اصل فرق تب پڑنے لگتا ہے، جب وہ ادبی تقاریب میں جانے لگتی ہے۔ اس کے ہاں ادبی برادری کے مرد یا اُن کے فون آنے لگتے ہیں یا اس کی بیرونی سوشل سرگرمیاں اس کو مشہور اور جانی پہچانی بنا دیتی ہیں ۔ باپ ،شوہر، بھائی کی غیرت پہ تب “داغ” لگنے کا ڈر باپ، شوہر بھائی کو بھڑکا دیتا ہے۔ یہ مجموعی صورت حال نہیں ہے مگر نصف مجموعی ہے۔اپنی میز پہ بیٹھ کے لکھنے سے جبکہ وہ گھریلو و دیگر ذمہ داریاں پوری کر رہی ہو، اصحاب خانہ کو گزند نہیں پہنچتا، البتہ یہ بھی ایک طنز یا طعنہ بن سکتا ہے۔ شاعرہ یا ادیبہ کی بیرونی سرگرمیاں تقاریب، شامیں، مشاعرے کسی حد تک واقعی اس کے گھر کو متاثر کر بھی رہے ہوتے ہیں۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ پروین شاکر پارلر سے تیارہو کے مشاعرے میں جاتی تھیں ۔یہ صرف ان کی بات نہیں بیشتر خواتین ایسا کرتی ہوں گی۔ یہ نسائی فطرت ہے۔ وہ مرد کی طرح واش انیڈ ویئر جوڑا اور چپل پہن کے شاملِ مشاعرہ ہو جاتا ہے  ۔ عورت کا تیارہونا معمول کی بات ہی کیوں نہ ہو ،گھر والوںکھٹکتی ضرور ہے۔

شاعر ادیب مرد کی سرگرمی سے خواتین خانہ کی بھی سوچ اور زندگی متاثر ہوتی ہے۔ ماں ہو یا بیٹی یا بہن سب چاہتی کہ روزگار کی مشقت سے فارغ ہو کے سب مل بیٹھیں ۔ایک دوسرے کو وقت دیں مگر شاعر کو فرصت کہاں ۔ دوست،آوارگی، تقاریب، اور ان کا نشہ کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ مگر اس سارے امر کا مثبت پہلو ہے شہرت۔ جس سے تمام اہلِ خانہ مستفید ہوتے ہیں۔ کلاسک شعرا کی بیٹیاں، بہنیں ایک پر کشش تعارف حاصل کر لیتی ہیں۔اسی طرح خاتون کی شہرت بھی مرد کو فائدہ دیتی ھے۔ میرا خیال ہے سمجھدار خاندانوں میں مرد یا عورت کا لکھاری ہونامسئلہ نہیں بنایا جاتا۔ احمد ندیم قاسمی کی صاحب زادیوں کو یا کسی بھی نامور ادیب شاعر کے خانوادہ میں سے لکھاری فرد کو اپنی پہچان کے لئے وہ تگ ودو نہیں کرنا پڑتی جو ایک عام شاعر ،ادیب کو کو کرنا پڑتی ہے،جس کی پشت پناہی کرنے والا کوئی نہ ہو۔ سوال کے ایک اور پہلو کو بھی توجہ میں لایا جائے۔ خانہ داری نے عورت کو کہاں کہاں نہیں نقصان دیا۔ خانہ داری کا انعام تو عورت کی اپنی تسلی ہوتی ہے مگر یہی مصروفیت اسے کسی بھی میدان میں آگے بڑھنے سبقت لے جانے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ گھر کی ماں /بیوی اپنے ارد گرد کتابوں، رسالوں، اخباروں، کمپیوٹر لیپ ٹاپ کا انبار لگا کے مطالعہ کا لطف لے رہی ہے، وسیع وثرن سے لکھتی رہے، پھر تیار ہو کے ادبی مباحثہ میں جاتی، واپس آکے فونز پہ مصروف ہوتی دکھائی دیتی رہے اور آپ اسے معمول کی بات سمجھیں ؟ جبکہ آپ کے ہمارے یہ کلاسک شعرا ایسے ہی بنتےہیں؟ اوپر سے طعنہ ،طنز، تنقید، کہ بہترین ناول نگار عورت کیوں نہیں۔ نمبر وَن شعرا میں عورت کیوںنہیں ۔ اقبال، فیض، غالب جیسی عورت کیوں نہیں ۔ کیا انصاف ہے مرد کا۔

ثسوال: حقوق نسواں کے لیے کوئی ادبی تحریک چلا ئی گئی؟یا چلا جا سکتی ہے؟کون سی خاتون لیڈر کا کردار ادا کر سکتی ہے؟

جواب: دلچسپ بات۔لگتا ہے آپ مجھ سے عورت کے بارے میں اتنے سوالات اس لیے کر رہے ہیں تاکہ میری وجہ سےمرداور عورت کے درمیان لڑائی ہو جائے ۔لیکن عرض کرتی چلوں کہ سماجی طور پہ اب عورت اتنی  ترقی یافتہ ہو چکی ہے کہ اس کے حقوق کی تحریک چلانے کی ضرورت نہیں رہی۔ عورت میں تعلیم کا ریشو  بڑھ گیا ہے۔ میڈیا ٹی وی کے بعد،ہاتھ ہاتھ میں موجود موبائل کے گوناگوں ایپس راہ دکھانے ،سکھانے، سمجھانے کو کافی ہیں،مزید برآں خواتین کے حقو ق کے لیے تنظیمیں، این جی اوز، اور ادارے بھی سرگرم عمل ہیں۔ اب چلتے ہیں اس بات کی طرف کہ ادبی سطح پہ بھی حقوق نسواں یا شعور نسواں کی کوئی تنظیم ہونی چاہیے ۔ پہلے پہل تو میں بھی یہ آئیڈیا سوچ کے خوشی سے اچھل پڑی مگر جب اس کے بارے مزید تفصیل سے سوچا تو غیر مفید لگا ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ادبی عورتیں پڑھی لکھی ہوتی ہیں ان کے اجتماع میں سمجھے کو سمجھانا بیکار شغل ہے، البتہ ادبی خواتین اس کا دائرہ کار اپنے حلقے سے باہر تک بڑھا سکتی ہیں تو وہ تو نسائی حقوق یا ویمن رائٹس کی انجمنوں کی شکل ہو گئی۔ اگر ادبی خواتین سر جوڑ کر مل بیٹھیں اور عورت کے شعور کے لیے کوئی خدمت سر انجام دینا چاہیں تو صد بسم اللہ؛ مگر اس کے اوپر بھی وہی، صدر کون؟ سیکرٹری کون؟ بڑا کون؟ خا ص کون؟ کی رسہ کشی شروع نہ ہو جائے ۔

 ثسوال:بعض خواتین کے بارے میں ناقابل بیان روایات ادیبوں کی محفل میں بہ طور لطیفہ یا چٹکلہ سننے کو ملتی ہیں۔ان روایات کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے میں خواتین کا کتنا قصور ہے؛مرد حضرات کے اس طرز عمل پر بھی کچھ فرمائیں۔

جواب: میرے خیال میں ایسے سوال بلوچستان، ژوب، چوٹی زیریں چوٹی بالا اور دور افتادہ غیر تر قی یافتہ علاقوںکے لیے الگ کر دیے جائیں تو بہترہو گا۔ جن شاعرات یا لکھاری خواتین نے مرد حضرات کے ساتھ جڑ کے جھگڑ کے ایک پیالی میں چائے پی کے صبحیں شامیں بتائی ہیں ؛اُن میں حد ادب ، یا’’ عورت کانچ ہے سنبھل کے بولو ‘‘ کے اصول لاگو نہیں ہوتے۔ کشور ناہید کی کتاب ’’شناسایئاںرسوایئاں ‘‘پڑھ کے لگتا ہے کہ اپنے وقت کے سب کلاسک ایک زمانےمیں ایک جگہ جمع ہیں۔ منو بھائی ،حبیب جالب، امانت علی خان، جاوید شاہین یوسف اپنی اپنی بیئر کی بوتلیں رسی سے باندھ کے نہر میں ٹھنڈی ہونےکے لیے چھوڑ دیتے ۔تو کہنا میں یہ چاہتی ہوں کہ عورت جب آدمی شمارہو کے رَل مل کے رہے گی تو اس کا خاکہ اس کی سچی تصویرہی ہو گا۔ کشور ناہید کو happy widowکہا گیا ۔ جون ایلیا نے کہا تھا اس حرافہ نے آزادی کی تحریک چلا کر میری بیوی کو گمراہ کیا۔ یوسف کامران کی موجودگی میں سلیم اختر نے مصمون لکھا :کشور ناہید کی شاعری میں sex deprivation نظر آتی ہے مگر یوسف کامران ہمارا دوست ھے ۔حقوق نسواں کی تحریک اور اکیسویں صدی کا دوسرا عشرہ ! ھاھا۔ صاحب یہ اٹھارویں صدی کی تحریکیں تھیں۔ سر سید کے زمانے اور دور برطانیہ میں جچتی تھیں، اب’’ نسواں ‘‘ستاروں پہ کمند ڈال رہی ہے۔ تعلیم میں مردوں سے آگے ہے۔

 ثسوال:کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر انڈین افسانہ نگار شموئیل احمد کے افسانے ’’لنگی‘‘پر بحث ہوتی رہی۔افسانے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میںاساتذہ، ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح کی لڑکیوں کو مختلف طریقوں سے بلیک میل کر کے ان کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ایسا ہونا ممکن ہے؟جب کہ طالبات نے کبھی اس قسم کی شکایت نہیں کی۔

جواب:میں نے یہ افسانہ نہیں پڑھا لیکن ایسا ہو سکتا ہے۔ سپروائزر کی شخصیت اور فطرت پہ اس کا دار ومدار ہے۔ اس کے ہاتھ میں طالبہ کا مقالہ ہی نہیں، مستقبل اور کیریئر بھی ہوتا ہے اور یہ اندازہ ہر شخص کر سکتاہے کہ انسان سب ایک جیسے نہیںہوتے۔اس کے علاوہ استحصال لفظی بھی ہوتا ہے۔ گفتگو کو رنگین کیا جاسکتا ہے،وقت کو طول دیا جاسکتا ہے ۔ اس معاشرے میں کیا نہیںہو رہا۔ بوایز سکول میں بچوں کو دیر تک روک کے برائی کرنے والے بھی ہیں۔ سکول ہو یا کالج، ٹیو شن سنٹر ہو یا یونیورسٹی ہو، برے کہیں بھی کسی بھی اتھارٹی کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن میں اس اَمر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ واقعات میں طالبات خود بھی رجھانے سے مدد لے کے کام نکلوانا چاہتی ہیں۔ وہ ایک خاص پروٹوکول سے لطف اندوزہونے کے لیے دلبری کی کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہوتی ہیں۔رہی یہ بات کی طالبات نے کبھی اس قسم کی شکایت نہیں کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو خواتین یا طالبات دانستہ اس میں ملوث ہوتی ہیں وہ کیوں ذکر کریں گی۔ جو بے بس اور مجبورہوتی ہیں، وہ عزت کو لوگوں پہ قائم رکھنے کو چپ رہتی ہیں۔

ثسوال: اکثرمرد حضرات کی وفات کے بعد ان کا کلام،یا افسانے وغیرہ ان کی اولاد چھاپ کرمنظر عام پر لے آتی ہے،خواتین ادیب کے ساتھ ایسا ہوتا نظر نہیں آیا۔اس پر کچھ گفتگو پسند فرمائیں گی؟کہیں پس ماندگان اس عمل کوباعثِ ندامت تونہیں سمجھتے؟

جواب:سوال تو دلچسپ ہے،اور یہ تحقیق کرنے والی بات ہے۔ خصوصا مشہور خواتین کے حوالے سے ایسا کوئی کام ہوا ہے یانہیں، عمو می طور پر تو یہ ہوتا ہے کہ خاتون شاعرہ یا ادیبہ کو اس کی حیات میں اہل خانہ گھر کی مرغی دال برابر سمجھتے ہیں اور کہیں کہیں تو عورت کی ادبی سرگرمیوں کو وقت کا ضیاع اور بے حاصل و حصول قرار دے کر ناپسند ید گی کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے تو ایسے میں اس ہستی کے جہانِ فانی سے گزر جانے کے بعد کس نے یہ تردد کرناہے؛ شاید اگر ادیبہ یا شاعرہ وصیت کر جاے تو بیٹا نہ سہی بیٹی حق محبت ادا کر دے۔ اس بات کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ خاتون قلم کار کی بذات خود عمر کے ساتھ لکھنے سے رغبت کم ھوتی ہے جب کہ مرد ضعیفی تک اس میں مشغول رہتے ہیں۔ اس کا بھی نفسیاتی سبب تو معلوم نہیں مگر ایسا ہی ہوتے دیکھا ہے۔ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور اپنی وفات سے بہت پہلے لکھتی چھپتی دکھائی دینا بندہو گئی تھیں۔ بانو قدسیہ سے ملاقات و گفتگو کا سلسلہ رہا مگر قلم انہوں نے رکھ دی تھی۔ جب کہ انور سدید، عبداللہ حسین، انتظار حسین وغیرہ اور اللہ سلامت رکھے تارڑ صاحب و دیگر متعدد ادیب و شاعربڑھاپے میں بھی سر گرم نظر آئیں گے۔

میرا خیال ہے اسے آپ شرمندگی نہیں کہہ سکتے۔ یہ بے کار خرچہ تردد جانا جاتا ہے۔  اس کی جانب توجہ ہی نہیں جاتی کہ یہ مرحومہ کا شوق تھا، مرنے والی جو لکھتی رہی انھیں کو محفوظ رکھ لینا کافی سمجھا جاتاہے۔

ثسوال: اگر آپ کی بیٹی ادب کی طرف آئے تو آپ اس کی حوصلہ افزائی کریں گی؟

جواب: جبلتی اظہار خیال کا حق سب کو ہے۔ اظہار خیال کا قرینہ اسے ادب بنا دیتا ہے۔ مجھے فخر  ہو گا اگر میری بیٹی زندگی کی الجھنیں ، تلخیاں ، کرب کو گہری نظر سے دیکھنے اور دکھانے کی حس لطیف  رکھتی ہو؛ اس کو اپنے من کا غبار نکالنے یعنی کتھارسس کا وسیلہ بنائے ۔کسی بھی زبان میں نظم یا نثر لکھے مگر میں یہ بات اُس کو سمجھا دوں گی کہ اس میدان میں اپنے ہنر کا لوہا منوانے کی جستجو میں نہ پڑے ورنہ اپنے لیے دق پالے گی۔یہ فکر ترک کر دے کہ فلاں کی فلاں معمولی کاوش کی اتنی پذیرائی میرے فلاں شاہ کار کی اتنی نطر اندازی ۔ اور یہ بھی کہ گروپ، گروہ، تقریبات سے مکمل پرہیز کرے۔ تقریبات اس کے کام کو کم، گلیمر کو زیادہ ویلکم کریں گی،اس لیے اس دلدل میں نہ اترے ۔نیک و بد ہم تم کو سمجھائے دیتے ہیں ۔ کاغذ سے کاغذ تک  اگر مطمئن رہ سکتی ہو تو اپنی انگلیاں قلم کر لو، لہو کی روشنائی بنا لو ۔ یہ بھی مت سوچنا کہ تم اپنی تحریروں سے کچھ بد ل لو گی۔ یہ تو جنون بے سود ہے۔

دردانہ صاحبہ! بہت نوازش۔میرا خیال ہے ہمارا انٹرویو مکمل ہو چکا ہے۔ آپ نے خاص طور پر خواتین کی عمدہ نمائندگی کی۔آپ گاہے گاہے اس بات پر معترض رہیں کہ :’’مجھ سے خواتین کے متعلق کیوں پوچھا جا رہا ہے‘‘؛لیکن ہمارا مقصد آپ کی وساطت

سے خواتین کے مسائل جاننا تھا؛جس میں ہم کافی حد تک کامیاب رہے۔

جواب۔یہ بات آپ اب بتا رہے ہیں!بہر حال ہمارا مکالمہ خوب رہا۔اب تو میں خواتین کو کہ سکتی ہوں کہ اس مکالمے کو ضرور پڑھیں۔

تحریریں

ایم فل
پروفیسر اردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج اٹک

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے پسِ منظرمیں لکھی گئ ایک نظم

بدھ دسمبر 16 , 2020
سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے پسِ منظرمیں لکھی گئ ایک نظم
Imran Asad

مزید دلچسپ تحریریں